ڈینیل پرل کی امریکہ جیسی ماں

جمعہ 5 فروری 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

27جنوری 2011ء میں لاہور کے عین وسط، قرطبہ چوک مزنگ کے قریب ایک امریکی شہری دو پاکستانی شہریوں کو سرِعام گولی ماردیتا ہے اورلوگ جب اُسکی گاڑی کا گھیراؤ کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو کچلتا ہوا تیزی سے گاڑی بھگا کر وہاں سے فرار ہوجاتا ہے۔جی ہاں! اُس امریکی شہری کا نام ریمنڈ ڈیوس (Raymond Davis)تھا اور وہ مبینہ طور پر پاکستان میں جاسوسی کے خصوصی مشن پر تھا۔

جائے حادثہ سے بھاگنے والے اِس امریکی شہری کو بعد ازاں پنجاب پولیس گرفتار کرلیتی ہے اور اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔اِس امریکی شہری کے گرفتار ہونے کی خبر جونہی میڈیا اور امریکی قونصل خانے اور سفارتخانے تک پہنچتی ہے تو وہ پنجاب پولیس کے حوالات میں پہنچ کر اپنے شہری کی خیریت و عافیت دریافت کرنے لگتے ہیں۔

(جاری ہے)

2011ء کے اُس دور میں پنجاب میں ن لوگ جبکہ وفاق میں پی پی پی کی حکومت تھی۔

امریکی سفارتخانے کے اپنے شہری کے اِس واقعے میں ملوث ہونے کے بعد پاکستان میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی دوڑیں لگنا شُروع ہو جاتی ہیں، صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر امریکی قونصل خانے اور امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کیطرف سے دباؤ آنے لگ جاتا ہے کہ اِس سارے معاملے کا کوئی بیچ بچاؤ کرواکر ہمارے (امریکی) شہری کو رہا کرواؤ۔اُس دور کی سول حکومتیں کچھ دن تو ریمنڈڈیوس کو حوالات میں رکھ کر یہ دباؤ برداشت کرتی ہیں لیکن پھر پاکستان کے کرتا دھرتا اِس لڑائی میں فریق بن جاتے ہیں اور سول حکومتوں کو تنہبیہ کرتے ہیں کو آپ ریمنڈ ڈیوس کو جلد از جلد رہا کر کے امریکہ کے حوالے کریں تاکہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات معمول پر آسکیں۔

مرکزی اور صوبائی حکومتیں مقتولین کے گھر والوں سے رابطہ کرتی ہیں اور انہیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ رقم لیکر مقتولین کا خون معاف کردیں۔اِس پر سونے کا سُہاگہ یہ کہ پاکستان کا عدالتی نظام تو پہلے ہی ظالم کا ساتھ دینے کیلئے بنا ہوا ہے ،لہذا معمول کی عدالتی کاروائی عمل میں لائی گئی اور صلح اور خون معاف کی شِک بنا کر ورثاء کورقم ادا کرکے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے باہر بھجوادیا گیا۔


امریکی شہریوں کی زندگی سے متعلق اِسی طرح کوا یک واقعہ تہران میں امریکی سفارتخانے میں 4نومبر1979ء میں ہواجب انقلابِ ایران کے بعد ایران کی عوام، امریکی صدر جمی کارٹر (Jimmy Carter)کے شاہِ ایران کو امریکہ میں سیاسی پناہ دینے پر نالاں تھی اور شاہِ ایران کی سیاسی پناہ کے بدلے میں ایرانیوں نے تہران میں ایک protestکے دوران امریکی ایمبیسی کو آگ لگا دی۔

اِس ہولناک واقعے کے دوران سفارتخانے میں موجود 66کے قریب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیاجبکہ 6امریکی شہری معجزانہ طور پر سفارتخانے سے نکل کر قریبی کینیڈین ایمبیسی میں پناہ لینے میں کامیاب ہوگئے ۔امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو جب اِن چھ لاپتہ ہونیوالے امریکی شہریوں کی خبر مِلی اور اُنکے کینیڈین سفارتخانے میں چھپنے کا پتہ چلا تو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اُن امریکی شہریوں کے انخلاء کیلئے کام کرنا شُروع کیا گیا۔

اِس مقصد کیلئے CIAنے exfiltration specialistٹونی مینز (Tony Mendez)کی خدمات لیں۔ ٹونی مینز نے ایک کینیڈین فلم کریو(film crew)سے رابطہ کیا جو اُس وقت ایران میں ایک سائنس فکشن فلم کیلئے exotic locationکی تلاش کررہا تھا۔سی آئی اے نے اپنے امریکی شہریوں کے انخلاء کیلئے مُکمل پلاننگ کی ، فلم کریو میں شامل میک اپ آرٹسٹ سے ٹونی مینز نے رابطہ کیا ، ایران میں کینیڈین سفارتخانے میں موجود امریکی شہریوں کے حُلیے اور گیٹ اَپ تبدیل کروائے گئے،اور اِسکے ساتھ ساتھ امریکہ میں ایک فرضی فلم پروڈکشن کمپنی بنائی گئی جس نے یہ ظاہر کیا کہ یہ امریکی سفارتکاروں سمیت تمام لوگ اُس امریکی فلم کمپنی کیساتھ وابستہ ہیں۔

قصئہ مختصر یہ ساری حکمتِ عملی بڑے غوروخوض سے بنائی گئی اور اِس پر بڑے احتیاط سے عمل درآمد کرکے کینیڈین ایمبیسی میں محصور اُن امریکی شہریوں کو رہا کروا کر واپس امریکہ میں لایا گیا۔اِس سارے واقعے کے پلاٹ(Plot)پر ہالی وُڈنے 2012ء میں (Argo)کے نام سے ایک فلم بھی بناڈالی۔
اِنہی واقعات سے مِلتی جُلتی سٹوری آجکل پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینل پر بھی چل رہی ہے جس میں عُمر احمد شیخ نامی ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری پر کراچی میں 2002ء میں ایک امریکی صحافی ڈینیئل پرل (Daniel Pearl)کے اغواء اور قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔

عُمر احمد شیخ ایک برطانوی شہری ہے جو لندن سکول آف اکنامکس سے فارغ التحصیل ہے۔عُمر شیخ تعلم مُکمل کرنے کے بعد مذہبی شدت پسندی اور دہشت گرد ی کے گھنونے واقعات میں ملوث ہوگیا، جس پر ہندوستان میں ایک امریکی شہری کے اغواء کا الزام بھی ہے۔مبینہ طور پرعُمر شیخ پر کراچی میں 2002ء میں وال سٹریٹ (Wall Street Journal)کے ساؤتھ ایشیا کے بیوروچیف (ڈینئیل پرل)کے اغواء اور قتل کا الزام ہے۔

ڈینئیل پرل 2002ء میں کراچی میں مذہبی شدت پسندی پر ریسرچ کررہا تھا جب عمر شیخ نے اُسے اغواء کے بعد قتل کردیا۔یہ مقدمہ پچھلے اٹھارہ سالوں سے پاکستانی عدالتوں میں چل رہا ہے اور چند دن پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے مُلزم کو شک کا فائدہ(benefit of doubt)دیتے ہوئے عُمر احمد شیخ کے سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم (acquittal)قرادے دیااور عُمر شیخ کو فوری طور پر رہا کرنے کا حُکم دے دیا۔

پاکستان کی سُپریم کورٹ کے فیصلے کی دیر تھی کہ امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور فارن آفس نے پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے اِس فیصلے پر تحفظات کا اظہارکرنا شُروع کردیا ۔اِس ساری صورتحال میں سندھ حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے عُمر شیخ کے سزائے موت کے فیصلے کے کالعدم ہونے پر نظرِثانی کی اپیل کردی۔امریکہ کیطرف سے ایک بار پھر دباؤ آنے کے بعد وفاقی حکومت بھی سندھ حکومت کیساتھ نظرِثانی اپیل میں فریق بِن بیٹھی۔

اُدھر سے ڈینیل پرل کی فیملی اور امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ایک تکڑی پراسیکیوشن (prosecution)کیساتھ سزائے موت نظرِثانی درخواست کیلئے تگ ودو کر رہا ہے تاکہ امریکہ کے فوت ہوجانیوالے شہری اور صحافی کو انصاف مِل سکے۔ عُمر شیخ کی سزائے موت یا بَری ہونے سے امریکہ کو بِالواسطہ طور پر شاید کوئی فائدہ نہ ہو لیکن چونکہ عُمر شیخ ایک امریکی شہری کے قتل کا ذمہ دار ہے لہذا امریکہ اپنے شہری کے انصاف کا مُقدمہ دُور سات سمندر پارسے بیٹھ کر بھی لڑرہا ہے۔


میں نے آپ کے سامنے تین واقعات رکھے ہیں جس میں امریکہ اپنے شہریوں کی زندگی بچانے یا اُنہیں انصاف دلانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ریمنڈ ڈیوس کی غلطی کے باوجود سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ خود involveہو کر اورسیاسی اثرورسوخ استعمال کرکے ریمنڈ ڈیوس کو پاکستانی لاء انفوسمنٹ (law enforcement)کے اداروں کے چُنگل سے چھڑا کر لے گیا۔تہران میں امریکی ایمبیسی کے لاپتہ ہونیوالے لوگوں اور اُنکی بازیابی کا معاملہ ہو تو CIAکے exfiltrationماہر کی خدمات حاصل کی گئیں تاکہ لاپتہ ہونیوالے امریکی شہریوں کی جان بچاکر اُنہیں واپس امریکہ کی سر زمین پر لایا جاسکے۔

اور اگر اِسی طرح ڈینئیل پرل کے قاتل کو سزا دِلانے کی بات ہو ، امریکہ اس بار بھی پوری کوشش کررہا ہے کہ اُس کے مقتول شہری کو کسی صورت انصاف مِل سکے اور امریکی شہری کے قاتل کو سزا مِل سکے۔اِسے کہتے ہیں ریاست یا فلاحی ریاست، جس میں ریاست آپکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے۔ اگرآپکی جان ومال کو خطرہ ہے تو ریاست اپنے شہری کے تحفظ کیلئے تمام تر وسائل جھونک دیتی ہے تاکہ اُسکے شہری کی جان ومال کو تحفط مِل سکے۔

اور اِسی طرح ریاست کے کسی شہری کیساتھ دُنیا کے کسی کونے میں ظلم وزیادتی یا ناانصافی ہوئی ہے تو ریاست اپنے مُظلوم شہری کی مدعی بن بیٹھتی ہے۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے جس کا بنیادی کام اپنے شہریوں کے جان ومال، عزت وآبرو کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ اِسکے ساتھ ساتھ کسی بھی ریاست کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو صحت ،معیاری تعلیم اور روزگار کے موزوں مواقع فراہم کرے۔

اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکہ کی ریاست ایک ماں کی یہ ذمہ داریاں بخوبی ادا کررہی ہے۔ امریکہ کی ریاست کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اگرآپ امریکی شہری ہیں تو پھر ریاست آپکو تنہا نہیں چھوڑے گی، یہ آپکے خلاف ہر ظُلم وزیادتی میں آپ کا ساتھ دے گی اور آپکے ساتھ کھڑی ہوگی۔جبکہ اِسکے برعکس ایک ایسی ریاست جس میں ہر پیدا ہونیوالے بچے کو بنیادی صحت ، تعلیم جیسی سہولتیں میسر نہیں ، ریاست اُس بچے کی تعلیم وتربیت کا بندوبست نہیں کر پاتی، اُس بچے کو جوان ہونے پر اُسکے لیے کوئی ہُنر یا مناسب روزگا ر کا بندوبست نہیں کر پاتی ،اور اگرپھر وہی بچہ لڑکپن یا جوانی میں اُن محرومیوں کیوجہ یاکسی کے بہکاوے میں آجانے کیوجہ سے ریاست کے خلاف ہی ہتھیار اُٹھا لیتا ہے تو میرے خیال میں اِس میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں، کیونکہ ریاست نے پہلے ایک اچھی ماں بن کر اپنے بچے (شہری)کیلئے حفاظت، صحت، تعلیم وتربیت جیسی سہولتیں مہیا ہی نہیں کیں۔

چونکہ امریکہ جیسی ماں(ریاست)اِس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ میں نے کس طرح اپنے شہریوں کو تحفظ ، انصاف، تعلیم اور صحت مہیا کرنی ہے تو اِس لیے امریکہ کے شہری بھی اپنی ریاست کا بھرپور ساتھ (خدمت) دیتے ہیں اورشاید یہی ایک اچھی ماں ہی وجہ ہے کہ دیگر مُلکوں کے لوگ اپنا مُلک، گھر بار ،خاندان چھوڑچھاڑ کر امریکہ جیسی ماں کی گود میں پناہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں پتہ ہے کہ امریکہ جیسی ماں مُشکل وقت میں اُنکے ساتھ کھڑی ہوگی اور اور اُنکا ساتھ دے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :