اساتذہ کوعزت دو

ہفتہ 29 ستمبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

تعلیمی تنزلی،تباہی اوربربادی کاروناتوسب رورہے ہیں لیکن اصل مسئلے کی طرف توجہ کوئی نہیں دے رہا۔قوم کے معماروں کوبرابھلاتوہم سب کہتے ہیں ،ان پرگالیوں،گولیوں،انڈوں اورڈنڈوں کی بارش کرنے سے بھی کوئی دریغ نہیں کررہالیکن قوم کے معماروں کے بنیادی مسائل ہم میں سے کسی کونظرنہیں آرہے۔پرانے زمانے میں طلبہ کی نگرانی کے لئے مانیٹرمقررکئے جاتے تھے مگراب تعلیمی ترقی میں ہم اتنے آگے چلے گئے ہیں کہ روحانی باپ کے درجے پرفائز جن ہستیوں کوعزت اوروقارسے سروں پربٹھایاجاتاتھاآج اس ملک میں ان کی نگرانی کے لئے مانیٹرمقررکئے جاتے ہیں۔

استادچھوٹاہویابڑا،اچھاہویابرا،لائق ہویاناتجربہ کار۔استاداستاداورقوم کامعمارہوتاہے۔ماناکہ سیاستدانوں کی برکت سے سیاسی بل بوتے پراساتذہ کے بلند درجے پرپہنچنے والے کل کے روڈماسٹروں نے ملک میں تعلیمی نظام کابیڑہ غرق کردیاہے لیکن اس میں اصل اساتذہ کاکیاقصور۔

(جاری ہے)

۔؟کیاسیاسی مداخلت اورسیاسی انتقام کی وجہ سے تعلیمی نظام کی زبوں حالی اورتباہی کاذمہ داراساتذہ کوقراردیاجاسکتاہے۔

۔؟ نہیں ہرگزنہیں ۔جوحقیقت میں استادکے درجے پرفائزقوم کے اصل معمارتھے اورہیں انہوں نے ہردورمیں تعلیمی نظام کی ترقی اورطلبہ کی کامیابی کے لئے اپناخون پسینہ بہاکراہم کرداراداکیا۔اس ملک کے انداس وقت بھی جب سکول ایسے سنگلاح پہاڑوں پرقائم تھے کہ جہاں روڈاورموٹروے تودورکوئی سیدھاراستہ بھی نہیں جاتاتھاانہی اساتذہ نے ان پہاڑوں پرقائم سکولوں میں اپنے مبارک ہاتھوں سے تعلیم کی شمعیں روشن کیں۔

ہمارادوراتنابھی پرانانہیں ،محض چندسالوں کی بات ہوگی کیونکہ ہمیں جن اساتذہ نے پڑھایاوہ ابھی تک سکولوں سے نکلے نہیں بلکہ وہ آج بھی مختلف علاقوں اورسکولوں میں علم کی روشنی پھیلارہے ہیں ۔ہمارے دورمیں بھی شہرسے دوردیہی علاقوں میں جہاں پرائمری یامڈل سکول قائم تھے ان تک جانے کے لئے بھی روزانہ ایک نہیں کئی پل صراط عبورکرنے پڑتے تھے ۔

خودہماراسکول جہاں پرتعمیرکیاگیاتھااس تک جانے والاکچھاراستہ ایساگول تھاکہ اس پرچلتے ہوئے سرچکرانے لگتالیکن اس کے باوجوداساتذہ ہم سے پہلے سکول پہنچے ہوتے حالانکہ کئی اساتذہ تواتنے دورسے آتے کہ ان کے گھراورسکول کے درمیان اتنافاصلہ تھاکہ کوئی صحت مندآدمی دوڑلگاکے بھی جاتاتوپھربھی وہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں وہ راستہ طے کرتا۔کچے راستے تھے اس وقت ،یہ سڑکیں ،گاڑیاں اورموٹرسائیکلوں کاتونام ونشان بھی اس وقت نہیں ہوتاتھالیکن اس کے باوجوداساتذہ کی ایمانداری،اخلاص اورمحنت کایہ عالم ہوتاکہ وہ ایک دن بھی غیرحاضرنہیں رہتے۔


اساتذہ کی چیکنگ کے لئے یہ مانیٹرشانیٹریہ توجدیددورکی ایجادہے اس وقت تواللہ کے سوااساتذہ کی مانیٹرنگ کرنے والاکوئی نہیں ہوتاتھالیکن اس کے باوجودقوم کے معمارکبھی تعلیم کے اغیارنہیں بنے۔معماران قوم کے قبیل سے تعلق ،رشتہ اورناطہ رکھنے والے جن اساتذہ کوہم نے قریب سے قریب تردیکھنے کے بعدبھی کسی دن ،لمحے اورموقع پر کام چور،بے ایمان اورتعلیم دشمن نہیں دیکھاایسے میں پھرآج ہم ان کے کردار،اخلاص ،محنت،ایمانداری اورخلوص پرشک کیسے کرسکتے ہیں ۔

۔؟ہم نے تواس استادکوبھی کبھی حکومتی نظروں سے نہیں دیکھاجنہوں نے کبھی ہمیں ایک لفظ بھی نہیں پڑھایا۔ہم نے توآج تک کوئی اپناتھایابیگانہ استادکوصرف استاداورقوم کامعمارہی سمجھا۔جس نے کبھی اشاروں اورکنایوں بھی کسی استادکے بارے میں بتایاکہ یہ فلاں سکول یامدرسے کااستادہے توپھرزندگی بھرہم اس کے سامنے کبھی سراٹھاکرنہیں چلے۔ہم اساتذہ اورتعلیمی ترقی کولازم وملزوم سمجھتے ہیں ،اگراستادکوسائیڈپرکردیاجائے توپھرآپ جومرضی تعلیمی ترقی کے لئے اقدامات اٹھائیں ،ایمرجنسیاں نافذکریں ،سیاست کی کوکھ سے مانیٹرزکوجنم دیں ،ملک تعلیمی میدان میں ذرہ بھی ترقی نہیں کرسکتا۔

ملک میں تعلیمی ترقی اورانقلاب کے لئے اساتذہ کوعزت دینی ہوگی۔ہمارے حکمرانوں،سیاستدانوں اورمنتخب ممبران نے اساتذہ کوزرخریدغلام سمجھ کرتماشابنایاہواہے۔ جن لوگوں کوگھرمیں دوسری بارروٹی بھی نہیں ملتی ،تھوڑی سی سیاسی انرجی ملنے پروہ لوگ بھی اپناپہلاوارانہی اساتذہ پرکرتے ہیں ۔اس ملک میں منتخب ممبران کاتوالیکشن جیتنے کے بعدپہلاکام ہی ہنگامی تبادلوں کے ذریعے اساتذہ کوانتقام کانشانہ بناناہوتاہے۔

چندسال پہلے گاؤں میں ہمارے ایک رشتہ دارمحمدحنیف جوقریبی علاقے کے ہی ایک سکول میں فرائض سرانجام دیتے تھے کوسیاسی انتقام میں اس سکول سے ٹرانسفرکرکے ایک ایسے علاقے میں پھینکاگیاجہاں تک جانے کے لئے بھی دوسے تین دن کاسفردرکاریامحتاج تھا۔ہمارے آبائی ضلع بٹگرام میں قوم کے معماروں کے ساتھ اس طرح کاسلوک ایک معمول بن چکاہے۔ایک پانچ سالے میں آدھے اساتذہ کوادھرادھرپھینک کرتماشابنایاجاتاہے پھراگلے پانچ سالے میں مخالف پارٹی اورگروپ کاایم پی اے بچنے والے آدھے اساتذہ کودربدرکرکے کام پوراکردیتے ہیں ۔

ہمارے منتخب نمائندے انتقامی سیاست میں اساتذہ کے تبادلوں کوخدمت اورعبادت کادرجہ دیتے ہیں اسی وجہ سے وہ عوامی احتجاج اورمعصوم طلبہ وطالبات کی آہ وزاری کے باوجوداس گناہ اورجرم سے بازنہیں آتے۔
اس ملک سے تعلیم کاجنازہ انتقامی سیاست پرایمان لانے والے ہمارے انہی سیاسیوں اوران کے چیلوں نے اپنے ہاتھوں سے نکالاہے مگر بات جب بھی تعلیمی نظام کی تباہی اورتعلیمی اداروں کی زبوں حالی کی آتی ہے توپھرساراملبہ بے چارے انہی شریف ،بے بس اوربے کس اساتذہ پرڈالاجاتاہے۔

آج توان اساتذہ کی طرف گھورگھورکرسب دیکھتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتے۔کیایہ اساتذہ اس معاشرے کاایک اہم حصہ اورہمارے سروں کے تاج نہیں ۔ ۔؟جب تک ہمارے دلوں میں اساتذہ کی عزت تھی اس وقت تک ہماراتعلیمی نظام بھی ٹھیک اورتعلیمی ادارے بھی علم،ہنروتحقیق کے مراکزتھے لیکن جب سے ہم نے اپنے ذاتی اورسیاسی مفادکے لئے اساتذہ کوتماشابناناشروع کردیاہے اس کے بعدسے ہماراتعلیمی نظام جھولنے لگاہے۔

کل تک ہمارے جن تعلیمی اداروں اورسکولوں سے قوم کے لیڈر،ڈاکٹر،انجینئر،پروفیسر،ٹیچر،سائنسدان اورملک وقوم کادرددل میں رکھنے والے ہیرے پیداہوتے تھے آج ان اداروں اورسکولوں سے نکمے،نگٹھواورافسربے کارخاص قسم کے لوگ نکل رہے ہیں ۔پہلے بچے اورجوان ایک مقصدکیلئے ان تعلیمی اداروں کارخ کرتے تھے مگرہماری وجہ سے آج بچے اورجوان روزگاراورنوکری پرلگنے کے لئے سکولوں میں جاتے اورکتابیں پڑھتے ہیں ۔

ہمارے سیاسی کارناموں اورانتقام کی جلتی آگ کودیکھ کرقوم کے حقیقی معماروں نے بھی اب ملک وقوم کے لئے سوچناچھوڑدیاہے۔تعلیم کاجنازہ ہم ملک سے نکال چکے اب ہم قوم کے جیتے جاگتے معماروں کاجنازہ نکالنے کے لئے سامان فراہم کررہے ہیں ۔اللہ نہ کرے اگرقوم کے معمارہم سے واقعی روٹھ گئے توپھریہاں کی اس زرخیزمٹی کے بنجرہونے میں ہرگززیادہ ٹائم نہیں لگے گا۔

اس لئے ارباب اختیاراوراقتدارکواساتذہ کوعزت دے کرتعلیم کی ترقی کے لئے ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں جس سے غریب طلبہ کے آگے بڑھنے کے ساتھ قوم کے معماروں کی مایوسی،ناامیدی اورپریشانیاں بھی ختم ہوں،کیونکہ طلبہ تعلیمی میدان میں تب کامیاب ہوں گے جب ان کے سروں پرقوم کے معماروں کاہاتھ ہوگااوراس مقصدکوپانے کے لئے ہمیں ہرحال میں اساتذہ کوعزت دینی ہوگی ورنہ اس کے بغیرہمارے پاس رونے دھونے کا کوئی چارہ نہیں ہوگا،کیونکہ اساتذہ ہی ہمارافخراوراس ملک کاقیمتی اثاثہ ہے۔یہ اگرہمارے ہاتھ سے نکل گیاتوپھرپیچھے ہمارے پاس سوائے ذلت ورسوائی اورتعلیمی میدان میں تباہی کے کچھ نہیں بچے گا۔اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اساتذہ کوعزت دو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :