گلتی سڑتی انسانیت

منگل 17 دسمبر 2019

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

 ہم روزانہ اپنے ارد گرد آس پاس، گلی،محلے، بازاروں اور چوک چوراہوں میں کچھ ملنگ نما،معذور و مقہور لوگوں کو دیکھتے ہیں، جو میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس،ننگ دھڑنگ، دھول مٹی سے اٹے چہروں کے ساتھ جگہ جگہ بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں، ان میں عورتیں، بچے، بوڑھے اور گداگرانہ بھیس بدلے ہٹے کٹے نوجوان ' سبھی شامل ہیں، یہ گدائی مخلوق راہگیروں کے سامنے التجائی،ملتجائی نظروں سے ہاتھ باندھتے، قسمیں اور واسطے دیتے، اور ہر آنے جانے والے کو روکتے، ان کے دامن اور پلو کھینچتے بھی نظر آتے ہیں، بلکہ بعض اوقات تو ساتھ چمٹنے،لپٹنے،داڑھی اور ٹھوڑی ہاتھ لگانے پاؤں پکڑنے جیسے انسانیت سوز مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں-اور صرف یہی نہیں چھوٹے چھوٹے معصوم تین تین،چار چار سالہ بچے سخت کہر آلود موسم اور سخت ٹھٹھرتی سردی میں پھٹی پرانی قمیض، بغیر شلوار، ننگے پاؤں سڑکوں،پارکوں اور فٹ پاتھوں پر اٹھکھیلیاں کرتے یا ایڑیاں رگڑتے بھی دیکھے گئے ہیں-
اس بحث سے قطع نظر کہ یہ کون لوگ ہیں..کہاں سے آتے ہیں...ان کا کنٹرولنگ سسٹم کیا ہے...ان میں بھی ٹھیکداری سسٹم ہے یا کمیشن خور مافیا انہیں پالتا پوستا ہے...ایریے بانٹتے ہیں یا مستقل ٹھیّوں،اڈوں کی سوداگری کرتے ہیں....وغیرہ،یہ بحث و مباحث تو عرصہ دراز سے ہی چلے آ رہے ہیں اور روزمرہ آپسی گفتگو،بات چیت میں اکثر اس موضوع پرتجزیات و تبصروں کے سلسلہ جات بھی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں- ہمارا اصل مدعا آج یہ ہے کہ یہ بڑے بڑے تبدیلی کے دعوے دار، نئے پاکستان کے علمبردار، تحفظِ حقوقِ انسانیت کے نام پر پلنے والی چیمپئنز این جی اوز,اور چھوٹی بڑی تمام سماجی تنظیمیں، سیاسی و سماجی شخصیات اس گھمبیر اور روز بروز بڑھتے اس انسانی المیے کو کیوں اہمیت نہیں دے رہے، اور حقوق انسانیت اور توہینِ آدمیت کے اس مسئلے کا ابھی تک کوئی مستقل حل کیوں نہیں نکالا جا سکا -
 یہ بات بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ حقیقی ضرورت مند اور خوددار انسان کبھی بھی بھیک اور خیرات پر نہیں پلتا،بلکہ وہ اپنی مفلسی،ناداری،اور بھوک کو تماشا بنانے کے بجائے خاموشی اور کسمپرسی سے وقت گزارتا چلا جاتا ہے، اور خدا کے اس تھوڑے دیے ہوئے پر بھی صبر و قناعت کے ساتھ تحمل اور برداشت کا نمونہ پیش کرتا ہے،اور اپنی عزت نفس کو کسی قیمت پر مجروح کرنے کا کبھی حوصلہ نہیں رکھتا- 
لیکن آج ہمارے چوک،چوراہوں،بازاروں،ہسپتالوں اور مساجد کے باہر انسانی المیوں کی المناک داستانیں اور دردناک مناظر دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں،جہاں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز انسان روتے،پیٹتے،آہ و بکاء کرتے،کٹے پھٹے انسانی جسم اور لٹکتے انسانی اعضاء دکھاتے عظمت انسانیت کے اس قاعدے اور کلئیے کا جنازہ نکالتے نظر آتے ہیں،جس پر بڑی بڑی پگڑیوں اور شملوں والے لبرل اور مذہبی مفکران و دانش وران آئے روز دلفریب اور خوشنما تقاریر اور لیکچرز جھاڑ کر اپنا رزق حلال کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں- 
کیا یہ بات انسانی شرف و وقار کے منافی نہیں کہ ایک انسان اپنی بیماری و غربت کی تشہیر و منادی کر کے اپنا پیٹ بھرنا شروع کر دے؟ کیا یہ انسانی اقدار و روایات کی پامالی نہیں کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کے سامنے اپنی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرنے کے دام وصول کرے؟ کیا بحیثیت قوم ہمارے لئے یہ باعثِ شرم وعار نہیں،کہ ایک پولیو کیس سامنے آنے پر تو میڈیا بریکنگ نیوز بنائے،اور کروڑوں روپے کے فنڈذ تشہیری مہمات پر اڑا دئیے جائیں، لیکن روزانہ سڑکوں،شاہراہوں اور فٹ پاتھوں پر ہزاروں اپاہج، مفلوج لولے لنگڑے انسان اپنے ناکارہ جسمانی اعضاء کی نمائش و نمود کریں اور اسے اپنی روزی روٹی کا وسیلہ بنائیں؟ کیا یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہ ایک مزدور سارے دن کی کمر توڑ مشقت کے بعد چند سو روپے کما کر پورا خاندان پالے، اور بھکاریوں کے پورے پورے خاندان کئی کئی ہزار کی دیہاڑیاں لگائیں؟ کیا آج ہر گزرتے دن بھکاریوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ نہیں ہو رہا؟ کیا اس بھکار بزنس کو باقاعدہ تیکنیکی اور کاروباری اصولوں پر استوار نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ تمام حقائق اس بات کا ثبوت نہیں کہ ہم دیدہ و دانستہ بھکار کلچر کو فروغ دے رہے ہیں؟
 آج دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایجادات و اختراعات کے انقلابات برپا کر رہی ہے، چاند پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں،اور مریخ پر سفر کی تیاریاں ہیں، اور ہم ابھی تک ''روٹی،کپڑا اور مکان'' کے سرابوں میں سرگرداں ہیں، ہماری آبادی کا 80% وہ لوگ ہیں،جن کا سب سے بڑا مسئلہ بھوک اور پیٹ ہے،جب کہ باقی کے %20 آج بھی مال،دھن دولت، قوت،طاقت اختیار اور اقتدار کے حصول کو ہی اپنی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں پچھلے 20 سالوں سے اب تک بھکاریوں اور نشئیوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور ہم حیران کن طور پر اس روز بروز بڑھتے اضافے سے چشم پوشی اختیار کیے بیٹھے ہیں-
 اربابِ اقتدار و اختیار سے یہ دست بستہ التجا ہے کہ خدارا پاکستان نیا بنائیں،یا پرانا لوٹائیں، تبدیلیوں کی آندھی اور طوفان مچائیں،یا تھمائیں، مزید یہ کہ ہم عام عوام کو آپ کی ان عظیم انسانی حقوق کے وزارتوں، مرکزی و صوبائی بیت المالز، سوشل ویلفیئر فنڈز اور دوسرے خیراتی اداروں،اور ان پر مامور وزیران و مشیران اور نگران و افسران کی بے تحاشہ مراعات،نوکر چاکر،گاڑیاں، بنگلے،اور تگڑے ٹی اے ڈی ایز پر بھی کوئی گلہ شکوہ،آہ فغاں،عار اعتراض نہیں...بس دست بستہ اتنی سی استدعا ہے کہ کم از کم اس عظیم انسانی المیے کا کوئی ایک چھوٹا سا نوٹس لے لیں..!!
کوئی قانون بنائیں، یا کوئی دفعہ لگائیں، سوموٹو لیں، یا مقتدرہ اداروں کو حرکت میں لائیں، لیکن خدارا سڑکوں،فٹ پاتھوں،چوکوں راہوں میں گلتی سڑتی انسانیت کے ان شاہکار ماڈلز کو ان کی اس گمشدہ متاع حیات کو واپس لوٹائیں، جسے ''اشرف المخلوقات'' کا نام دیا گیا ہے- اور اس گھناؤنے،مکروہ اور قبیح بیوپار کے سوداگروں کو بے نقاب کریں اور انہیں عبرتناک سزائیں دیں، بے سہاروں کا سہارا بنیں،کیونکہ ایسوں کی دست گیری ریاست کے فرائض میں شامل ہے، آدم و حواء کی ان اولادوں سے کوئی مثبت اور تعمیری کام لیں،انسانی حقوق کی پامالی کے اس اہم مسئلے کا کوئی حقیقی حل نکالیں اور اس قوم کے حال پر رحم فرمائیں -
 اور آخر میں انتہائی اختصار کے ساتھ اور سو باتوں میں سے ایک ہی بات کہ بھوک اور افلاس کو گداگر پیشے کی ماں کی حیثیت حاصل ہے، یہ بھوک ہی ہے جو انسان کو نہ صرف اس کی عزت نفس کے بندھن سے آزاد کرتی ہے، بلکہ اسے جرائم کی گہری دلدل میں دھکیلتی ہے، گداگری کے ساتھ ساتھ عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے، اور انتہا پسندی پر بھی مجبور کرتی ہے، یہ ساری بیماریاں اس بھوک کے بطن سے ہی ناجائز طور پر جنم لیتی ہیں...
 وطن عزیز کے سماجی تن و بدن سے اس ام المرائض کو اکھاڑ پھینکئیے، یقین کریں گداگری کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت ساری مہلک بیماریوں سے خلاصی مل جائے گی-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :