صحت مند معاشرے کی تشکیل نو ناگزیر

جمعہ 13 مارچ 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

چند دن پہلے مسلم لیگ ( ن )کی ایک خاتون رکن اسمبلی نے ون ویلنگ جیسے خونی کھیل کے خلاف تحریک التوا پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی، اس کے متن میں درج تھا کہ اس خونی کھیل سے لاہور سمیت صوبے بھر کی سڑکوں پر جہاں روزانہ درجنوں نوجوان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،وہیں اس خطرناک کھیل سے عوام کی زندگی بھی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے ۔

سیاسی پوائنٹ سکورنگ،لعن طعن اور طنز و تکرار کے موجودہ ماحول میں آئینی اداروں میں عوام کے حقیقی سلگتے مسائل کو اجاگر کیے جانے کی یہ کوشش قابل ستائش اور لائقِ تحسین ہے۔ یہ تحریک التوا صحیح معنوں میں عوامی نمائندگی کا حق ادا کرتی ہے اور اگر ایسے ہی روزمرہ عوامی مسائل ہمارے آئینی اداروں میں اٹھائے جائیں تو یقیناً ہمارے عوامی نمائندوں کو وہ عزت، وقار اور مقام عوامی حلقوں کی جانب سے بھی ضرور ملے گا جس کے وہ صحیح حق دار ہیں۔

(جاری ہے)

ون ویلنگ جیسا خطر ناک کھیل عموماً آج کل کے نوجوانوں کا محبوب مشغلہ ہے ۔ان میں 16 سے 20 سال کے نوجوان خصوصی طور پر ون وہیلنگ کے حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 2200 کے قریب نوجوان ون ویلنگ کرتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جبکہ55 ہزار سے زائدنوجوان زخمی ہوجاتے ہیں۔ ان زخمیوں میں کئی ایک مختلف جسمانی اعضاءسے محروم ہو کر عمر بھر کا روگ اپنے سر لے لیتے ہیں۔

یہ نوجوان وقتی جوش اور شوق کی خاطر خود اور اپنے گھر والوں کو  تو مصیبت میں ڈالتے ہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ  ملک و قوم کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اگرچہ ون ویلنگ کا شوق زیادہ تر 14 اگست، 23 مارچ اور عیدین کے مواقع پر دیکھنے میں آتا ہے، لیکن عام دنوں میں بھی منچلے شوخیاں کرتے ، سڑکوں پر پھٹے سائیلنسروں سے چنگھاڑتی آوازیں نکالتے ،ریس لگاتے نظر آتے ہیں، صرف یہی نہیں چھوٹی بڑی سڑکوں اور شاہراہوں پر دن رات ان کے شور سے زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔

ہمارے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جہاں ہماری نوجوان نسل انٹرنیٹ ،فحش سائٹس،موبائل گیمز اور ان جیسی دوسری فضولیات کا شکار ہے ،وہیں وہ تعلیمی اداروں میں نشے جیسی لعنت میں بھی لتھڑی ہوئی ہے۔ آج کہیں کوئی بوڑھا باپ جوان بیٹے کا خون میں لت پت لاشہ اٹھائے اپنے نصیب کو روتا نظر آتا ہے۔ مائیں اپنے لخت جگر کے کٹے پٹے بے جان جسموں سے لپٹی بین کرتی دکھائی دیتی ہیں، بہنیں اپنے بھائی کی جدائی میں سینہ کوبی کرتی نظر آتی ہیں، اور کہیں کوئی سہاگن وقت سے پہلے ہی بیوگی کا داغ لیے دیواروں سے سر پھوڑتی دکھائی دیتی ہے۔

ہم میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جس کے گلی محلے،یا علاقے میں ایسے کرب ناک اور اذیت ناک لمحات سہنے والا کوئی گھرانہ نہ ہو۔ ون ویلنگ کرنے والے اپنی زدگی کا دیا گل کرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اپنے ساتھ کے مسافروں کو بھی جانی نقصان پہنچاتے ہیں ،وہیں ان کے اس قبیح فعل سے راہ چلتے مسافروں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں شاہدرہ لاہور کی ایک ادھیڑ عمر راہ چلتی خاتون نے ایسے ہی ایک خونی پہیے پر اڑتے بائیکر کی ٹکر سے سڑک کنارے تڑپ تڑپ کر جان دے دی،۔

خاتون اپنے پیچھے 4 جوان بچیاں چھوڑ گئی ،جن کا باپ پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔حکومتی حلقے آخر اس پر کیوں کوئی سخت ایکشن نہیں لیتے۔ ون ویلنگ کا بڑھتا ہوا یہ رجحان نوجوانوں کے اندر معاشرتی پستی اور بیمار سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کے ذمہ دار سب سے پہلے ان کے والدین اور پھر حکومت ہے، کیونکہ یہ قانون نافذ کرنے اداروں کی لاپرواہی کا ہی نتیجہ ہے کہ جس کی وجہ سماجی زندگی میں افرا تفری کا عالم ہے ۔

اگرچہ ون وہیلنگ کے حوالے سے موثر قوانین موجود ہیں اور اس کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی دی جاتیں ہیں، لیکن ان قوانین پر عملدرآمد اور جرمانے و سزا کے طریقہ کار پر شدید ابہام موجود ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ون ویلنگ کا ناسور دن بدن کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یا د رکھنا چاہیے کہ صحت مند سرگرمیاں ہی صحت مند معاشرہ تشکیل دیتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :