کرپشن کا پرچار

پیر 1 فروری 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

1874ء سے پہلے لوگ برطانیہ میں ٹیکس نہیں ادا کیا کرتے تھے۔دراصل ٹیکس کی کہانی یہاں سے شُروع ہوتی ہے کہ پُرانے وقتوں میں جب کسی بادشاہ کو دوسرے مُلک یا بادشاہ کیخلاف جنگ کرنا ہوتی تھی تو اِس کیلئے بادشاہ اپنی رعایا سے جنگ کا سازوسامان خریدنے کیلئے رقم اکٹھی کیا کرتاتھا۔اور اِسی طرح اگر کسی دوسرے مُلک نے سلطنت پر حملہ کردیا ہے تو مُلک کے دفاع کیلئے عوام سے پیسہ ، مال ومتاع اور مویشی یا گھوڑے وغیرہ اکٹھے کیے جاتے تھے۔

اِسی اصول کو اپناتے ہوئے سلطنتِ برطانیہ نے نپولین کے خلاف جنگ (1700~1816)کے اخراجات کیلئے اپنی رعایا سے رقم اکھٹی کی۔ اور کچھ اِسی طرح کا معاملہ امریکیوں کیساتھ بھی امریکہ کی سول جنگ (1861~1865)میں بھی پیش آیا جب اُنہیں لڑائی کیلئے اپنا مال و متاع اپنی حکومتوں کے حوالے کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

جنگوں کے بعد بادشاہوں اور حکومتوں کو عوام سے رقم بٹورنے کا یہ آئیڈیا اتنا پسند آیا کہ برطانیہ نے 1874ء میں اور امریکہ نے 1913ء میں قوانین میں تبدیلی کروا کے اپنی عوام سے ٹیکس بٹورنے کا مُستقل بندوبست کرلیا۔

امریکہ اوربرطانیہ کی اشرافیہ اور حکومتوں نے دعوٰی کیا کہ ہم امیروں سے ٹیکس کی رقم لیکر غریبوں پر خرچ کریں گے۔ہم غریبوں کو مُفت صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کریں گے، ہم غریبوں کو سِستی ٹرانسپورٹ اور یوٹیلٹی (مثلاً بجلی، گیس) فراہم کریں گے،وغیرہ،وغیرہ۔عوام کو ٹیکس کا جھانسہ دینے کیلئے حکومتوں اور اربابِ اختیار کو تقریبا ً50سال تک ٹیکس (انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس،ودہولڈنگ ٹیکس دیگر)کا پرچار کرنا پڑا اور یہ ٹیکس کا آئیڈیا عوام میں مقبول بنانا پڑا کہ ہم (حکومت) امیر سے رقم اکٹھی کرکے غریب پر خرچ کر ے گی۔

عوام جب اِس ٹیکس کے جھانسے میں پوری طرح آگئی توا ب عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے خود حکمرانوں کو چُنتی ہے ، وہ مُنتخب نُمائندے اسمبلیوں میں جاکر عوام کا خون چُونسنے کیلئے اُسی غریب عوام پریہ کہہ کر ٹیکس لگاتے ہیں کہ ہم امیروں سے رقم اکٹھی کرکے غریبوں پر خرچ کریں گے۔ امیروں سے رقم اکٹھی کر کے غریبوں میں بانٹنے والی اِس کہانی کو Robin Hood ideaکہتے ہیں۔

ایک اندازے کیمطابق ایک عام امریکی شہری اپنی سالانہ آمدن میں سے 4~5مہینوں کی آمدن حکومت کو ادا کربیٹھتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ ریاست اُس کو مُفت علاج، معیاری تعلیم،روزگار، انشورنس، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہو لیات فراہم کرے گی۔لیکن یہ تمام سہولتیں درحقیقت حکومتیں فراہم نہیں کرتیں، یہ صرف اپنے شہریوں سے ٹیکس کی رقم کی بٹورنے کیلئے ٹیکس کے نظریے کا واویلا کرتی ہیں۔

یہ ساری کہانی پچھلے دنوں میں نے ایک کتاب میں پڑھی اور ہو بہ ہوآپکے سامنے رکھ دی۔اِس ساری کہانی میں میرے لیے سب سے حیران کُن بات یہ تھی کس طرح ایک مُلازم پیشہ شہری اپنی 4~5مہینوں کی آمدن ہر سال اپنی حکومتوں کو دے بیٹھتا ہے؟یہ جب میں نے خودکیلئے حساب کتاب لگایا تویہ بات مجھے بالکل دُرست لگی کیونکہ ہر ماہ میری تنخواہ مجھے مِلنے سے پہلے ہی میرا ادارہ اُس میں سے کچھ رقم اِنکم ٹیکس کے نام پر کاٹ کر سرکار کودے دیتا ہے۔

پھر میں پٹرول، بجلی، گیس اور ٹیلی فون و موبائل فونز (utalities)کے بِلوں کے ذریعے سیلز ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ ہر پاکستانی شہری کو ٹوتھ پیسٹ ، صابن و شیمپو ، پتی و دُودھ خریدتے ہوئے بھی سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں۔اِس طرح اگر میں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس (ود ہولڈنگ ودیگر ٹیکسز) کی یہ تمام رقم جمع کروں تو مجھے یہ بات دُرست لگنے لگتی ہے کہ میں ہر سال کم از کم 3~4مہینوں کی تنخواہ اپنی سرکار کے حوالے کربیٹھتا ہوں،اور تین سے چار ماہ کام کرکے اپنی حکومت کو پیسہ کھلاتا ہوں۔

اچھا دِلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ہر مُلک میں ہر قانون کا پابند شہری (law-abiding citizen)یہ کام کررہا ہے اور اُن شہریوں کی حکومتیں ٹیکس کے بدلے سہولیات کا جھانسہ یا پر چار کرکے بابلِ دہنگ یہ رقم اپنے شہریوں سے نوچ رہی ہیں۔
جس طرح امریکی اور برطانوی حکومتوں نے ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے ٹیکس کا پرچار کیا اور اپنی عوام کو جھانسہ دیکر اُن سے رقم اکٹھی کرنا شروع کی کہ ہم امیر سے ٹیکس کی رقم لیکر غریب پر خرچ کریں گے ،بالکل اُسی طرح ہماری حکومتوں نے بھی 1970-1980ء کی دہائی میں جہاد کا آئیڈیا اپنی عوام کو بیچا۔

بیچاری سادہ لوح اور اَن پڑھ عوام کو جہاد کے نام پر ورغلایا گیا۔عوام سے کہا گیا کہ ہم ایک کافر مُلک رؤس کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور عوام سے مالی اور خاص طور پر جانی اور اخلاقی سپورٹ حاصل کی گئی۔اِس بے کس و بے یارو مددگار عوام کے سامنے اُس دُور میں ہونیوالے نام نہاد جہاد کا کچھ اِس طرح پرچار کیا گیا کہ یہ شاید کُفر اور اسلام کے مابین آخری معرکہ ہو۔

1970~1980ء کی دِہائی میں ایک خاص سوچ کو پروان چڑھایا گیا کہ ٹیلیوژن سیٹ گھروں میں فحاشی اور بے حیائی کا سبب ہیں اور مُبینہ طور پر اُس دور کے عُلماء اور مشائخ حضرات نے سڑکوں پراپنے جلسے جلسوں میں سرِعام ٹی وی سیٹ توڑ ے۔جبکہ آج اُنہی مکاتبِ فکر کے علماء و مشائخ ہیں جو مُختلف ٹی وی چینلز پر آکر مُختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

اِس پر مذید یہ کہ کئی علماء اور مکاتبِ فکر کے مشائخ نے اپنے علیحدہ علیحدہ ٹی وی چینلز کھول رکھے ہیں۔یہ اُسی 1970~1980ء والے جہادی عشرہ کی بات تھی جب سینما مالکان کسادبازاری کیوجہ سے معاشی دباؤ کا شکار ہوئے تو اُنہیں تین گھنٹے کی فلم کے دوران تین سے چار منٹ کے پورن وڈیو کلپس چلانے کی اجازت مل جاتی تھی جسکو دیکھنے کیلئے فلم بین اور شائقین ٹکٹ خریدتے تھے تاکہ سینما مالکان کا گُزر بسر بھی ہوسکے۔

لیکن اُس دور میں حکومت کو چونکہ جہاد کیلئے لوگ اور وسائل درکار تھے تو اس لیے افغان جنگ کی دِہائی میں حکومت نے دِل کھول کر جہادکا پرچار کیاتاکہ عوام میں اِس موقف کو پزیرائی مِل سکے۔
اب آجاتے ہیں پچھلی دِہائی کیطرف یعنی کہ 2010~2020ء کے دوران ، جس میں حکومت اورمُقتدر حلقوں کی طرف سے دِل کھول کر کرپشن کا پرچار کیاگیا۔اکیسویں صدی اور موجودہ دور چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور رہا ہے اِس لیے اربابِ اختیار نے روایتی ٹی وی چینلز کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی مثلاً فیس بُک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اور دیگر سوشل نیٹورکنگ (social networking tools)کا بھی بھرپور اِستعمال کیا،اور عوام کو بتایا کہ کرپشن ہی تباہی اور تمام تر بُرائیوں کی جڑ ہے۔

لاکھوں کی تعداد میں جعلی فیس بُک اکاؤنٹس اور ٹوئٹیراکاوئنٹس بنائے گئے، کئی غیر مُلکی سوشل مارکیٹنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں اور اُنہیں اِس مقصد کیلئے رقم ادا کی جاتی رہی کہ وہ مارکیٹنگ کمپنیاں کرپشن کا پرچار کریں اور اِس کرپشن کو تمام برائیوں اور خامیوں کی وجہ ثابت کریں۔سیاسی مخالفین اور سیاسی قائدین کی کردارکُشی کی گئی اور اُنہیں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کرپٹ کہا اور ثابت کیا گیا۔

نوجوان اور نئی نسل کی ذہن سازی کچھ اِس طرح کی گئی کہ پُرانی سیاسی جماعتیں اور قیادتیں کرپٹ ہیں اور اُنکی کرپشن کیوجہ سے ہی دراصل ہمارے مُلک میں مہنگائی، بے روزگاری، غُربت اور بیماری وافلاس ہیں۔اِس طرح ایک نئی سیاسی قیادت کیلئے راہ ہموار کی گئی اور عوام بالخصوص نوجوان نسل اِس جھانسے میں آکر نئی سیاسی قیادت کو ووٹ دے بیٹھی ۔
لیکن آج اڈھائی سال بعد جب ٹرانسپرنسی انٹرنیشل (Transparancy internation)کی رپورٹ سامنے آتی ہے تو پاکستان 2019ء کے مُقابلے میں چار درجے نیچے کی جانب چلا جاتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کا رُجحان بڑھا ہے۔

حکومت کے تمام تر دعوؤں اور وعدوں کے باوجود کرپشن کے عالمی تحقیقی ادارے کیمطابق پاکستان میں 2018ء کے بعد سے کرپشن میں مُسلسل اضافہ ہورہا ہے۔سال2017~2018ء پچھلی حکومت کے دور میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس 117تھاجو سال 2019ء میں 120ہوا،اور سال2020ء میں 124پرآگیا، یعنی موجودہ حکومت کے دور میں پاکستان پچھلی حکومتوں کے مُقابلے میں سات درجے نیچے گیا ہے، جبکہ یہی حکومت کرپشن ختم کرنے کا مینڈیٹ لیکر آئی تھی۔

حکومتی وزراء اِس کی توجیہات یہ پیش کررہے ہیں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے سروے کیلئے پچھلی حکومتوں کے دور کا ڈیٹا استعمال کیا ہے۔یہ بے وقعت دلیل عوام کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ایک مُستند ادارہ ہے جو اِس طرح کی غلطی اور کوہتاہی شاذونادر ہی کرسکتا ہے۔میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ خود تو نہیں پڑھ سکا لیکن حکومت کرپشن انڈیکس میں تنزلی کی جس طرح تشریح کررہی ہے ، و ہ واقعی ہی قابلِ رحم ہے۔


میں نے اِس تحریر میں آپکے سامنے تین واقعات رکھے ہیں جس میں پہلے بیان کیاگیا کہ حکومتوں نے اپنے عوام جیبوں سے پیسے بٹورنے کیلئے کس طرح ٹیکس کا پرچار کیا،اور یہ نعرہ بیچا کہ ہم امیروں سے پیسہ لیکر غریبوں پر خرچ کریں گے۔ جبکہ دوسرے واقعے میں امریکہ کی رؤس کے خلاف جنگ کو جہاد کا پرچار کرکے غریب عوام کے خون اور گردنوں کے سودے کیے گئے، اور تیسری مثال میں عوام میں کرپشن کا شعور اُجاگر کرنے اور کرپشن مٹانے کے نعرے کا پرچار کرکے عوامی ووٹوں کو استعمال کرکے ایک مَن پسند حکومت کو مُسلط کیا گیا، جس کے دَور میں کرپشن اُلٹا کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ،بالکل اُسی طرح جیسے مغربی حکومتوں نے غُربت ختم کرنے کیلئے ٹیکس کا پرچار کیا ،لیکن درحقیقت غُربت کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔

پاکستان نے جس طرح 1980ء کے جہادی عشرے کے اثرات پندرہ سے بیس سال بعد ایک بھیانک دہشت گردی کی صورت میں دیکھے ،مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان کوخدانخواستہ 2010~2020ء کرپشن والے عشرے کے خطرناک اثرات کہیں مُستقبل میں نہ دیکھنے پڑجائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :