18 ویں ترمیم - اختیارات کی جنگ

ہفتہ 20 جون 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

جمہوریت اور وفاق کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور اسی ساتھ کو نبھانے کے لیے عوامی طاقتوں اور اختیارات کا مناسب اور جائز استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ وفاق اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب اس کی اکائیاں اپنی اہنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہی ہوں اور طاقتوں کے استعمال متوازن ہو اور اعتدال کے ساتھ اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچایا جا رہا ہوں ۔


پاکستان ایک جمہوری اور عوامی وفاقی ریاست ہے جو کہ دستور کے مطابق ایک مرکز اور چار اکائیوں پر مشتمل ہے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ ٢٠ کروڑ افراد کے لگ بھگ ہے ۔ پنجاب آبادی کے لحاظ سے زیادہ جبکہ بلوچستان کم گنجان آباد ہے ۔ وسائل کے اعتبار سے اللہ نے ایک متوزن ترازو رکھا ہوا ہے کوئ اکائ پانی تو کوئ معدنیات کوئ اناج تو کوئ تجارتی وسائل سے مالا مال ہیں ۔

(جاری ہے)


مذہبی اور لسانی بنیاد پر تنوع پایا جاتا ہے اوت اسی تنوع کو زیر کرنے کے لیے وفاق کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ وفاق تنوع میں بھی یگانگت اور اتحاد لانے کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔وفاق میں طاقتیں مرکز اور اکائیوں کے درمیان بانٹی جاتی ہیں اور زیادہ تر اکائیاں اپنی سالمیت اور فیصلہ سازی کے اختیار وفاق کے سپرد کر دیتی ہے لیکن اس عمل میں بھی اپنے مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے ۔


اسلامی جمہوریہ پاکستان نے وفاق کو اپنے جہیز میں کالونی نظام سے لیا تھا اور چند ردوبدل کے ساتھ نافذ کر دیا تھا ۔  ١٩٥٦ء میں صدر ایوب کے زیر اثر پہلا دستور عمل میں لایا گیا تھا لیکن اس میں صدارتی نظام کو اپنایا گیا جس میں طاقتوں کا محور صرف اور صرف صدر ہی تھا ۔ فیلڈ مارشل کے زیر اثر ایک اور دستور ١٩٦٢ء میں عمل میں لایا گیا تھا لیکن حقیقی اور جمہوری معنی میں ١٩٧٣ ء میں مکمل دستور کا نفاذ زیرعمل آیا جس میں ریاست کو وفاق کا درجہ دیا گیا اور مرکزی حکومت کا سربراہ جس کو وزیر اعظم کہا جاتا ہے کو طاقتوں کا سرچشمہ بنایا ۔

قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا انتخاب کیا گیا, جس میں مختلف پیمانوں کے ذریعہ نمائندگان کا انتخاب کیا جاتا تھا۔
اس پہلے تحریری دستور میں تمام اختیارات کو واضح طور پر بانٹا گیا اور یہی وفاق کی کامیابی کا سر چشمہ سمجھا جاتا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ, مرکزی حکومتوں اور اکائیوں جو کہ صوبوں اور چند متصلہ علاقوں پر مشتمل ہیں کے درمیان اختیارات کی ایک نئ جنگ چھڑ گئ ۔

محرومی کے احساس اور عدم اعتماد کی جنگ کے اختتام کے لیے دستور میں چند ایک تبدیلیاں کی گئ جس میں  ٢٠١٠ ء میں کی جانے والی  اٹھارویں ترمیم بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل تھی ۔ اس ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے درمیان مختلف شعبوں کے لین دین پر معاملات طے ہوۓ۔ وزیر اعظم کے منتخب ہونے کے دورانیہ کو بڑھا دیا گیا اور معاشی بور پر صوبوں کو خود مختیار بنا کر وسائل کے موثر استعمال کو ترجیح دی گئ۔

مرکزی حکومت مخصوص رقم سالانہ بجٹ سے صوبوں کو فراہم کرے گی ۔
ان تمام اقدامات کا مقصد لوگوں کی محرومیوں کو دور کرنا تھا اور ان کو تمام سہولیات ان کی دہلیز پر پہنچا کر اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچانا تھا ۔اس ترمیم کے مطابق صوبوں کے ذمہ داری ہے کہ وہ اختیارات مقامی حکومتوں تک پہنچاۓ ۔
حال ہی میں,  کچھ خبریں زیر گردش تھی کہ حکومت وقت  ١٨ ترمیم سے ناخوش نظر آرہی ہے اور وزراء کے بیان اس بات کے شواہد ہیں ۔

تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور منصوبہ بندی کے وزیر نے  ١٨ ترمیم میں چند خامیوں کا ذکر کیا تھا جن میں تعلیم اور صحت کا شعبہ کے متعلق بات نمایاں تھی ۔ کرونا کی وباء کے دوران مرکزی اور صوبوں کے درمیاں بد اعتمادی اور اختیارات کی بندر بانٹ کی فضا دیکھی گئ ہے ۔
موجودہ وقت کے وزیراعظم عمران خان نے سرکاری دورے پر صوبہ سندھ کا دورہ کیا جس میں انہوں نے احساس پروگرام کے تحت عوام میں پیسے بانٹے لیکن اقرباءپروری اورنفرت کی آگ اتنی سلگ رہی تھی کہ وہاں کے وزیر اعلی سے ملنا تک گوارا نہ کیا ۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق,وزیر اعظم عمران خان نے  ١٨ ترمیم میں ردوبدل کی طرف اشارہ پہ کیا اور ناقص انتظامات کی شکایت بھی سندھ کی حکومت سے کر ڈالی۔  تمام بیانات سے واضح حقیقت سب کے سامنے کھل کر نظر آرہی ہے کہ موجودہ حکومت  ١٨ ترمیم کے حق میں نظر نہیں آرہی ۔
 ١٨ ترمیم دستور کی اہم شق اور وفاق کو مضبوط کرنے کی اہم علامت گردانی جاتی ہے مگر بحثیت ایک سیاسیات کے طالبعلم اس شق کا اس وقت تک عام عوام تک کوئ پھل نہیں پہنچ پاۓ گا جب تک اختیارات بلیدیاتی مقامی نمائندوں تک نہ پہنچ جائیں ۔

اگر بغور مشاہدہ کیا جاۓ تو موجودہ مرکزی حکومت جو کہ   ١٨ ترمیم میں چند تبدیلیاں کرنے کی خواہش مند ہے, کسی حد تک درست اقدام کی نشاندہی بھی کر رہی ہے کیونکہ صوبوں کو بلا کسی روک ٹوک رقوم کی فراہمی کر دینا اور با وجود اس کے تمام شعبہ جات ناکامی کا منہ دکھانا, مرکزی حکومتوں کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں ۔ کوئ شخص ہر گز اس بات کو ترجیح نہیں دے گا کہ اس ترمیم کی جڑوں کو دستور میں سے اکھاڑ باہر پھینکا جاۓ ۔

اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی,  اہم شعبہ جات کی تقسيم اور صوبوں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لیے  ١٨ ترمیم میں تبدیل وقت کی  ضرورت بن گئ ہے ۔ اس کا مقصد محض مرکزی حکومت کو مضبوط کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایسے اقدامات کا جائزہ لیا جانے چاہیے جو کہ عوام دوست اور صوبوں میں اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کے حق میں ہوں ۔
موجودہ حکومت کو اس جیسے احساس اقدامات اٹھانے سے پہلے تمام مخالف جماعتوں اور صوبائ نمائندوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور اس کو انا کا مسئلہ بناۓ بغیر عوام کی فلاح و بہبود اور وفاق کو پھلنے کے لیے جلد زیر بحث لانا چاپیے ۔

معاشی و سماجی  حکمت عملی کو سامنے رکھتے ہوۓ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لا کر پارلیمنٹ کا موثر استعمال کیا جاۓ ۔ اگر حکومت وقت صرف اختیارات کے حصول کے لیے ایسا کرنے کا سوچ رہی ہے تو اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اس سے صرف ملک میں انتشار اور بد اعتمادی پھیلے گی ۔بداعتمادی ہمیشہ غلط راہوں پہ لی جاتی ہے جن سے واپسی بہت مشکل ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ پاکستانی قوم سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بھر چکی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :