میری زندگی....اللہ کی مرضی

اتوار 15 مارچ 2020

Tahir Ayub Janjuah

طاہر ایوب جنجوعہ

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کرونا سے لگ بھگ پانچ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور تقریباً سوا لاکھ سے زیادہ متاثر ہیں، عالمی ادارہ صحت WHO نے کورونا وائرس کو دنیا بھر میں پھیلنے کے بعد اسے ایک عالمگیر وبا قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

چین کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، اٹلی،ایران، جنوبی کوریا، آسٹریلیا،سعودی عرب،بھارت اور پاکستان سمیت 145 ممالک اس موذی مرض کی زد میں آ چکے ہیں-

 وبائی امراض سے بچنے کے حفاظتی اقدامات بہت ضروری ہیں، یہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت بھی ہے، اور حکم بھی،اور اس کے ساتھ ساتھ اہلِ اقتدار کا فرض اور عوام کا حق بھی ہے- اس وائرس سے نپٹنے کے لئے ملکی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بہت سے مثبت اقدامات کے اعلانات کے ساتھ ساتھ ہنگامی سطح پر کچھ غیر معمولی حفاظتی اقدامات بھی اٹھانے پراتفاق ہوا، ان میں جہاں بہت سے مثبت اور ضروری فیصلے ہوئے،وہیں ایک اہم فیصلہ تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو اچانک بند کرنے کا اعلان بھی تھا -
یہ سچ ہے کہ آج دنیا کو اس نئی اور خطرناک آفت کا چیلنج درپیش ہے، اور تمام ممالک اپنی عوام کو بچانے کے لئے ہر ممکن حفاظتی اقدامات کرنے پر مجبور ہیں، لیکن تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا یہ غیرمعمولی فیصلہ شائد غیر دانشمندانہ اور عجلت زدہ ہے، کیونکہ اب تک کرونا کے جتنے بھی مریض سامنے آئے ہیں وہ بیرون ملک سے سفر کر کے پاکستان آنے والے لوگ ہیں، اور یقیناً ابھی تک کوئی مقامی شخص اس مرض کا شکار نہیں نکلا، تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سکول اور کالجز کون سے بین القوامی معیار کے ہیں،جہاں فارنرز طلباء سٹڈی کر رہے ہوں یا ان کے ایڈمیشنز دھڑا دھڑ آنے سے دوسرے ممالک کے طلباء کا آنا جانا لگا رہتا ہو، ماسوائے معدودے چند طلباء جن کا کسی ایک آدھ مرکزی شہر میں آنا جانا ہو -ایک ایسا ملک جس کا نظامِ تعلیم پہلے ہی اس قدر سقم زدہ ہے کہ اس معاملے میں خطے کے گئے گزرے ممالک سری لنکا اور نیپال کو بھی ہم پر برتری حاصل ہے، اور ہمارے معیارِ تعلیم کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے 195 ممالک میں سے ہم ابھی بھی 125 ویں نمبر پر کھڑے ہیں، مزید یہ کہ 5 اپریل کے بعد نئے ایڈمیشنز اور نئی کلاسز کے کا بکھیڑوں میں بات مئی تک چلی جائے گی، اور صرف مئی کا ایک ماہ گزرنے کی دیر ہے کہ ہم جون میں گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں کے زمانے میں داخل ہو جائیں گے، اور یوں پڑھائی کا نئے سال کا آدھا حصہ تو ویسے ہی گزر چکا ہو گا- بحرحال بحیثیت قوم ہمیں اجتماعی سطح پر نیک نیتی سے اللہ رب العزت کے حضور سربسجود ہونا چاھئیے اور اس آفت سے بچنے کے لئے ہر پل دعا گو رہنا چاھئیے-
 اس سلسلے میں ایک اور منفی اور مبالغہ آرائی پر مبنی فعل اس معاملے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا اور خواہ مخواہ کے جھوٹے افسانے گھڑنا اور پھر انہیں اچھالنا ہے، ایسی افواہ سازی اور غیر مصدقہ اطلاعات ہمیشہ افراتفری پھیلانے کا سبب بنتی ہیں، الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا ہو یا کسی گلی،محلے،بازار،چوک،چوارہے کی بڑی چھوٹی ہر دُکان،تھڑہ، یا کوئی بھی مجلس ہر جگہ اس معاملے کو مرچ مصالحہ لگا کر ایسی ایسی واہیات چھوڑی جا رہی ہیں کہ خدا پناہ...کل کسی نے آرمی کے بڑے معزز عہدیداران کے حوالے سے ہوائی اڑائی کہ خدانخواستہ انہیں بھی یہ وائرس لاحق ہو گیا ہے، خدارا ایسے وقت میں ہوش کے ناخن لیں،بحیثیت قوم سمجھداری کا ثبوت دیں، سنی سنائی اور ہوائی باتیں پھیلانے سے گریز کریں-اور ایک باشعور شہری ہونے کو ثبوت دیں، ویسے بھی ہم ایک مسلمان قوم ہیں، اور تاریخ گواہ ہے کہ ایسی ارضی و سماوی آفات میں مسلمان عقل و خرد سے کام لے کر ہمیشہ راہبر و مصلح کا کردار ادا کرتے آئے ہیں، ہاں تدبیر کرنا ہمارا فرض ہے،مثبت اور تعمیری تجاویز ضرور دیں، احتیاطی تدابیر جتنا ہو سکے لوگوں تک پہنچائیں، اپنی استطاعت کے مطابق حکام بالا کو بھی ضرور متنبہ کریں، لیکن یہ یاد رکھیں کہ زندگی اور موت کا حتمی اختیار بس خالق کائنات کے پاس ہے،اور ہم مسلمان ہیں اور یقیناً ایک مسلمان کا ایمان ہے...!
 '' میری زندگی...اللہ کی مرضی''

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :