میرے شہر میں وزیرِاعظم کی آمد

منگل 9 فروری 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پچھلے دنوں میرے شہر میں وزیرِاعظم صاحب تشریف لائے ، وزیرِاعظم صاحب کی آمد کا مقصد بظاہر اِس شہر کیلئے ترقیاتی بجٹ کی تقسیم، ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح اور کسان دوست انقلابی اصلاحات بتایا جاتا ہے۔اب آپ اِس کو خوش قسمتی یا بد قسمتی کہیں کہ وزیرِاعظم صاحب کی آمد کیلئے بنایا گیا ہیلی پیڈ اور لینڈنگ گراؤنڈ میری رہائش گاہ کے قریب تھا۔

چونکہ ہیلی پیڈ میری رہائش کے قریب تھا اِس لیے آمد سے ایک دن پہلے میں نے دیکھا کہ کس طرح سرکاری افسران اور پروٹوکول سٹاف کی دوڑیں لگی ہوئیں تھیں، سبز نمبر پلیٹ والی4x4 گاڑیاں شاں شاں کرکے کبھی اِدھر جارہی تھیں اور کبھی اُدھر جارہی تھیں۔ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او سمیت تمام سول بیوروکریسی انتظامات کی تیاری میں مصروف تھی۔

(جاری ہے)

وزیرِ اعظم کی آمد سے ایک دن پہلے مجھے کسی کام کیوجہ سے میں بازار(City center)جانے کا اتفاق ہوا، جہاں میں کیادیکھتا ہوں کہ سڑکیں ، اوورہیڈ برج اور گرین بیلٹ سمیت تمام شہر اور اہم شہراؤں کو مکمل طور پر دھویا جارہا ہے، سینٹری ورکرزپوری تُندہی کیساتھ سڑکوں کی صفائی سُتھرائی میں مصروف نظر آئے۔

گرین بیلٹ پر موجود پودوں اور بیلوں کو سنواراگیا، اُنکی کانٹ چھانٹ کچھ اِس انداز سے کی گئی کہ کہیں محبوب وزیرِاعظم کی نظر کسی بدنُما ٹہنی پر نہ پڑ جائے اور اُنکے مزاج کو ناگوارنہ گُزر جائے۔غرضیکہ شہر کو ہر لحاظ سے بنایا سنوارا گیا، اور شہر کے بازاروں میں گھومتے ہوئے مجھے یہ گُمان ہونے لگا کہ شاید یہ تو وہ شہر ہی نہیں جہاں میں رہائش پذیر ہوں، مُجھے لگا کہ میں کسی اور شہر میں آگیا ہوں۔


 وزیرِاعظم صاحب کی آمد وا لے اُس دِن مُجھے لگا کہ آج واقعی ہی میرے شہر کی بیوروکریسی اور سول ایڈمنسٹریشن نے دِل سے کام کیا ہے، کیونکہ جس طرح ایک سینٹری ورکر سے لیکر ڈی سی او اورڈی پی اوکی دوڑیں لگی ہوئیں تھیں وہ واقعی قابلِ دیدنی تھیں۔اُس دِن مجھے لگا کہ شاید وزیرِاعظم صاحب کی آمد کے دوران اِن دودِنوں میں واقعی ہی اِن سرکاری ملازموں نے اپنی تنخواہیں حلال کی ہیں۔

یہ سطر میں نے اِس لیے لکھی ہے کیونکہ میں سرکاری ملازموں اور سرکاری اداروں کی حالت بخوبی جانتا ہوں، چاہے وہ محکمئہ تعلیم ہو، صحت کا شُعبہ ہو،ڈی سی او آفس ہو، میونسپل کارپوریشن کا دفتر ہو، پبلک اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ ہو، یا تھانہ ہو، اِن تمام سرکاری دفاتر سے مجھے پچھلے چھ ماہ میں واسطہ پڑا ہے اور میں وہاں موجود سائلین کی کسمپُرسی سے بخوبی واقف ہوں۔

مجھے پچھلے چھ ماہ کے دوران اپنی فیملی اورعزیزواقارب کے مُختلف نوعیت کے کاموں کیوجہ سے اِن دفاتر کے چکر کاٹنا پڑے ہیں، اور میں اِن اداروں میں فرض انجام دینوالے سرکاری ملازموں کی بے حسی، بدمزاجی اور بداخلاقی کو بغور دیکھتا رہا ہوں۔اکثر سرکاری مُلازم کسی سائل کا کام نہ کرنے کے ارادے سے صرف دفتر آتے ہیں جو زیادہ تر قت خوش گپیوں اور باتوں میں گُزاردیتے ہیں، کچھ وقت چائے آنے ،لانے اور پینے پلانے میں گُزر جاتا ہے۔

اکثر وبیشتر سرکاری دفاتر میں ساڑھے بارہ بجے سے آڑھائی بجے تک دو گھنٹوں کیلئے نماز اور کھانے کا وقفہ ہوتا ہے۔میں نے ایک ڈی ای او (ایجوکیشن)کے دفتر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوئر سٹاف ساڑھے بارہ بجے ہی مسجد جاکر ظہر کی نماز کیلئے اپنی جگہ مَل لیتا ہے۔ اکثر پنجاب گورنمنٹ کے اداروں (ہفتے میں چھ دن کام ، آٹھ سے تین بجے تک ڈیوٹی)میں لنچ بریک کے بعد سٹاف ہی غائب ہوجاتا ہے، کوئی جناب اپنے بچے کو سکول سے گھر پہنچانے کا اہم فریضہ سرانجام دے رہا ہے، تو کوئی سرکاری بابوبجلی وگیس کا بِل جمع کروانے گیا ہواہے۔

یہ سب کچھ اِس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ میں نے یہ سب کچھ خود اپنے ساتھ ہوتے دیکھا ہے کہ میں ایک سرکاری دفتر میں گیا تو پتہ چلا کہ متعلقہ شخص بجلی کا بِل جمع کروانے گیا ہو اہے۔
میں ایک عام سا شہری چونکہ سول ایڈمنسٹریشن اورسرکاری دفاتر میں کام کرنیوالے لوگوں کے اِس طرح کے کام چور(اکثر ، تمام نہیں)رویوں کا ستایا ہو شخص تھا تو اِس لیے وزیرِاعظم صاحب کی آمد کے موقع پر اِنہی سُست سرکاری ملازموں کو کام کرتے دیکھ کر میں اِس قدر حیران ہوگیا ، میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ افسران جو اپنے ہاتھ سے پانی ڈالنا اور پینا بھی پسند نہیں کرتے تھے وہ کس طرح پورا دن دھول ومٹی کا سامنا کرتے ہوئے وزیرِاعظم صاحب کی راحت کا سامان کررہے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ سرکاری ملازموں کو اِس غریب عوام کے حال پر رحم کرنا چاہیے اور وزیرِاعظم صاحب کی آمد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باقی کے دِن بھی اپنے فرائض اِسی تُندہی اور ایمانداری کیساتھ انجام دینے چاہیں کیونکہ سرکاری مُلازموں کو تنخواہیں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے مِل رہی ہوتی ہیں۔
لیبر لاء کے تحت پوری دُنیا میں کسی بھی ملازم (سرکاری ، نیم وغیر سرکاری)کو ہفتے میں چالیس گھنٹے آجر(employer)کیلئے کام کرنا ہوتا ہے، یعنی ہفتے میں پانچ دن ہر روز آٹھ گھنٹے یا چھ دن روزانہ سات گھنٹے(جُمعہ پانچ گھنٹے)۔

دراصل ہفتے کے یہ چالیس گھنٹے صرف آپکی livingہی پورا کرسکتے ہیں،یعنی اِن چالیس گھنٹوں سے آنیوالی آمدن سے آپ اپنے گھر کے بجلی وگیس کے بِل، خورا ک و رہائش کو بندوبست ہی کرسکتے ہیں۔جبکہ اگر آپ نے اپنی زندگی اورمُستقبل بنانا ہے تو پھر آپ کو ہفتے میں کچھ گھنٹے مذید کام پر لگانا ہوتے ہیں۔سونو شرما (Sonu Sharma)ایک مشہور انڈین موٹیویشن سپیکر ہیں اُنکے بقول امریکہ میں ایک billionaireیا millionaireایک ہفتے میں اوسطاً 92گھنٹے کام کرتا ہے۔

جبکہ ہمارے لوگ ہفتے میں چالیس گھنٹے بھی مُشکل سے اپنے کام کو دیتے ہیں۔ جب تک کوئی شخص اپنے کام کو مُختص کردہ وقت نہیں دیتا ، وہ تب تک اُس کام کا ماہر نہیں ہوسکتا اور کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکتا ۔یہ ہمارے سرکاری ملازموں(تمام نہیں)میں قابلیت کی کمی ہی ہے کہ وہ پوراسال صرف حکومت کی طرف سے مِلنے والی تنخواہوں میں اضافے پر آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔

اُنہیں سستی اور کاہلی کی اِس قدر عادت پڑ چُکی ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاشی حالات بدلنے کا سوچنا ہی بند کرچُکے ہوتے ہیں۔ سال کے 365دِنوں میں سے دوچھٹیوں کے حساب سے 100دِن نِکل جاتے ہیں یعنی باقی 260دن ۔ جس میں پندرہ سے بیس دن مختلف طرح کی چُھٹیاں ، تہواروں اور قومی دِنوں کی چھٹیوں میں نِکل جاتے ہیں۔باقی رہ گئے تقریباً 240دن۔اِن 240دِنوں میں سے بھی پندرہ سے بیس چھٹیاں سال میں ہم شادی بیاہ، خوشی وغمی، بیماری، گھر کے کام کاج کے نام پر لے لیتے ہیں۔

تواِس لیے رہ دہ کر سال میں تقریباًدو سو کے قریب دِن بچتے ہیں جو ہم نے اپنے دفتروں میں کام کاج کے دوران گُزارنے ہوتے ہیں۔یہ دو سو دِن بھی اگرہم صحیح طرح سے کام نہ کریں، اور سارا وقت اخبارپڑھنے، چائے پینے اور دفتروں میں بیٹھ کر پیٹ کے دردکیلئے دَم درود کرنے میں لگادیں تو پھر امورِسلطنت اور معاملات کِس طرح چلیں گئیں؟ہم تو اِس قدر دوغلے معیار کے لوگ ہیں کہ ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کیلئے ملازمتیں سرکاری چاہیں جہاں تنخواہیں زیادہ اور کام کم ہو، جبکہ دوسری طرف جب ہماریserviceلینے کی بات آتی ہے(یعنی تعلیم اور صحت)تو ہم کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچے کو اچھے پرائیویٹ سکول میں داخل کروانا ہے اوراپنا علاج کسی سرکاری ہسپتال کی بجائے اچھے اور معیاری پرائیویٹ ہسپتال سے کروانا ہے۔

اگر ہم اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں تو پھر ہمیں پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے کو بھی ترجیح دینی چاہیے، اوراگرہمیں سرکاری ادارے پسند ہیں توپھر ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم بھی سرکاری سکولوں میں دِلوانی چاہیے اور صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہی علاج کروانا چاہیے۔یہ کِس قد رتلخ حقیقت ہے کہ کسی بھی ڈسٹرکٹ میں سرکاری ڈیوٹیاں ، سرکاری رہائشیں اور سرکاری سہولیات کا مزہ لینے والے ڈی سی او،ڈی پی او، اے سی، ڈسٹرکٹ وسیشن جج حضرات، ڈسٹرکٹ وچیف ایجوکیشن آفیسر سمیت تمام اعلٰی عہدیداران کے اپنے بچے اُس ڈسٹرکٹ کے سرکاری سکولوں میں پڑھنے کی بجائے اُسی ڈسٹرکٹ کے سب سے مہنگے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :