واقعی ہی کورونا کی تیسری لہر یا حکومتی دھوکے بازی؟

منگل 16 مارچ 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پچھلے دو،تین دِنوں سے مسلسل ٹی وی چینلز ، اخبارات اور وٹس ایپ گروپوں کے ذریعے کرونا کے پھیلاؤ کی خبریں نشر کی جارہی ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ مُلک میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔NCOCروزانہ کی بنیاد پر کرونا مریضوں اور اموات کا جائزہ لے رہا ہے ، اور آنیوالے دِنوں کے لیے حکمتِ عملی وضع کر رہا ہے ۔ ابھی تک کی اعداوشُمار کے مطابق یہ لگ رہا ہے کہ حکومت آنیوالے چند دِنوں میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے اور دفعہ 144نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔

میری ناقص رائے کے مطابق مُلک میں لاک ڈاؤن یا دفعہ 144نافذ کرنے کا فیصلہ صحتِ عامہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نہیں بلکہ شاید کسی اور ہی وجہ سے ہے اور وہ وجہ غالباً مارچ کے مہنیے کے آخر میں اپوزیشن کے ہونیوالے لانگ مارچ کو ناکام بنانا ہے ۔

(جاری ہے)


میں اپنے اِس خیال ، کہ حکومت پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے لاک ڈاؤن اور کرونا آگاہی کی تشہیر میں لگی ہے ، کی وضاحت کیلئے چند حقائق آپکے سامنے رکھوں گا۔

موجودہ حکومت نے پچھلی اور آخری دفعہ دسمبر 2020ء کے شُروع اوروسط میں کرونا کے پھیلاؤ کی بھرپور تشہیر کی، عین اُس وقت جب پی ڈی ایم لاہور میں دسمبر میں اپنا جلسہ منعقد کروانے کی تیاریاں کررہی تھی۔اُس وقت دسمبر 2020میں تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا اور بازاروں میں کرونا SOPsکی خلاف ورزی پر بھاری جُرمانے کیے گئے۔لیکن آپ دسمبر کے بعد سے لیکر یکم مارچ تک کرونا کے خلاف حکومتی سنجیدگی ، آگاہی یا SOPsپر عمل درآمد کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اِس عرصہ کے دوران حکومت کرونا وبا کو کنڑول کرنے میں بالکل غیر سنجیدہ نظر آئی۔

جنوری اور فروری کے مہینوں میں مجھے راولپنڈی و اسلام آباد اورچند دیگر شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں بسوں، بس اڈوں، بازاروں، شاپنگ مالز اور ہر طرف عوام کُھلے عام کرونا وبا کی خلاف ورزی کرتے دکھائی دیے۔اِسکے بعد حکومت نے یکم فروری سے تمام تعلیمی ادارے کھولنے شُروع کردیے ، اور پھر یکم مارچ سے تعلیمی اداروں میں 100فیصد تعداد کا فیصلہ بھی کردیا ، جوکہ میں سمجھتا ہوں بالکل غلط تھا۔

حکومت کو تعلیمی اداروں کو پچاس فیصد تعداد پر ہی کھلے رہنے دینا چاہیے تھااورساتھ ہی ساتھ کرونا SOPsپر سختی سے عمل درآمد کروانا چاہیے تھا۔لیکن کیا ہے کہ ہمیں (Early Victory)یعنی جلد فتح کا نعرہ لگانے کا شوق ہے اِس لیے ہم نے سب کچھ مسجدیں ، بازار، شاپنگ مالز، شادی ہالز، پی ایس ایل میچز، اور تعلیمی ادارے سب کچھ کُھولنا شروع کردیے۔
میں نے ابھی پچھلے دو دِنوں کے دوران مُلک میں کرونا کیسیز اور اموات کے بارے میں پڑھا جس میں NCOCکے اعدادوشُمار کے مطابق مُلک میں روزانہ 2000کے قریب کیسیز آرہے ہیں اور اندازاً روزانہ پچاس کے قریب اموات واقع ہو رہی ہیں۔

لیکن نہ جانے مجھے NCOCکی کریڈیبلٹی (credibility)اور ڈیٹا مشکوک لگ رہا ہے۔ این سی اوسی موجودہ حکومت کیساتھ مِلکر مُلک میں ڈِس انفارمیشن پھیلارہی ہے تاکہ لوگوں میں ایک طرح کا خوف وہراس پھیلایا جائے، جِس کی وجہ سے لوگ پی ڈی ایم کے لانگ مارچ اور جلسوں میں شرکت نہ کرسکیں۔پاکستان کی حکومتوں اور اداروں سے کچھ بھی بعید نہیں ، اپنے لوگوں اور اپنے عوام بالکل بھی مخلص نہیں، اور اِسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ اِس مرتبہ بھی حکومتی کرونا وبا کی تشہیر کا مقصد سیاسی ہے حکومت کو اپنے عوام کی صحت اورحفاظت سے کچھ سروکارنہیں۔


حکومت ِپاکستان نے جنوری 2021ء میں چائنہ سے کرونا ویکسین تحفتاً حاصل کی، ویکسین حاصل کرنے کے بعد حکومت کی طرف سے اِس ویکسین کو لگانے اوراِسکی شفافیت کا معاملہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ پہلے مرحلے میں چائنہ نے ویکسین کی پانچ لاکھ خوراکیں دیں، جسے حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل سٹاف کو لگانا تھیں، لیکن حکومت میڈیکل سٹاف کو موثر طور پر ویکسن لگوانے پر قائل نہ کرسکی، اور ابھی تک بھی صرف چند ہزار میڈیکل ورکرز کو ہی و یکسین لگائی جاچُکی ہے۔

میڈیکل ورکرز اور سٹاف کی ایک بڑی تعداد کرونا ویکسین لگوانے سے قاصر رہی ہے۔
میں اِس وقت تین سے چار مُلکوں کے پاکستان میں سفارتخانوں اور انٹری ایگزیٹ پالیسیوں کو بغور دیکھ رہا ہوں۔زیادہ ترمُلکوں نے باہر سے آنیوالے شہریوں اور foreignersکیلئے quarantineکی شرط لازماً رکھی ہوئی ہے۔ چائنہ میں foreignersصرف بیجنگ ائیرپورٹ کے ذریعے ہی چائنہ میں داخل ہو سکتے ہیں، جہاں آپکو پندرہ دِنوں کیلئے quarantineکرنا پڑتا ہے، لیکن پاکستان نے بیرونِ مُلک سے آنیوالے غیر مُلکیوں کیلئے quarantineکی کوئی پالیسی وضع نہیں کر رکھی ہے۔

پچھلے دو ماہ سے بیرونِ مُلک پاکستانی اور غیر مُلکی quarantineکیے بغیر ہی پاکستان میں داخل ہور ہے تھے۔ لیکن اب اچانک سے حکومتِ پاکستان نے کرونا high riskمُلکوں سے آنیوالے لوگوں پر دوبارہ پابندی لگا دی ہے ، اور بیرونِ مُلک سے پاکستان آنیوالے ہر مُسافر کیلئے quarantineکی شرط بھی رکھ دی ہے جبکہ جنوری اور فروری کے مہینوں میں ایساکچھ نہیں تھا۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے شُروع دن سے ہی کرونا وبا کو بڑا غلط handleکیا ہے پاکستانی حکومت اگر سنجیدگی سے کرونا وبا کو کنٹرول کرتی تو شاید آج پاکستان کی معاشی اور سماجی صورتحال بہتر ہوتی۔

پاکستان میں ابھی تک تیرہ ہزار سے زیادہ اموات ہو چُکی ہیں جبکہ چائنہ میں صرف ساڑھے تین سے چار ہزار اموات ہوئیں ہیں۔ چائنہ کے علاوہ دیگر مشرقی ایشیائی مُمالک مثلاً ملائیشیا، انڈونیشیا، ویتنام، تھائی لینڈ، کوریا، جاپان اورلاؤس وغیرہ نے کرونا وبا پر بڑے احسن طریقے سے قابو پایا ہے۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ یہ زیادہ تر مشرقی ایشیائی مُمالک تو خُدا کو مانتے بھی نہیں، لیکن پھر بھی خداتعالیٰ کرونا وبا کے معاملے میں اُن پر پکے مُسلمانوں کے مقابلے اتنا مہربان کیوں رہا ،اور اُن کا جانی اور مالی نقصان ہم سے کم کیوں کر ہوا؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :