اپنا ذاتی گھر،ایسٹ نہیں لائیبلٹی

جمعرات 18 فروری 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

باپ ،بیٹے کے درمیان بڑی گرم جوشی کیساتھ بحث چل رہی تھی اُس کا باپ اِس بات پر مُصر تھا کہ ہمارا گھر ہمارا سب سے بڑا ایسٹ (asset)یعنی سرمایہ ہے جسے میں نے اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی اکٹھا کرکے بنایا ہے، جبکہ رابرٹ کی سوچ اِس سے بالکل برعکس تھی اُس کا خیال تھا کہ ہمارا ذاتی گھر ہمارا ایسٹ نہیں بلکہ ہماری سب سے بڑی لائیبلٹی (liability)یا مالی بوجھ ہے جس کی وجہ سے ہماری ساری بچت ایک جمع ہوگئی ہے ہمارے پاس بزنس یا انوسٹمنٹ کے لیے رقم نہیں بچی، ہم اعلٰی تعلیم نہیں حاصل کرسکتے اور ہمیں اپنے گھر کے اخراجات کے سلسلے میں ہر ماہ قرض کی قسط ،بِلوں اور دیگر اخراجات اُٹھانے پڑتے ہیں۔

تاہم اِن سارے دلائل کے باوجود رابرٹ کا باپ اُسکی بات ماننے سے انکاری تھا۔

(جاری ہے)


یہ کہانی میں نے پچھلے دِنوں ایک کتاب ،امیر باپ غریب باپ(Rich Dad, Poor Dad)میں پڑھی۔ کتاب کے مصنف رابرٹ کیوسکی کے مُطابق اُسکے دوباپ تھے، ایک اُس کا حقیقی باپ ،جو اعلٰی تعلیم یافتہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر اورریاستِ ہوائی میں تعلیم کا سپرنٹنڈنٹ تھا،جبکہ اُس کا دوسرا باپ دراصل رابرٹ کے دوست مائیک (Mike)کا باپ تھا جو اپنی زندگی کے تیرھویں سال ہی سکول سے بھاگ گیا تھالیکن اِس وقت وہ کئی بزنس فیکٹریاں، ڈیپارٹمنٹل سٹورز اور رئیل اسٹیٹ کمپنیاں چلا رہا تھا۔

رابرٹ اپنے حقیقی باپ کو اُسکے خیالات اور نظریات کیوجہ سے غریب باپ گردانتا تھا، مثلاً رابرٹ کا حقیقی باپ اُسے ہر وقت دل لگا کر پڑھائی کرنے، اچھی نوکری ڈھونڈنے ،نوکری میں دِل لگا کر کام کرنے تاکہ زیادہ معاوضہ مِل سکے وغیرہ کی نصیحتیں کیا کرتا تھا۔رابرٹ کا باپ اُسے سرکاری ملازمت حاصل کرنے کی ترغیب دیا کرتا تھا، اُسکے بقول سرکاری نوکری مستقل ہوتی ہے جس میں یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ آپکا آجر (employer)کسی بھی وقت آپکو نوکری سے نکال باہر کرے۔

اِنہی خیالات کیوجہ سے رابرٹ کا سگا باپ ایک سرکاری ملازم تھا،وہ خود سرمایہ کاری یا کاروبار کرنے اور خطرات مول لینے سے بچتا رہتا تھااور ہمیشہ رابرٹ کو بھی خوب دِل لگا کر پڑھائی کرنے ،سرکاری نوکری کرنے اور خطرات سے بچنے کی تلقین کیاکرتا تھا۔
جبکہ رابرٹ کا امیر باپ ایک کم بلکہ معمولی تعلیم یافتہ انسان تھا ، لیکن اِسکے باوجود وہ ایک بزنس ایمپائر کا مالک تھا یہ ایمپائر ڈیپارٹمنٹل سٹورز، کنسٹرکشن کمپنیوں، گنے کی مِلوں اور رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کی صورت میں پھیلی ہوئی تھی۔

دیکھنے میں اور وضع وقطع کے لحاظ سے رابرٹ کے دونوں باپ ایک جیسے دکھائی دیتے تھے لیکن اُنکے خیالات یکسر مختلف تھے، اور اِن خیالات کے مختلف ہونے کیوجہ سے اُن دونوں کے معاملاتِ زندگی بھی مختلف تھے۔مثلاً رابرٹ کا غریب باپ ہر وقت کام کرتا رہتا تھا اُس کا ماننا تھا کہ مجھے پیسے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے اور اگر میں زیادہ کام کروں گا توزیادہ پیسے آئیں گے،جبکہ رابرٹ کا امیر باپ یہ سوچتا تھا کہ پیسہ آدمی کیلئے کام کرتا ہے۔

غریب باپ کے برعکس رابرٹ کا امیر باپ مستقل سرکاری ملازمت کے خلاف تھا اُس کا خیال تھا کہ مستقل ایک ہی ادارے میں نوکری آپکو نکھٹو اور کام چور بنادیتی ہے اور آپ میں سیکھنے ،سمجھنے اور اپنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور بروئے کار لانے کے جذبے کو مُردہ کردیتی ہے۔
رابرٹ کی اپنے امیر باپ سے شناسائی نوسال کی عمر میں ہوگئی تھی اور اِسی لیے اُسکی پرورش دومختلف ذہن کے لوگوں کے درمیان ہوئی تھی۔

رابرٹ کے امیر باپ کا خیال تھا کہ اگر آپ زندگی میں پہلے گھر (نقد یا قسطوں پر)لے بیٹھتے ہیں تو پھر آپ زندگی کے باقی اہم شعبوں کیلئے سرمایہ کاری کرنے کیلئے رقم یا توجہ نہیں دے پاتے۔ اول، ذاتی گھرکے بعد سرمایہ کی عدم دستیابی کیوجہ سے آپ اپنی رقم کسی کاروبار یا بزنس پلان میں نہیں لگا پاتے، کیونکہ ماہانہ قسط کی ادائیگی یا دیگر اخراجات کے بعد آپکے پَلے کچھ بچتا ہی نہیں۔

اوراگر آپ اپنی سیونگ سے گھر لے بیٹھتے ہیں تو آپ کے پاس بزنس پلان، انوسٹمنٹ یا اپنی یا بچوں کی اعلٰی تعلیم کیلئے کچھ رقم نہیں بن پاتی۔اِسکے علاوہ ذاتی گھر خرید چُکنے کر بعد اِس کا براہِ راست اثر آپکی نوکری اور پروفیشنل گروتھ (professional growth)پر پڑتا ہے اور آپ پھر کسی اور پُرکشش اور اچھی نوکری کیلئے کسی دوسرے شہر یا دوسرے ملک منتقل نہیں ہو سکتے۔

آپ کیلئے اپنا شہر ،محلہ اور علاقہ چھوڑنا مُشکل ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ اِسی ایک کمپنی یا آجر یا سرکاری ملازمت سے چمٹے رہتے ہیں،اور جس میں آپ روزانہ کوہلو کے بیل کیطرح گھومنے لگتے ہیں گھر سے دفتر،دفتر میں وقت بِتانے کے بعد گھر، وہی لوگ، وہی ماحول، وہی دوست احباب، خوش گپیاں، outing، لنچ، ڈنر اور ایک خوش کُن روٹین لائف۔

اِس سارے لائف سرکل میں جب کبھی مزاج بوجھل محسوس ہوتا ہے اور ترقی کرنے کا مَن کرتا ہے تو مُستقبل اور بے یقینی کا خوف آڑھے آجاتا ہے اور ساتھ ہی ہر مہینے کے آخر میں آجر کیطرف سے تنخواہ کا چیک ،انسان کے اندر کی ترقی پسندی، خودانحصاری، اور نئی سوچ کو گہری نیند سُلا دیتا ہے۔اِس کے بعد اگلے مہینے بھی یہی کچھ ہوتا ہے گھر سے دفتر، دفتر سے گھر، یاروں دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں، یوٹیلٹی کے بِلز، خوراک اور اخراجات کیلئے ہر ماہ تنخواہ کا چیک ،اور بس یوں ایک میڈل کلاس شخص ایک طرح کی ریٹ ریس (Rat Race)میں شامل ہوجاتا ہے۔


اِس سب کے برعکس رابرٹ باغیانہ سوچ کا حامل شخص تھا وہ بھی اپنے امیر ماں ،باپ کی طرح مستقل سرکاری نوکری کو پُر کشش نہیں سمجھتا تھا۔1979ء میں تعلیم مکمل ہونے کے بعد رابرٹ کی پہلی نوکری کیلیفورنیا سٹیٹ آئل (California State Oil)میں لگی جسکی سالانہ تنخواہ 42,000امریکی ڈالر تھی۔رابرٹ کو سال میں صرف سات ماہ کام کرنا ہوتا تھاجبکہ پانچ ماہ کی چھٹیاں تھیں(اکثر آئل گیس کمپنیوں میں ایسی ہی مراعات دی جاتی ہیں)اوریہ پانچ ماہ اگر رابرٹ چاہے تو مذید کام کرکے پیسے کماسکتا تھا۔

آئیل کمپنی میں اِس طرح کی پُر کشش تنخواہ اور مراعات والی نوکری کیوجہ سے رابرٹ کا غریب باپ بڑا خوش تھااور وہ اُسے خوب جی لگا کر کام کرنے ، مذید پیسے بنانے اور کمپنی سے مراعات حاصل کرنے کی نصیحت کرتا۔لیکن رابرٹ نے اِس سب کے برعکس ٹھیک آٹھ ماہ بعد اُس کمپنی میں استعفٰی دیکر یو ایس میرین کورپس (US Marine Coorps)میں نئی نوکری شُروع کردی جہاں اُس نے جہاز چلانے کی تربیت، فوجیوں کی قیادت کرنے کی ذمہ داری و دیگر فرائض انجام دینا شروع کردیے۔

یہ سب کچھ کی خبر پا کر رابرٹ کا حقیقی باپ سیخ پا ہو گیا اُس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ آخر اُس کے پاگل بیٹے نے کیوں کر ایک اتنی پُر کشش نوکر ی چھوڑ دی؟ اِس کے برعکس رابرٹ کی نئی نوکری پراُس کا امیر باپ بڑا خوش تھاکیونکہ یہاں رابرٹ کو قیادت کے اصولوں(leadership qualities)کو سیکھنے کو موقع ا ور بین الاقوامی تجارت کا گھیان مل رہا تھا۔کچھ عرصہ اِس نوکری کے بعد رابرٹ نے زیروکس(Xerox)میں بطور سیلز مین نئی نوکری شروع کردی اور جلد ہی Xerox coorporationمیں چوٹی کے پانچ سیلز مینوں شامل ہوگیا۔

اِن سب کے ساتھ ساتھ رابرٹ اپنی قابلیت ، ذاتی کاروبار اور ہنرمندی میں بھی مذید اضافہ کرتا گیا۔
رابرٹ کا غریب باپ اعلٰی تعلیم یافتہ ہونے کو بڑی اہمیت دیتا تھا اور ہمیشہ کہا کرتا تھاکہ تم پڑھائی میں اچھے گریڈز لو تاکہ تم اعزازی ڈگری حاصل کر سکو جسکے بعد تمہیں اچھی ، پُرکشش تنخواہ والی نوکری مِل سکے۔ غریب باپ کے خیال میں تعلیم کا اولین مقصد اور مطمئہ نظر ایک بہترین نوکری تھی۔

جبکہ رابرٹ اپنے امیر باپ کے خیالات کا پیروکار تھا، امیر باپ کے مطابق سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانیوالازیادہ تر علم قابلِ عمل اور منافع بخش نہیں ہوتا۔ تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانیوالا زیادہ تر علم آپکو ملازمت تلاش کرنے اور صرف ایک اچھا ملازم بننے کے علاوہ کچھ نہیں سکھاپاتا۔روایتی تعلیم اچھے بزنس مین اور entrepreneurپیدا کرنے سے قاصر ہے، گریجویٹس اپنی کمپنیاں کھولنے، نئے کاروبار کے مواقع تلاش کرنے اور دولت پیدا کرنے کے ہنر سے بے بہرہ ہیں۔

رابرٹ کے امیر باپ کے مطابق تعلیمی ادارے ،دفتروں،فیکٹریوں اورسرکاری اداروں میں کام کرنے کیلئے گدھے پیدا کررہے ہیں جو اِس فن سے بے بہرہ ہیں کہ روزگار کے نئے مواقع کیسے پیدا کیے جائیں؟اِسی لیے رابرٹ کے امیر باپ نے اُسے تعلیم کے دوران ہی کام پر لگا دیا تھا، رابرٹ اور اُس کا دوست مائیک دن میں سکول جاتے اور شام کے کچھ اوقات اورہفتہ واتواروہ دونوں امیر باپ کی فیکٹریوں ، ڈیپارٹمنٹل سٹورز اور کنسٹرکشن کمپنیوں میں کام کیا کرتے تھے۔


اِس تحریر میں بیان کردہ تینوں واقعات اور کرداروں (ذاتی گھر،مستقل ملازمت اورنظامِ تعلیم) کو جب میں اپنی حقیقی زندگی میں ڈھونڈھتا ہوں تو مجھے بھی اپنے اردگرد ایسے ہی لوگ دکھائی دیتے ہیں۔جب میں اپنی فیملی اور پچھلی جنریشن (نسل)کے لوگوں کی زندگی کا بغور جائزہ لیتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ کِس طرح اپنے ذاتی گھروں اور مکانوں کو اثاثہ سمجھتے رہے اور اُس ایک اثاثے کی حفاظت کیلئے اُنہوں نے اپنی نوکری اور اپنا پروفیشن برباد کردیا۔

ذاتی گھروں کے بعد میں اپنی جنریشن کے لوگوں کی زندگی کے دوسرے بڑے اثاثے (سرکاری ومستقل نوکری)کا جائزہ لیتا ہوں کہ وہ کس طرح ایک مستقل معمولی سرکاری نوکری کیساتھ چمٹے رہتے ہیں؟اورکس طرح تنخواہ میں اضافے ومراعات کیلئے کبھی آجر کی مِنت سماجت کرتے ہیں اور کبھی یونین واحتجاج کا سہارا لیتے ہیں؟ چند دن پہلے اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے ہونیوالے احتجاج اِسی سوچ کی غمازی کرتے ہیں۔

اِن سرکاری ملازموں کو اپنی نااہلیت اور بے بسی کا اِس حد تک یقین تھا کہ اُنہیں پتہ تھا کہ اگر ہمیں آج نوکری سے برخاست کردیا جائے تو شاید کوئی دوسرا آجر یا ادارہ انہیں قابلیت کے فقدان کیوجہ سے نوکری پر نہ رکھے اور بہتر متبادک نوکری حاصل نہ کر سکنے کیوجہ سے ہو آجر (حکومت) کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ۔میں اکثر سرکاری ملازموں کو سرکاری اداروں میں تنخواہوں میں کمی کا شکوہ کرتے سُنتا رہتا ہوں، جس پر میں اُنہیں کسی دوسری پُرکشش نوکری تلاش کرنے یا اپنے وسائل و آمدن میں اضافے کی تاکید کرتا ہوں جس پر اکثر وہ مجھ سے ناراض ہو جاتے ہیں کیونکہ آمدن بڑھانے کیلئے قابلیت بڑھانا پڑتی ہے اور قابلیت بڑھانے کیلئے محنت و مشقت درکار ہوتی ہے ،جس کے وہ لوگ روادارنہیں۔


میں پچھلے تقریباً دس سالوں سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہنے کے بعد اب آکر میں رابرٹ اور اُسکے امیر باپ کے خیالات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارہ روایتی تعلیمی نظام موثر نہیں، روایتی نظامِ تعلیم صرف ملازم سوچ والی فوج(labour workforce)پیدا کررہی ہے ۔ طلباء سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں صرف اِس لیے پڑھ رہے ہیں کہ اُنہیں اچھی ملازمت مِل سکے۔ جبکہ اِس کے برعکس دنیا میں جن لوگوں نے انقلاب برپا کیا ہے وہ روایتی نظامِ تعلیم کے باغی تھے اُن میں چاہے بِل گیٹس ہو، مارک زرگ برگ ہو یا جیک ماء ہو۔شکریہ!مصنف، تصویر احمد۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :