فرسودہ نظام اور کارکردگی

پیر 27 جولائی 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

نہ جانے کتنے نایاب لوگ کرپشن کا شکار ہو کر زندگی میں خوش رہنے کی امیدوں کو کھو چکے ہیں ۔ بددیانتی,  اقرباپروری اور رشوت ستانی کہ وجہ سے ہمارے معاشرے کے  کئ محنت کرنے والے اور چمکتے ستارے آج کل یا تو کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں یا کسی جرم میں ملوث ہو کر اپنی زندگی کو تباہ کررہے ہیں ۔ تبدیلی کے دو سال کی کچھ جھلکیاں آنکھ کے سامنے سے گزر رہی تھی تو کوئی اس کو جمہوریت کی ترقی تو کوئی بادشاہت کے خاتمہ کا کہہ کر مٹھائیاں کھا رہے تھے ۔

مجھے اس بات نے حیرت میں ڈال دیا اور چند لمحات کے لیے اپنے ناقص اور غلامی پسند دماغ پہ زور ڈال کر موجودہ حکومت کی کارکردگی پہ نگاہ ڈالنے کی کوشش کی تو سواۓ ناقص انتظامی کارکردگی,  فیلڈرز کی پوزیشن تبدیل کرنے,  پرانی حکومت کے پروجیکٹس پر اپنا نام لکھوانے,  بحرانوں کی بھر مار اور اقتصادیت کی ترقی کی الٹی گنتی کہ لفافے اڑانے اور پرانی حکومت کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرانے کے علاوہ اور کچھ نہ پا سکا ۔

(جاری ہے)

مزید براہ,  دماغ کی شریانوں میں خون کو دوڑایا جاۓ تو معلوم ہو گا کہ ہمارے وزیراعظم کے مطابق مختصر کابینہ کے وعدے ان کی معاونوں اور وزیروں کی فوج کی نظر ہو گۓ ۔ گائیں, بھینسیں اور مہنگی گاڑیاں سستے داموں بیچ کر کفایت شعاری کی مثالیں دینے والے وزیراعظم کی رہاش کو تحقیقی مرکز بنانے میں ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔  بجلی کے شارٹ فال اور لوڈ شیڈنگ کی آمد نے  ان کی کارکردگی کے پول کھول دیۓ ہیں ۔

جنوبی پنجاب کے حوالے سے بات کی جاۓ تو چند حوصلہ افزا اقدامات اٹھاۓ گۓ ہیں ۔ محکمہ ریلوے کی۔طرف نظر دوڑائی جاۓ تو سواۓ حادثات کے سوا کچھ موصول نہ ہو گا اور موجودہ وزیر ریلوے کی بات کی جاۓ تو وہ خود کو  سیاسی نورا  کشتی کے پہلوان اور بڑھکیں مارنے میں سر فہرست ثابت کرنے کی جستجو میں لگے ہوۓ ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں اتما نقصان شعبہ ہوا بازی کو نہیں ہوا ہو گا جتنا موجودہ حکومت پہنچا چکی ہے ۔

دنیا بھر میں پاکستانی ہواباز کے امیج کو ٹھیس پہنچائی گئ۔
 اگر صوبائی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو سیاسی جماعت کے اندر ہی اختلافات اور آۓ روز وزراء اعلی کی تبدیلی کی خبروں کے سوا سننے کو کچھ نہیں ملا ۔ بی آر ٹی کے منصوبے کا ذکر کرنا موقع کی مناسبت سے دل شکن نہ ہو گا ۔ اگر بی آر ٹی کے منصوبے کو پاکستان کی تاریخ کا ناقص پروجیکٹ کہا جاۓ تو غلط نہ ہو گا ۔


خارجہ حکمت عملی کی بات کی جاۓ تو کچھ حد تک موجودہ حکومت مؤثر نڟر آئی ہے لیکن کچھ مقامات پر مواقع ضائع کیے جا چکے ہیں۔ محض بیانات پہ ہی اکتفا کرنا مناسب سمجھا ہے مگر عملی اقدامات کو اٹھانا مناسب نہیں سمجھا ۔
 ابھی 2013 کے مقابلے کے پیپر کی پریسی پڑھ رہا تھا تو معلوم ہوا کہ ہمارے سیاسی نظام کا معاشرے اور اقتصادی نظام سے گہرا تعلق ہوتا ہے ۔

جس طرح کا سیاسی نظام ہو گا اسی طرح کا اقتصادی و معاشرتی نظام دیکھنے کو ملے گا ۔  جہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنے رویے بدلنے کی اشد ضرورت ہے وہی ہمیں پرسودہ نظام کے تخت کو بھی الٹنا ہو گا ۔ تبدیلی کے دعوے دار دیکھیں تو اب وہ روایتی طریقوں پہ اتر آۓ ہیں کہ بس دن پورے کیے جائیں اور پھر بیڑا غرق کرکے پتلی گلی سے نکلا  جاۓ ۔ پرانے چہروں اور کٹھ پتلیوں سے سواۓ سیاست سے لوگوں کا اعتبار اٹھوانے کے سوا اور کچھ توقع کرنا بیوقوفی سے کم نہ ہو گا ۔

سیاست دان کرپٹ مگر کسی اور ادارے پہ بات آۓ تو وہ دودھ کے دھلے ہوۓ اور ساتھ ہی اک جزبات سے بھر پور گانا بھی ریلیز کردیا جاۓ گا تاکہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتے ہوۓ جذبات کے سمندر میں کہیں کمی نہ برپا ہو جاۓ ۔  صد افسوس کہ میں بھی اس نظام کا حصہ ہوں ۔سواۓ بے بسی کے آنسو بہانے کے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں جب تک حقیقی معنی میں لوگوں میں شعور اور تعلیم نہیں آجاتی اور اگر نہیں تو اگلے الیکشن میں تبدیلی جیسے نعرہ کا چورن بیچ کر,  چہروں کی کرسیاں بدل دی جائیں گی اور ڈونکی راجا کی آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر  وہی پرانے انداز سے اس کی باگیں ہاتھ میں پکڑ کر شہر کے چوراہوں پہ گھمایا جاۓ گا اور اگر کسی بڑی گاڑی کے ساتھ ٹکر کھا گیا تو الزام گدھے پہ ہی  آۓ گا نہ کہ کوچوان پہ اور یہ تماشہ یونہی چلتا رہے گا اور پاکستان آبادی کے لحاظ سے پھلتا پھولتا رہے گا کیونکہ غربت تو جانے نہیں لگی ۔


ایک مشہور فلاسفر اور لکھاری نے کیا خوب لکھا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نظام کو تبدیل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پرانے نظام کی بھی جڑیں اکھاڑ دیتے ہیں اور شاید ہمارے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :