بولنے کا خبط

جمعرات 28 جنوری 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

سفر، میری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے ،اور مجھے چند دنوں کے بعد کہیں نہ کہیں کا سفر ضرور کرنا پڑہی جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ سفر ضروری ہوتا ہے جبکہ اکثر اوقات یہ سفر غیر ضروری ہی ہوتا ہے۔ اِسی طرح پچھلے دنوں مجھے ایک سفر کا اتفاق ہوا۔ یہ چونکہ سردیوں کا موسم ہے اور اسلیے صبح کے اوقات میں اکثر بس میں مُسافر کم ہی ہوتے ہیں۔اِس لیے اِس سفر کے دوران بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

میں نے جونہی سفر شُروع کیا تو میری پچھلی سیٹ پر ایک جانب 55~60سال کی عمر کا ایک شخص بَراجمان تھا۔بس میں پچھلی سیٹیں خالی ہونے کیوجہ سے ایک نوجواں اگلی سیٹوں سے اُٹھ کر پچھلی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ یہ تو اُس نوجوان کے پیچھے آنے کی دیر تھی کہ اُدھیڑ عُمر کے شخص نے میری پچھلی سیٹوں پر گفتگو کی ایک مِحفل بِڑپا کر دی۔

(جاری ہے)

اُس اُدھیڑ عُمر شخص نے سیاست، مذہب، اخلاقیات، فلم، کلچر، اداکار واداکارائیں، ڈرامے ، گانے وسنگیت، ان تمام مُوضوعات پر بات کی۔

سیاست میں اُس شخص نے حکومت، نواز شریف، پی پی،اور پی ڈی ایم لڑائی پر ایک لمبی گفتگو فرمائی، اور اُس نوجوان کو سیاست دانوں کے پُرانے قصے و کہانیاں اور واقعات بڑے انہماک کیساتھ سُناتا رہا۔پھر اُس شخص نے مذہب پر بات شُروع کی اور ہماری مذہب سے دُوری کی مختلف وجوہات بیان کرتا رہا، اُس شخص کے بقول اگر ہم اپنا زیادہ تر وقت عبادت میں گُزاریں گے تو ہماری تمام تر عُسرت و تنگدستی ،فراوانی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

اور یہ کہ امریکہ و اسرائیل کی اولین ترجیح ہمارے خلاف سازش کرنا، ہمیں مذہب سے دور کرناہے۔مذہب سے فارغ ہو کر اس پھر اُس شخص نے اخلاقیات پر لیکچر دینا شُروع کیا اور معاشرے میں گِرتی ہوئی اخلاقی اقدار کا ذکر کرنے لگا۔ اُس شخص کے نزدیک ہماری اخلاقی پستی کی سب سے بڑی وجہ موبائل فونز، انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور الیکٹرانک gadgetsوغیرہ تھے۔اُس شریف آدمی کے نزدیک نوجوان بچیاں موبائل فون کو صرف اور صرف لڑکوں سے باتیں کرنے کیلئے استعمال کرتی ہیں، اور یا پھر ٹِک ٹاک کیلئے اپنی تصاویر یا وڈیوز بنانے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔

اخلاقیات پر طویل بحث کے بعد وہ شخص دیگر موضوعات پر اپنی قیمتی آراء دیتا رہا، اور اِس دوران اگر وہ نوجوان اُس شخص سے اختلاف کرنے کی کوشش بھی کرتا ،تو وہ اُدھیڑ عُمر شخص اپنے رُتبے اور بڑے ہونے کو دلیل بنا کر اُس نوجوان کے مُوقف کو یکسر مُسترد یا نظر انداز کردیتاتھا، اور وہ نوجوان اپنا ما فی الضمیر اپنے ہی اندر دفن کر کے با دِل نخواستہ اُس اُدھیڑ عُمر شخص کی ہر بات سے پورا پورا اتفاق کرتا چلا گیا۔


یہ ساری کہانی میں نے اِس لیے بیان کی کہ ہم مِن حیث القوم بولنے کے خبط میں مُبتلا ہیں۔ہمیں صرف بولنا آتا ہے، کب بولنا ہے اور کیسے بولنا ہے ،ہمیں کچھ پتہ نہیں ہوتا! ہم بس ہر موقع پر گفتگو اور محفل کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بھی زیادہ بولنے اور بحث کرنیوالے کو ہی بڑا تیس مار خان اور معاملہ فہم سمجھا جاتاہے ۔اِسی طرح بازاروں میں، دُکانوں یا شاپنگ سٹورز پر بھی سیلز مین آپکی ضرورت کو سُنے اور سمجھے بغیر صرف اور صرف بولتے چلے جائیں گے۔

اسی طرح اگر کہیں خدانخواستہ آپکو اپنا موقف سمجھانے کیلئے کسی سے تکرار کرنا پڑگئی ہے تو بس پھر لوگ اپنے موقف پر ڈٹ جائیں گے اور کسی دُوسرے کی بات سُنے بغیر ہی بولتے چلے جائیں گے، اور یہی سب کچھ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے۔ ہمارا پورا معاشرہ ایک طرح کے بولنے کے خبط میں مُبتلا ہے ۔ اِس میں چاہے ٹی وی شوز میں بیٹھے سیاست دان ہوں، چائے خانوں یا ہوٹلوں یا تھڑوں پر بیٹھے لوگ ہوں یا پھر بازاروں ، بسوں، یا ٹرینوں میں سوار مُسافر ہوں، یہ سب اکثر ایک دوسرے کا موقف سُنے بغیر بس بولتے چلے جاتے ہیں، بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔


ہمارے معاشرے میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو تب سے ہی والدین اُسکو بولنا سکھاتے ہیں۔پھر سکول و کالج اُس بچے کو مختلف الفاظ اور زبانیں بولنا سکھاتے ہیں، اور یوں بچہ پوری زندگی کیلئے بولنے کا فن سیکھ لیتا ہے۔اگرچہ پوری دُنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے اور یہ بالکل نیچرل ہے۔ لیکن پھر میرا ایک سوال ہے کہ کیا ہمیں زندگی کی کسی سٹیج پر سُننا بھی سکھا یا جاتا ہے؟کیا ہمیں سکھا یا جاتا ہے کہ سُنا کیسے جاتا ہے؟کیا والدین ، اساتذہ یا ہمارا معاشرہ بچوں کو سُننا سکھا پاتا ہے؟ کیا ہمیں کہیں بتایا جاتا ہے کہ بولنے سے پہلے یا اپنی رائے دینے سے پہلے ہمیں دوسروں کا موقف مکمل طور پر سُننا بھی ہوتا ہے؟ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ effective listeningیا empathetic listeningکیا ہوتی ہے؟
میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں ایک بڑھتی ہوئی معاشرتی بیماری لوگوں میں بولنے کا خبط بھی ہے۔

آپ کبھی بغور مُشاہدہ کریں کہ ہمارے ٹی وی چینلز اور میڈیا کس طرح سیاست دانوں کی لڑائیاں ، بِلا دلیل کے اپنے موقف کی تائید اور دوسروں پر الزام تراشی اور بدتمیزی کو پروان چڑھا رہا ہے۔یہ تمام معاشرتی بیماریاں ہمارے بِلا ضرورت بولنے کے خبط میں مُبتلا ہونے کیوجہ سے پروان چڑھ رہی ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سن 2000ء سے پہلے کی فلمیں، ڈرامے اور لوگوں کی گفتگو بڑی ہی شائستہ اور مُہذب ہوا کرتی تھی اور لوگ بحث کرتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی عزت ِنفس اور وقار کا احترام کیا کرتے تھے۔

لیکن پچھلی دھرنوں اور احتجاجوں والی ایک دِہائی میں پاکستانیوں کے معاشرتی رویوں میں بڑی منفی تبدیلی آئی ہے۔
یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمیں جس شعبئہ ہائے زندگی کا علم بھی نہیں ہوتا ہم اُس پر بات کرنے اور اُس بارے میں بھی اپنی رائے کو دینا اتنا اہم کیوں سمجھتے ہیں؟ہمارا اگرمذہب ، سیاست یا تاریخ کا وسیع عِلم یا تُجربہ نہیں تو ہمار ا اِس قِسم کے موضوعات پر اپنی رائے دینا بِالکل نہیں بنتا ، اورہمیں اِس بارے اجتناب برتنا چاہیے۔

اچھا ایک اور اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ ہماری روزمرہ کی زیادہ تر گفتگو کا موضوع اور محور ذاتیات یا دیگر لوگ ہوتے ہیں۔ہماری اکثر گفتگو کسی آئیڈیا ، کسی پرابلم کے حل کیلئے نہیں ہوتی۔ہم اپنی محفلوں میں اکثر اُن لو گوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جو وہاں موجود نہیں ہوتے۔مُستنصر حسین تارڑ صاحب اُردو ادب میں اپنے سفر ناموں کیوجہ سے ایک خاص مقا م رکھتے ہیں۔

وہ ایک انٹرویو میں ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے یورپ میں اپنے ایک مُقیم دوست سے پوچھا کہ مغرب میں تو بہت تنہائی نہیں ہے؟لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ،اور کسی مقصد کے تحت ہی گفتگو کرتے یا مِلتے ہیں؟جس پر تارڑ صاحب کے دوست نے اُنہیں جواب دیا کہ مغرب کی ترقی کی وجہ بھی تنہائی ہی ہے۔ یعنی اگر آپ اپنے آپ کے ساتھ وقت نہیں گُزار سکتے ، اور اگر آپ اپنے بارے میں نہیں سوچ سکتے اور اپنے آپ کو نہیں بدل سکتے تو پھر آپ کچھ نہیں سَر کر سکتے ۔

یہ مغرب کے رہنے والوں کی تنہائی اور خود کلامی ہی تھی جسکی وجہ سے لوئس پاسچر جیسے سائنسدانوں نے دُودھ محفوظ کرنے کے طریقے، ایڈیسن نے بلب ایجاد کرکے رات کو دن میں تبدیل کردیا اور آئن سٹائن جسے سائنسد انوں نے ایٹمی بجلی گھر بنانے کا سبب کیا۔
میری اِس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنے لوگوں کوبولنے کیساتھ ساتھ سُننا بھی سکھانا چاہیے۔ہمیں اپنے لوگوں کو سکھانا چاہیے کہ دوسروں کو سُنا کیسے جاتا ہے؟اپنی رائے دینے سے پہلے دوسروں کی رائے کو اچھے طریقے سے سُننا کتنا ضروری ہوتا ہے؟ورنہ دوسری صورت میں ہمارا معاشرہ بھی اُسی اُدھیڑ عُمر شخص کیطرح بولنے کے خبط میں مُبتلا رہے گا، اور ہم زندگی کی اِس بس میں کوئی سُننے والا بیچارہ مُسافر تلاش کرتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :