کسان بچاؤ ۔زراعت بچاؤ

ہفتہ 18 جولائی 2020

Tahir Abbas

طاہر عباس

کسی بھی ملک کی ترقی کا راز اس کی جغرافیائی حدود میں پاۓ جانے والے وسائل کا ہونا اور اس سے بھی بڑھ کر  ان وسائل کا موثر استعمال کرنا ہوتا ہے ۔ خطہ ارض مختلف وسائل سے مالا مال ہے کہیں خام مال تو کہیں معدنیات اور کہیں پانی جیسی نعمتوں پہ مشتمل جزیرے تو کہیں زرخیز زمین کی فراوانی پائی جاتی ہے ۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز جانا جاۓ تو اول فہرست یہی ہو گا کہ کس طرح انہوں نے اپنے وسائل کا زیادہ سے زیادہ مثبت انداز میں استعمال کیا ہے ۔


پاکستان کا خطہ جس حدود میں واقع ہے اس کو قدرت نے قدرتی وسائل سے خوب نوازا ہے مگر ہماری بد قسمتی یہی ہے کہ ہم نے سواۓ دوسرے ممالک کو بیچنے کے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ۔ پاکستان ایک زرعی ملک کہلایا جاتا ہے جس کی تقریبا ٧٠ فیصد آبادی بلاواسطہ یا بلواسطہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان کی بڑی فصلوں میں گندم, چاول, گنا اور  مکئی شامل ہیں ۔

پاکستان زراعت میں ایک خود کفیل ملک ہے اور زراعت کا معیشت کا پہیہ چلانے میں بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ سالانہ پیداوار کا تقریبا  ٢٠ فیصد حصہ اسی شعبے سے آتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ برآمدات کا بڑا زریعہ سمجھا جاتا ہے ۔
جہاں زراعت ملکی ترقی میں اتنا اہم کردار ادا کرتی ہے وہیں پہ اس شعبے سے منسلک افراد کو لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

حکومت کی ترجیحات کا نہ ہونے جلتی پہ تیل کا کام کرتی ہیں ۔ اگر موجودہ صورت حال کی بات کی جاۓ تو کرونا کی وباء می جہاں دوسرے حلقہ احباب کے لوگ متاثر ہوۓ ہیں وہیں کسان کی زندگی کا پہیہ بھی وقتی طور پر تھم گیا تھا ۔  ٹڈی دل کا حملہ ایک ناگہانی آفت کی صورت اختیار کر گیا ۔  ٢٠١٩ سے شروع ہونے والا یہ حملوں کا سلسلہ ابھی تک اپنا اثر دکھا رہا ہے ۔

پاکستان کے تقریبا ٦٠ اضلاع اس آفت کا شکار ہوۓ ہیں جس کے نتیجے میں فصلوں کا تہس نہس کر دیا گیا ۔ حکومت کے بروقت اقدامات کا نہ ہونا اور صرف کاغذی بیان بازی کسان کے زخموں پہ مرحم نہ لگا سکے اور اپنی مدد آپ کے تحت روایتی طریقوں سے ٹدی دل سے نپٹنے کی کوشش کرتا رہا ۔
مزید براہ,  سردیوں کی پیداوار کا  ٤٠ فیصد حصہ ٹدی دل کے حملے کی نظر ہو گیا ۔


کسان کو جہاں پر قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں پہ حکومتی نظر اندازی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی ۔ کسان طبقہ دن رات محنت کرکے فصل تیار کرتا ہے اور امید بہار لاتا ہے کہ اس کی محنت رائیگاں نہیں جاۓ گی مگر جب بات معاوضے اور قیمت کی آتی ہے تو معاشی خدا اپنی طاقت کا استعمال کرکے من مانی قیمتوں کا تعین کروالیتے ہیں اور کسان حسب معمول ان کے رحم و کرم پہ چلنے پہ مجبور ہو جاتا ہے ۔

معاشی منڈی تک رسائی کا نہ ملنا انہیں بیوپاری کے دربار پہ لا کھڑا کرتا اور یوں کسان کا پھر سے استحصال کیا جاتا ہے ۔
افسوس, جب بات کیمیایی ادویات کی آتی ہے تو کسان کو ہھر روندا جاتا ہے ۔ فصل کی کاشت کا موسم شروع ہوتے ہی زرعی ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہوتی ہیں اور کسان  سرمایہ دار کے سامنے بھی جھک جاتا ہے ۔پیداوار کو  مناسب ریٹ کا نہ ملنا اور کیمیائی ادویات کی قیمتوں کو آسمان کو چھونا کسان کی مشکلات میں اور اضافہ کر دیتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ اعلی قسم کا بیج کا نہ ملنا پیداوار کی شرح کو بہت گرا رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں پاکستانی زرعی مصنوعات کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
اگر پاکستان کی شرح خواندگی کو دیکھا جاۓ تو زیادہ تر کسان طبقہ پڑھنے لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم دنیا کے ایسے ممالک جہاں پر زراعت کو کافی اہمیت دی جاتی ہے کا جائزہ لیں تو وہاں کسان کو مکمل طور پر رہنمائی کے لیے حکومتی نمائندوں کی معاونت حاصل ہوتی ہے ۔

٢١ صدی میں زراعت میں روایتی طریقوں سے کاشت کا طریقہ کار فصل کی پیداوار کو اور کم کردیتا ہے ۔ ٹیکنالوجی سے دوری اور مناسب سہولیات کا نہ ملنا سے زراعت کا شعبہ روز بروز پسماندگی کی طرف گامزن ہو رہا ہے ۔ اگر ہم ان روایتی طریقوں کا ذکر کریں تو کاشت کا طریقہ,  پانی لگانے کے لیے پرانہ کھالہ نظام اور کٹائی کے پرانے طریقے سرفہرست ہیں ۔
کسان کے تمام مسائل کو سامنے رکھے جائیں اور زراعت کی قومی ترقی میں شمولیت کا جائزہ لیا جاۓ تو حکومت سے اس شعبےمیں انقلابی تبدیلیاں لانے کی امید اور توقع کی جانی چاہیے۔

سب سے پہلے کسان کی معاونت کے لیے زراعت کی تعلیم کے شعبہ سے منسلک طالبعلموں کی معاونت لینی چاہیے اور  ٦ ماہ کے لیے بڑے لیول کے کسان کے ساتھ انٹرن شپ کے گزارنے لازمی رکھے جائیں اس سے کسان کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کرنے میں آسانی ہو گی ۔
مزید براہ,  حکومت وقت کو چاہیے کہ فصل کی مناسب قیمت کا تعین کرنے کے لیے کسان تنظیم کے سربراہ کو اعتماد میں لاۓ اور منڈی تک مناسب رسائی کے لیے آسانیاں فراہم کرے ۔

  کسان کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے زرعی بجلی کے بلوں میں سبسڈی ف اور زرعی مشینوں کی آسان اقساط میں فراہمی یقینی بناۓ۔  روایتی طریقوں سے نپٹنے کے لیے جدید قسم کے واٹر پلانٹ سسٹم لگانے چاہیے تاکہ پانی کے ضیاع سے بچا جاسکے ۔
میں پرامید ہوں کہ اگر کسان کو مناسب سہولیات کی یقین دہانی اور حکومتی سر پرستی حاصل ہوئی تو پاکستان دنیا میں ایک زرعی معاشی طاقت بن کے ابھر سکتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :