ہمارے کھیل اور ہماری تفریحات

جمعہ 22 جنوری 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

میں پچھلے تقریباً تین ماہ سے ایک روٹین فالو کررہا ہوں،جس میں مِیں روزانہ دوٹائم کھانا کھاتا ہوں اور تقریباً 25~30منٹ لازماً واک کرتا ہوں۔ میں پچھلے تقریباً ایک ماہ سے اپنے شہر کے ایک پارک میں واک کیلئے جارہا ہوں۔میری روٹین کچھ اِس طرح سے ہوتی ہے کہ میں دن میں 12:00~02:00بجے کے درمیان واک کیلئے جاتا ہوں جس سے میری واک بھی ہو جاتی ہے اور اگر گھر کا کوئی ضروری کام بھی ہو تو وہ بھی میں سر انجام دے دیتا ہوں۔

میں جس پارک میں واک کرتا ہوں اُس کے مضافات میں چند ایک پرائیویٹ کالجز اور سکول واقع ہیں۔18جنوری کے دن سے جب سے سکول کُھلے ہیں میں واک کے دوران ایک عجیب منظر دیکھتا ہوں کہ پارک میں اکثر سکول و کالجز کے طلباء کے جتھے وہاں آجاتے ہیں،ٹِک ٹاک تصاویر اور وڈیوز بناتے ہیں، اگر کہیں کوئی خاتون واک کررہی ہو یا بیٹھی ہو تو اُس پر آوازیں کَستے ہیں اور آوارہ گردی کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

پچھلے چند دنوں سے یہ سوال میرے ذہن میں گردش کر رہا ہے اور میں اِسکی وجہ تلاش کرنے کیوجہ کوشش کر رہاہوں۔لیکن پھر اِسکی ایک عجیب وجہ بھی میرے ذہن میں آئی اور میں نے اِس بارے میں سوچنا شُروع کیا ۔ قارئین شایدمیرے اِس نقطے سے اتفاق تو نہ کریں لیکن طلباء کے سکولوں اور کالجوں سے bunkمارنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے۔
میں چونکہ اپنے شہر سے بخوبی واقف ہوں اور اِس پارک کے گِردونواح کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں اِس لیے کچھ دیر سوچنے کے بعد میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ پرائیویٹ سکولز اور کالج تو صرف بنگلوں اور کوٹھیوں میں کھولے گئے ہیں، جبکہ وہاں پڑھنے والے طُلبہ کیلئے کوئی پلے گراونڈ یا میدان نہیں۔

اِن طلبہ کو مُرغیوں کی طرح ایک ڈربے (کمرے) میں بند کر دیا جاتا ہے ،اور اِنہیں چند سطریں یا فارمولے رٹوانے کا کام دے دیا جاتا ہے، جبکہ اِن طلباء کے دماغوں کو کُھلنے کیلئے کوئی پُر سکون جگہ یا میدان تو مُیسر ہی نہیں۔یہ پرائیویٹ سکولز اور کالجز تو صرف money-making franchisesہیں جن کا واسطہ صرف بچوں سے فیسیں بٹورنا اور اُنکے بدلے اِن طلباء کو نمبروں کی دوڑ کے گھوڑے بنانا ہے۔

اِن سکولوں اور کالجوں کا اِس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ بچوں کی جسمانی یا Physical یا دماغی صحت کیسی ہے؟کیا بچہ کسی دماغی یا جسمانی بیماری کیوجہ سے تو نہیں پڑھائی میں پیچھے ؟اِن پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کی personality growthیا maturityکا اندازہ لگانا ہوتو اِنہیں چُھٹی کے وقت مُلاحظہ کریں کہ جب ایک سے دو بجے کے دوران کیسے سکولوں، کالجوں کے باہر ہُلڑ بازی مچی ہوتی ہے، جس کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ یہاں سکولوں اور کالجوں میں پتہ نہیں کیا پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے؟
دراصل طلباء اور سوسائٹی کو ذہنی تناؤ(Catharsis)کم کرنے کیلئے کھیل کے میدانوں، پلے گراؤنڈز، پبلک پارکس، جھیلیں، سپورٹس خانے اور جم خانے درکار ہوتے ہیں۔

میں نے چائنہ میں اپنے قیام کے دوران اپنی یونیورسٹی کے علاوہ دس سے بارہ مذید یونیورسٹیاں بھی وزٹ کیں۔ میں نے تقریباً ہر یونیورسٹی میں سپورٹس کمپلیکس، جاگنگ ٹریکس، اور جھیلیں دیکھیں اور میں نے وہاں کے لوگوں کو اِن سپورٹس کمپلیکس میں کھیلتے ہوئے ، جاگنگ ٹریکس پر دوڑتے ہوئے، اور جھیلوں کے کنارے بیٹھتے ہوئے ، یوگا (Yoga)کرتے ہوئے یا کتابیں پڑھتے ہوئے بھی دیکھا۔

میں نے چائنہ میں دس سے پندرہ دن چونکہ ایک سکول میں بھی پڑھایا ،تو میں نے وہاں بھی دیکھا کہ سکول کے بچوں کو کس طرح مختلف کھیلوں مثلاً تیراکی، ٹینس، سکیٹنگ، فٹبال، ہائیکنگ، اور مارشل آرٹس کی تربیت دی جاتی تھی اور اِن سب کیلئے وہاں کس طرح کھیلوں کے میدان اور سہولیات مہیا کی جاتی تھیں۔حتٰی کہ چائنہ میں پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کو کھیلوں اور فیزیکل ہیلتھ کے مواقع فراہم کرنا لازمی ہوتے تھے۔

کُھلے ذہن کے حامل معاشروں میں لوگوں کی تفریحات اور کوالٹی ٹائم گُزارنے کیلئے مناسب مُواقع اور سہولیات مُہیا کی جاتی ہیں اور اِس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ تفریحات لوگوں کی دماغی نشوونُما میں اہم کردار ادا کریں ۔ جبکہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں تعلیم کے نام پر کنکریٹ کے جنگلوں (عمارتوں) میں طلباء کو صرف کتابیں رٹوائی جاتی ہیں۔


ترقی یافتہ مُلکوں میں ہمیشہ دریاؤں، نہروں اور سُمندروں کے کناروں کو آباد کیا جاتا ہے۔اِس میں چاہے لندن کا Thames Riverہویا پیرس کا بل کھاتا ہوا دریائے سین (Seine River)ہو، شنگھائی کا water frontہو یا پھر سنگاپور کا marina bayہو، اِن سب کو بڑے ہی دلکش انداز میں بنایا جاتا ہے اور اِنکے کناروں کوآباد کیا جاتا ہے جس میں لوگوں کیلئے تفریح گاہیں، پارکس، کافی شاپس بنائی جاتی ہیں۔

یہ تفریح کے مُواقع اُن علاقوں میں بسنے والے لوگوں کا ذہنی دباؤ کم کرنے میں مدد دیتی ہیں جس کے باعث اُن لوگوں کا بلڈپریشر ، شوگر لیول اور گھٹنوں کے درد میں مُبتلا ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔اِسکے برعکس پاکستان میں اِن بیماریوں میں مُبتلا لوگوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔پاکستان میں بسنے والے لوگوں میں مردوں کیلئے پھر بھی چند ایک کھیل (مثلاً کرکٹ، والی بال وغیرہ)کے مُواقع مُیسر ہیں، لیکن اکثر خواتین اِن کھیلوں سے کوسوں دور ہیں۔

ہم پاکستان میں بسنے والے لوگ بھی اپنے دریاوں ، نہروں اور سُمندر کے کناروں کو آباد اور پُر فضا بنا سکتے ہیں۔ دریاوں اور نہروں کے کنارے پارکس، کافی شاپس اور جاگنگ ٹریکس یا واکنگ ٹریکس بنائے جاسکتے ہیں، اور لوگوں کو معیاری اور سِستی تفریح فراہم کی جاسکتی ہے۔پاکستا ن میں بسنے والے لوگوں کا آخر کیا قصور ہے کہ انہیں ایسی تفریحات سے کوسوں دُور رکھا جاتا ہے؟ پاکستا ن کے tax payersکے پیسے کو اِن سہولیات کی فراہمی کیلئے کیوں نہیں خرچ کیا جاتا ہے؟ کیا پاکستان کے ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہمیشہ ہمسائے کے خلاف ہتھیار خریدنے کیلئے ہی اِستعمال کیا جاتہ رہے گا؟
اِن ساری سہولیات کے فُقدان کیوجہ سے رہ دہ کر پاکستان میں بسنے والے لوگوں کیلئے تفریح کیلئے محض ریستوان ، کھانے کے ڈھابے، کڑاہی گوشت، اور مِرچوں والی تَلی ہوئی مچھلی ہی رہ جاتی ہے۔

اسلام آباد ، لاہور اور کراچی جیسے چندبڑے شہروں کو چھوڑ کر باقی شہروں میں بسنے والے لوگوں کے لیے تفریحی جگہیں، پارکس و وائلڈ لائف پارکس، اور پکنک پوائنٹس کی شدید کمی ہے۔اسلام آباد کے مارگلہ ٹریکس، ڈونگا گلی سے ایوبیہ واک کے علاوہ کوئی اور اچھا واکنگ ٹریک یا hiking track میری نظر میں موجود نہیں، تو ایسے میں لوگوں کیلئے گوشت کی کڑاہیاں کھانے، کباب کھانے اور شوارمے کھانے کے علاوہ اور کوئی آپشن موجود نہیں۔ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی فیملی gatheringsیا دوستوں کیساتھ وقت گُزارنے کیلئے ہوٹلوں اور ریستورانوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :