میٹروبس سروس ،واقعی سفید ہاتھی یا ہماری نااہلی

بدھ 24 فروری 2021

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

چند ماہ پہلے میں کسی کام کے سِلسلے میں اسلام آباد گیا ہوا تھا۔مجھے وہاں فیض آباد سے نمل (NUML)یونیورسٹی جانا تھا۔اِس کے لیے میں راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس پر فیض آباد سٹیشن سے سوار ہوا۔بس پر سوار ہونے سے پہلے میں نے اپنی منزلِ مقصود کے سٹاپ پر نظر دوڑائی تو مجھے سمجھ نہ آئی کہ مجھے کس سٹاپ پر اُترنا ہے؟اِس کیلئے میں نے وہاں فیض آباد میٹرو سٹیشن پر موجود ایک سٹاف ممبر (Janitor)سے رہنمائی حاصل کی جس نے مجھے بتایا کہ نمل یونیورسٹی جانے کیلئے مجھے خیابانِ جوہر کے سٹاپ پر اُترنا چاہیے۔

اِس تاسف کے بعد میں بڑے مزے سے میٹروبس میں سوار ہوگیا۔بس میں سفر کے دوران میں اپنے خیالات میں کچھ ایسا مگن ہوا کہ میں بھول گیا کہ مجھے خیابانِ جوہر کے سٹاپ پر اُترنا تھا،اور میں ایک سٹاپ آگے فیض احمد فیض کے سٹاپ پر اُتر گیا، اب میں نے دوبارہ واپسی کی بس پکڑی اور اپنے مطلوبہ سٹاپ خیابانِ جوہر پر اُتر کر نمل یونیورسٹی کی طرف چل پڑا۔

(جاری ہے)

راستے میں پیدل چلتے ہوئے میں مسلسل سوچتا جارہا تھا کہ اِس خیابانِ جوہر کے سٹاپ کا نام خیابانِ جوہر کیوں رکھا گیا ہے؟کیا اِس نام سے منسوب کوئی اور عمارت یا سٹاپ یہاں ہے تو نہیں؟یہاں میں یہ بتاتا چلوں چند سال پہلے میرے اسلام آباد میں ملازمت کے دوران میرا دفتر سیکٹر H-9میں نمل یونیورسٹی کے پاس ہی تھااور میں تقریباً اِس سارے سیکٹر اور اِس کے مضافات کو پیدل پِھرا ہوا تھا،یعنی اِس کے چپے چپے سے بخوبی واقف تھا۔

میری دانست میں گردونواح میں خیابانِ جوہر کے نام سے کوئی عمارت ،بس سٹاپ یا مشہور جگہ نہ تھی اِس لیے میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اِس سٹاپ کا نام خیابانِ جوہر کیوں رکھا گیا ہے؟اِسی طرح میٹروبس پر پاک سیکریٹریٹ جاتے ہوئے خیابانِ جوہر سے اگلا سٹاپ فیض احمد فیض تھا، یہاں بھی میرے خیال میں اِس نام سے منسوب کوئی عمارت، بِلڈنگ یا چوک قریب میں واقع نہیں۔

جس طرح خیابانِ جوہر کے نزدیک سب سے اہم جگہ نمل یونیورسٹی ہے اِسی طرح فیض احمد فیض سٹیشن کے گردو نواح میں ہائر ایجوکیشن اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سب ہم دفاتر اور جگہیں ہیں اور لوکل روٹس کی ویگنیں اِس سٹاپ پر کھڑے ہوکر ہائر ایجوکیشن یا ایجوکیشن یا ایچ ای سی کی آوازیں ہی لگارہی ہوتی ہیں۔ جبکہ میٹرو روٹ پر اِس سٹاپ کا نام فیض احمد فیض میری سمجھ سے بالاتر ہے؟اگر کسی قاری کو اِن دونوں میٹروسٹاپس (خیابانِ جوہر اور فیض احمد فیض)کے ناموں کے بارے میں کوئی بہتر معلومات ہو تو مہربانی میری راہنمائی کردے۔

میرے خیال میں اگراِن دونوں سٹاپس کا نام مقامی عمارتوں یا دفاتر (نمل یونیورسٹی اور ایچ ای سی) کے نام پرہوتا توشاید دوسرے شہروں سے آنیوالے طلباء یا لوگوں کی بہتر رہنمائی ہوسکتی ۔یہاں میں ایک مثال پیش کروں کہ اگر آپ سنگاپور کی میٹروپر نظر دوڑائیں تو وہاں آپکو ایک سٹاپ دھوبی گھاٹ کے نام سے مِلے گا، جی ہاں دھوبی گھاٹ۔سنگاپور ایک English speakingملک ہے جس کی سرکاری زبان انگریزی ہے تاہم میٹرو ٹرینوں میں انگریزی، چائینز، مالے اور انڈین چار زبانوں میں اعلانات(annoucements) کیے جاتے ہیں۔

سنگاپور میں انڈین نسل کے لوگ، ملیشین اور چائینز کے بعد تیسری بڑی آبادی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ دھوبی گھاٹ والے مشہور سٹاپ پر انڈین کے حوالے سے کوئی مشہور جگہ ہو جس کی مناسبت سے اِسے دھوبی گھاٹ کہا جاتا ہو۔ لہذٰا سنگاپور میٹرو کارپوریشن نے اِس جگہ کی مقامی شہرت اور عام فہمی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اِس جگہ کے میٹرو سٹاپ کا نام بھی دھوبی گھاٹ ہی رکھا تاکہ لوگ اِس مقام یا سٹاپ کی بآسانی نشاندھی کر سکیں۔


اب آجاتے ہیں اپنے دوسرے مُدعے کی طرف، میں نے پچھلے دِنوں انٹرنیٹ پر موجود کچھ مستند ذرائع سے معلومات حاصل کیں جن کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پر اندازاً 110,000لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں اور پچھلے تین سالوں کے دوران اندازاً 52ملین مسافر میٹروبس کے ذریعے سفر کر چکے ہیں۔اگر آپ اسلام آباد میٹروبس یا لاہور میٹروبس پر سفر کریں تو وہاں بس پر آپکو چند نوٹس آویزاں دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب ماس ٹرانزٹ نے اسلام آباد اور لاہور میٹرو پر کتنی سبسڈی(مالی رعایت) دے رکھی ہے۔

اِس معلومات کو کُریدنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ پنجاب میٹروبس اتھارٹی (پی ایم اے)ہر سال 1.9بلین روپے اسلام آباد اور لاہور میڑو پر سبسڈی کی مَد میں خرچ کرتی ہے۔دراصل ماس ٹرانزٹ کا ادارہ مسافروں کے کرایے اور دیگر آمدنی کے ذرائع سے اپنے خرچے پورے کرنے سے قاصر ہے جس کی وجہ سے حکومت کو باقی کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔میرا نقطہ یہ ہے کہ پوری دُنیا میں میڑوبس سروسز اور دیگر اِس طرح کے پراجیکٹس بڑے sustainableہوتے ہیں اور اپنا خرچ اور مالی بوجھ خود برداشت کرتے ہیں بلکہ اُلٹا آمدنی پیدا کر کے حکومت کو دیتے ہیں، جیسا کہ ہمارے پاس موٹر وے اتھارٹی ہے جو حکومت کا ایک کماؤ پُتر (بیٹا)بن کر ریونیو اکٹھا کررہا ہے۔

لیکن ہم میٹرو بس سروس اور ٹرین سروس جیسے اداروں کو کیوں منافع بخش نہیں بنا پارہے؟ہم نے میٹروبس سروس میں سبسڈی کے نوٹس اِس لیے آویزاں کر رکھے ہیں کہ ہم لوگ پچھلی حکومتوں کو مولودِالزام ٹھہرا سکیں اور دیکھیں کہ آپ (پچھلی حکومتوں)نے میڑوبس سروس اور اورنج ٹرین جیسے مہنگے پراجیکٹس پر پیسہ کیوں برباد کیا؟درحقیقت اِس طرح کے پراجیکٹس (میٹرو بس و ٹرینیں)پوری دُنیا میں چل رہے ہیں اور اُن مُلکوں میں ماس ٹرانزٹ کے یہ پراجیکٹس بڑے مُنافع بخش ہیں۔

کیونکہ وہ لوگ اِن اداروں کو بڑے احسن طریقے سے تکنیکی بُنیادوں پر چلا رہے ہیں۔ اُن ممالک میں کام کرنیوالے لوگ اہل اور قابل ہیں، جبکہ ہم نے مُلک میں نااہلوں کا ٹولہ بسایا ہوا ہے۔ پوری دُنیا میں ماس ٹرانزٹ (بسیں و ٹرینیں)میں بہت زیادہ ایڈورٹائزنگ (Advertising)کی جاتی ہے ،مختلف کمپنیوں کے پوسٹرز، فلیکس لگائے جاتے ہیں۔بسوں و ٹرینوں کے اندر باہر دیواروں، چھتوں پر اشتہار چسپاں ہوتے ہیں۔

آپکو بس سٹیشنوں اور ٹرین سٹیشنوں پر پرنٹ اور الیکڑانک اشتہارات آویزاں دکھائی دیتے ہیں، سٹیشنوں پر بڑی بڑی سکرینیں اور LED displaysنصب ہوتے ہیں جس پر مشہور برانڈز ، ائیر لائنز اور بینکوں کے اشتہارات چلائے جاتے ہیں اور اُن سے لاکھوں ، اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔لیکن مآشاء اللہ سے سے میں نے لاہور واسلام آباد میڑو بس اور اورنج سٹیشنوں پر ایسے کوئی اشتہارات نہیں دیکھے۔

لاہور کی اورنج لائنز ، چائنہ کی گوانگزو میٹرو کمپنی نے بنائی ہے اور گوانگزو وہ شہر ہے جس میں ،میں نے ساڑھے تین سال گُزارے ہیں گوانگزو میڑو ٹرین پر سفر کیا۔لاہور کی اورنج لائن ٹرین بالکل گوانگزو میٹر و کی طرزپر بنائی گئی ہے۔میری پاکستانی اربابِ اختیار سے گزارش ہے کہ جہاں آپ نے گوانگزو میٹرو کمپنی سے یہ اورنج لائن بنوائی ہے وہیں اُن سے اِس ٹرین کو مُنافع بخش طریقے سے چلانے کی رہنمائی بھی لے لیں؟ گوانگزو شہر کی میٹرو بہت اعلٰی اور شاندار ہے۔

میں لندن ٹیوب، سنگاپور میٹرو، کوالمپورمیٹرو، دوبئی میٹرو، ہانگ کانگ میٹرو، شنگہائی میٹرو، بیجنگ میٹرو اور سڈنی میڑو پر بھی سفر کرچُکا ہوں، لیکن مجھے معیار، سروسز، ٹرین سٹیشن صفائی و ڈسپلن، آمدو رانگی، سیفٹی وسیکورٹی اور ہجوم کے اوقات میں نظم ونسق کے لحاظ سے گوانگزو میڑو بہت ذبردست لگی۔گوانگزو میٹرو کے بڑے سٹیشنوں پر واش رومز، فرسٹ ایڈ سروس اور حتٰی کہ ایمرجنسی میٹرنٹی و ڈیلوری سروسز بھی موجود تھیں۔

سنگاپور میٹرو سروس میں ایمرجنسی یا دہشت گردی یا بم دھماکے کی صورت میں ہنگامی اقدامات کی رہنمائی کی وڈیوز چلائی جاتی ہیں، جو میں سمجھتا ہوں کہ لاہور اور اسلام آباد میڑوبس اور اورنج ٹرین میں بھی چلائی جانی چاہیں۔
دُنیا بھر کے میٹرو سٹیشنوں پر دُکانیں بنائی جاتی ہیں یا انڈر گراؤنڈسٹیشنوں کے ساتھ متصل ہی انڈر گراؤنڈ شاپنگ سنٹرز یا وال مارٹ طرز کے میگا سٹورز ہوتے ہیں، لوگ اِن شاپنگ سنٹرز میں خریداری کرتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں اور ساتھ ہی میٹرو میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں۔

ہم پاکستان میں بھی میٹروبسوں اور اورنج ٹرین سٹیشنوں کو قریبی مارکیٹوں سے متصل کرسکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اسلام آباد میٹرو کا کشمیر ہائی وے اسٹیشن بڑا وسیع ہے اور اِسکے قریب ہی G-9/4اورپشاور موڑاسلام آباد کا اتوار بازار لگتا ہے وہاں اِس سٹیشن کے قریب کمرشل پلازہ بنا کر کشمیر ہائی وے سٹیشن میں مسافروں کی آمدو رفت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

اِسی طرح بلیو ایریا میں پمز کے میٹرو سٹاپ کے کواریڈور(corridors and pathways)کو آگے بڑھا کر کشمیر ہائی وے اسٹیشن میں مسافروں کی آمدورفت کو بھی بڑھاکر پمز ہسپتال تک اور Santorasتک رسائی دی جاسکتی ہے تاکہ لوگ Santorasمیگا مال سے نکلیں اور فوراً ہی میڑوبس میں بیٹھ جائیں، اِس طرح لوگوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال میں اضافے کا رجحان بھی مذید ترقی پائے گا۔

کشمیر ہائی وے سے پمز سٹاپ تک میڑو بس انڈر گراؤنڈ ٹنل (Tunnel)میں چلتی ہے اِس ٹنل کے دونوں اطراف کی دیواروں پر اشتہار آویزاں کر کے آمدن میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔مختلف کمپنیوں کو مدعو کیا جائے کہ وہ میڑو سٹیشنوں ،بسوں اور corridorsپر ایڈورٹزنگ کریں۔یہ advertisementsاور دیگر کمرشل آئیڈیاز ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اِن سفید ہاتھیوں(میڑوبسیں واورنج ٹرین)کو sustainable پراجیکٹس میں تبدیل کرسکیں۔ لیکن یہ قدم ہماری سوچ، وژن، قابلیت اور محنت کا متقاضی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :