حکومت اساتذہ کے مسائل حل کرے

جمعہ 13 نومبر 2020

Umar Farooq

عمر فاروق

ہوریس مان 4 مئی 1796 کو "فرینکلن میسا چوسیٹس" میں پیدا ہوئے، یہ بنیادی طور پر سیاست دان اور قانون ساز تھے لیکن یہ آج بھی پورے امریکہ میں "ایجوکیشن ریفارمر" کے طور جانے جاتے ہیں، یہ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئے جہاں غربت تھی، سختی تھی، لوگ جاہل اور اکھڑ مزاج تھے، تعلیم نا ہونے کے برابر تھی، اساتذہ غیر تربیت یافتہ اور نااہل تھے، انہوں نے 20 سال کی عمر تک فقط چھ ہفتے تعلیم حاصل کی، 1918 کو براؤن یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور تین سال میں گریجویشن کر ڈالی، یونانی اور لاطینی زبان سیکھی، کچھ عرصہ قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، 1835 میں سینٹ کیلئے منتخب ہوئے، 1837 میں "میساچوسیٹس بورڈ آف ایجوکیشن" کے سیکرٹری بنے اور امریکن ایجوکیشن سسٹم میں انقلاب برپا کردیا، سیکرٹری بننے کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی میں شامل لوگوں کو راضی کیا کہ ایجوکیشن سسٹم بہتر بنانے کیلئے قانون سازی کی جائے، انہوں نے ریاست کے تمام سکولوں کا وزٹ کیا، یہ اساتذہ سے ملتے تاکہ ان کے مسائل جان سکیں، یہ کہا کرتے تھے" عوام کو مزید جاہل نہیں رہنا چاہیے" یہ غریب بچوں کو پڑھتا دیکھنے کے خواہشمند تھے، یہ اکثر کہتے تھے " جمہوری معاشروں میں تعلیم آزاد، آفاقی اور غیر فرقہ وارانہ ہونی چاہیے" یہ کہا کرتے تھے" استاد معاشروں کو تعمیر کرتے ہیں، یہ کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں چناں چہ تعلیم تربیت یافتہ، پیشہ ور استاد کے ذریعے مہیا کی جانے چاہیے" یہ اساتذہ کے مسائل سے اچھی طرح آگاہ تھے، انہوں نے اساتذہ کو ساری سہولتیں فراہم کی، یہ اساتذہ کا خاص خیال رکھتے تھے،ان کے زمانے میں اساتذہ خوشحال تھے چناں چہ دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ نے بازو کھولنا شروع کردیے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، یہ آج بھی دنیا کو لیڈ کررہا ہے، دنیا کی 90 فیصد ایجادات  امریکہ میں ہوتی ہیں، یہاں اب بھی ایڈیسن جیسے لوگ پیدا ہورہے ہیں، کیوں؟ بات واضح ہے وہاں کے ٹیچرز خوشحال، بےفکر اور تربیت یافتہ ہیں، پورا امریکہ ان کا خیال رکھتا ہے، ان کو عزت دیتا ہے لہذا انہوں نے بھی اپنا آپ اپنی قوم کے نام کردیا ہے، یہ آج بھی ای.او ولسن، جیمز واٹسن، آئن سٹائن جیسے لوگ پیدا کررہے ہیں جن کی وجہ سے امریکہ آج بھی پوری دنیا میں امریکہ ہے.
میں نے ایک دن پنجاب یونیورسٹی کے "بزنس ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ" سے عرض کیا "سر ہمارے ملک میں آئن ساٹن پیدا کیوں نہیں ہوتے؟ ہمارے ہاں ایڈیسن کیوں نہیں دکھائی دیتے؟ ہماری لڑکیاں مادام کیوری کیوں نہیں بن پاتی؟ انہوں نے فرمایا " جن لوگوں نے ایڈیسن پیدا کرنے ہیں جب تک ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے یہ ملک تب تک ایڈیسن یا آئن سٹائن جیسے لوگ پیدا نہیں کرسکے گا" یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، ہمیں ماننا ہوگا ہمارے اساتذہ کے بیشمار مسائل ہیں، یہ نا صرف توجہ طلب ہیں بلکہ ان کا حل اب ناگزیر ہوتا جارہا ہے.
ہمارے ٹیچرز خوشحال نہیں ہیں، یہ معاش کے جھمیلوں میں جکڑے ہیں، یہ جب تک فکر معاش سے آزاد نہیں ہوں گے یہ "قوم سازی" کا کام نہیں کرسکیں گے، جس کے خود کے بچے بھوکے ہوں، جس کی ضروریات زندگی پوری نا ہورہی ہوں وہ قوم کے بچوں کی "کردار سازی" کیسے کرے گا؟ یورپین ممالک میں ٹیچرز آج بھی خوشحال ہیں، یورپ میں لکسمبرگ، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، ناروے اور ڈنمارک اپنے ٹیچروں کو سب سے زیادہ تنخواہ دیتے ہیں، انگلینڈ میں نوے فیصد اساتذہ اپنے کام، اپنی تنخواہ اور حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی مراعات سے مطمئن ہیں، مجھے ایک پی ایچ ڈے کے ٹیچر کہتے ہیں" بیٹا اگر آپ کو ہماری تنخواہ کے بارے میں علم ہوجائے تو آپ ٹیچنگ کے شعبے میں آنے کا ارادہ کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے" آپ اس سے پرائمری ٹیچروں کی حالت زار کا اندازہ کرسکتے ہیں، حکومت کو ایک ایسا کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو اساتذہ کی ملازمتوں کو پرکشش اور محفوظ بنائے، یہ ان کی تنخواہ اور دیگر مراعات کیلئے بھی کام کرے تاکہ ٹیچرز اپنا اصل کام کرسکیں.
چائنہ میں ٹیچروں کو سوسائٹی میں سب سے زیادہ مرتبہ دیا جاتا ہے، یہ اپنے ٹیچرز کی تکریم میں کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں، میرے ایک دوست چائنہ سے پڑہ کر آئے ہیں میں نے ان سے پوچھا" کیا واقعی یہ لوگ اپنے اساتذہ کا بہت خیال رکھتے ہیں؟" انہوں نے میری بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا" یہ لوگ حقیقتا ٹیچرز کی بہت زیادہ تکریم کرتے ہیں" ان کا ماننا ہے "جو لوگ ہمیں بنانے کیلئے اپنا آپ وقف کررہے ہیں کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان کی عزت کریں" ہمیں اپنے دوست ملک سے کم از کم ٹیچرز کی حرمت ہی سیکھ لینی چاہیے، ہمیں اپنے ٹیچرز کا وقار بحال کرنا چاہیے تاکہ ایک باوقار قوم کی تشکیل ہوسکے.
محفوظ ماحول اور مناسب سہولیات کی عدم دستیابی بھی ٹیچرز کیلئے بہت بڑی رکاوٹ ہے، آپ اپنے علاقے کے چند سکولوں کا وزٹ کرلیں آپ کو پورے پاکستان کی حالت کا اندازہ ہوجائیگا، کسی بھی کلاس میں لائبریری کا ہونا بےحد لازمی ہے، جدید سہولیات اور ٹیکنالوجی کے بغیر بھی کلاس کو نامکمل سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے سکول تو دور کالجز بھی لائبریری کی سہولت سے محروم ہیں، آپ کو لائبریری کیلئے کم ازکم یونیورسٹی لیول تک جانا پڑتا ہے اور رہیں لیبز، ٹیکنالوجی، پریکٹس تو ان کو آج تک ہم نے اہمیت ہی نہیں دی، کسی بھی کلاس میں 15-20 بچے کافی ہوتے ہیں تاکہ ان پر بھرپور توجہ دی جاسکے جبکہ ہمارے گورنمنٹ سکولوں میں ایک کلاس کے اندر 70-80 سے کم بچے نہیں ہوتے اس سے ٹیچرز پر اضافی بوجھ پڑتا ہے، نا ٹیچرز پڑھاپاتے ہیں اور نا ہی کچھ بچوں کے پلے پڑتا ہے اگر کلاس میں بچوں کی تعداد کو مناسب اور مخصوص گنتی تک محدود کردیا جائے تو اس سے ٹیچرز اور بچوں دونوں کو فائدہ ہوگا.
میری حکام سے خصوصی گزارش ہے" ٹیچرز کیلئے ٹریننگ سنٹرز قائم کیے جائیں جہاں اعلی ٹیچروں کی نگرانی میں ان کی تربیت کی جائے" میں نے ایک ٹیچر سے سوال کیا "سر آپ نے اس ہفتے کیا کچھ سیکھا ہے؟" وہ نہایت بے رخی سے فرمانے لگے" میں عمر کے جس حصے میں ہوں میرا کام سیکھنا نہیں بلکہ سکھانا ہے" مجھے یہ جواب سن کر سخت حیرت ہوئی مگر میں ان کے احترام میں خاموش رہا، سیکھانے والوں کو سیکھنے والوں کی نسبت زیادہ بلکہ بہت زیادہ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، اگر یہ زیادہ سے زیادہ سیکھیں گے نہیں تو سکھائیں گے کیسے؟ چناں چہ ٹیچرز کیلئے ٹریننگ سنٹرز قائم کیے جائیں ان کو کلاس سنبھالنے، سٹوڈنٹس سے ڈیل کرنے، لیکچرز دینے کی ٹریننگ دی جائے، انھیں ٹیچنگ کے بنیادی اصول اور جدید طریقے سکھائے جائیں، یہ جب مکمل طور پر ٹیچز بننے کے لائق ہوجائیں انھیں تب ہی ٹیچنگ کی اجازت دی جائے کیوں؟ کیونکہ تربیت کرنے والوں کو خود بھی تربیت یافتہ ہونا چاہیے، نااہل اور غیر تربیت یافتہ لوگوں کا کام قوم سازی کرنا نہیں ہوتا ہے�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :