نظریاتی یا مفاداتی لوگ

پیر 11 فروری 2019

Tasawar Hussain

تصور حسین

موجودہ حکومت سے عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں اور عوام کی توقعات ہونی بھی چاہیے کیونکہ عمران خان کا ایک جماعت کو بنانا اور اس کو ایک مقبول عام جماعت بنانا اور اس کو اقتدار میں لے کر آنا ایک بہت غیرمعمولی بات ہے ۔یہ عمران خان کی ان تھک محنت اور ان کی کرشماتی شخصیت کی بدولت ہوا۔ اس وقت جتنی بھی لیڈر شپ سیاسی میدان میں موجود ہے ان کی سیاست کا آغاز ذاتی مفادات کی وجہ سے یا حادثاتی یا موروثی طور پرہوا۔

موجودہ رہنماوٴں میں عمران خان واحد لیڈر ہے جس نے اپنی عوامی زندگی کا آغاز فلاحی کام شوکت خانم ہسپتال سے کیا یہاں سے عمران خان عوامی رابطہ میں آئے اور آخر کار ایک سیاسی جماعت بنائی اور اقتدار میں آ گئے ۔
 عوام عمران خان کو ان تمام کامیابیوں کے تناظر میں ایک انقلابی رہنما کے روپ میں دیکھتی ہے اس وجہ سے عوامی توقعات ہیں کہ عمران خان نے جس طرح سے پہلے کامیابیاں حاصل کی تھیں اب حکومت میں بھی اسی طرح کی غیر معمولی پرفارمنس دیں اور مسائل کو حل کریں ۔

(جاری ہے)

عمران خان نے جو سیاسی کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ واقعی ہی انقلابی سٹائل میں ہیں۔ لیکن حکومت میں آنے سے کچھ عرصہ قبل عمران خان نے اپنے سٹائل اور طریقہ کار میں جو تبدیلی کی تھی وہی طریقہ کار کی تبدیلی اب ان کو کوئیک پرفارمنس دینے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
 اگر دنیا کی کامیاب تحریکوں کا تجزیہ کیا جائے ان میں ایک بنیادی اصول مشترک نظر آتا ہے کہ تحریک کے ابتدائی ارکان نے ہی بعد میں تحریک کے نظریات اور وڑن کو عملی شکل دی۔

عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں لیکن اگر اس کا سیاسی نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو صحابہ اکرام ابتدائی دور میں حضرت محمد صل اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شامل ہوے۔ انتظامی معاملات میں بھی ان کوہی اہم ذمہ داریاں دی گئیں یہی ابتدائی دور کے صحابہ کرام آپ کے بعد بھی آپ کی تعلیمات کے مطابق کام کرتے رہے۔
 عمران خان کو غور کرنا چاہئیے کہ ان کے سیاسی دور کے ابتدائی ساتھی یا ارکان کدھر ہیں ۔

ابتدائی دور میں شامل ہونے والے لوگ تو صرف ایک نظریہ اور وڑن کے لیے شامل ہوتے ہیں اور قربانی دینے کے لئیے شامل ہوتے ہیں وہی لوگ آپ کے ساتھ آپ کے نظریہ اور ویژن کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں۔
 مفادات اور اقتدار کی بو سونگھنے کے بعد شامل ھونے والے لوگ کبھی بھی ابتدائی دور والے لوگوں کی جگہ نہیں لے سکتے اور نہ ہی ان جیسے مخلص ھو سکتے ھیں. تحریک انصاف کو چاہیے کہ جماعت میں ھر آدمی کو خوش آمدید کہے کیونکہ ایک پاپولر جماعت اور انتحابی سیاست کے لیے یہ بہت ضروری ہے اگر ایسا نہ کریں تو تحریک انصاف بھی ایک دن جماعت اسلامی بن جائے گی. جس کا اس وقت سیاسی یا انتحابی میدان میں کردار بالکل زیرو ھے. عمران خان کو چاہیے کہ تحریک انصاف اور حکومت کی مین قیادت اپنی پرانی ٹیم کو دیں تاکہ حکومت جن مسائل میں ھے اس میں سے نکل سکے. 
پاکستان میں اگر کسی حکومت کو پرفارمنس دینی ہے تو سب سے اہم صوبہ پنجاب ہے لیکن اگر موجودہ پنجاب حکومت کی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اقتدار کی بنیادی سیٹوں پر بیٹھے لوگوں کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے اگرہے بھی تو تحریک انصاف کے ابتدائی دور سے نہیں ہے۔

پرویز الہی کو اکاموڈیٹ کرنا تحریک انصاف کی مجبوری ہے۔ انتحابی سیاست میں نمبر آف گیم ایک حقیقت ہے۔ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ اور چوہدری سرور کو گورنر پنجاب بنانے کا فیصلہ اور میرٹ سمجھ سے باہر ہے۔ کیا ان لوگوں کو علم ہے تحریک انصاف
 کیوں بنی اور عمران خان سیاست میں کیوں آیا اور ان کا وڑن کیا ہے یہ بات ان کو سمجھ آتے آتے حکومت کا وقت پورا ہو جائے گا. تحریک انصاف بات ریاست مدینہ کی کر رہی ہے. تو اس کو ریاست مدینہ کے اقتدار کے روڈ میپ پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اگر خلفائے راشدین کی بجائے بعد میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے کو ترجیح دی جاتی اور ان کو اقتدار میں سپریم رول دیا جاتا تو کیا اسلام آج اسی طرح روشن ہوتا اور ہم کیا اس دور کی اسی طرح تعریف کر رہے ہوتے۔

کامیاب تحریک کے نظریات اور وڑن کو عملی شکل ہمیشہ ابتدائی ارکان نے دی۔عمران خان صاحب دوبارہ غور فرمائیں اپنے ابتدائی اور نظریاتی لوگوں کو آگے لائیں. تاکہ آپ کی کامیابیوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :