کہیں اصل گناہ گارہم تونہیں ۔۔؟

منگل 2 اکتوبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

گاڑی پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی اچانک بجلی چمکی بس کے قریب آئی اور واپس چلی گئی بس آگے بڑھتی رہی آدھے گھنٹے بعد بجلی دوبارہ آئی بس کے پچھلے حصے کی طرف لپکی لیکن واپس چلی گئی بس آگے بڑھتی رہی بجلی ایک بار پھر آ ئی وہ اس بار دائیں سائیڈ پر حملہ آور ہوئی لیکن تیسری بار بھی واپس لوٹ گئی۔ ڈرائیور سمجھ دار تھا اس نے گاڑی روکی اور اونچی آواز میں بولا ۔

بھائیو بس میں کوئی گناہ گارسوار ہے۔یہ بجلی اسے تلاش کر رہی ہے۔ ہم نے اگر اسے نہ اتارا تو ہم سب مارے جائیں گے۔یہ سنتے ہی بس میں سراسیمگی پھیل گئی اور تمام مسافر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے۔ ڈرائیور نے مشورہ دیا سامنے پہاڑ کے نیچے درخت ہے ہم سب ایک ایک کر کے اترتے ہیں اور درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں ہم میں سے جو گناہ گار ہو گا بجلی اس پر گر جائے گی اور باقی لوگ بچ جائیں گے۔

(جاری ہے)

یہ تجویز قابل عمل تھی تمام مسافروں نے اتفاق کیا ۔ڈرائیور سب سے پہلے اترا اور دوڑ کر درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔بجلی آسمان پر چمکتی رہی لیکن وہ ڈرائیور کی طرف نہیں آئی ۔وہ بس میں واپس چلا گیا دوسرا مسافر اترا اور درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا بجلی نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں دی تیسرا مسافر بھی صاف بچ گیا۔ یوں مسافر آتے رہے درخت کے نیچے کھڑے ہوتے رہے اور واپس جاتے رہے۔

یہاں تک کہ صرف ایک مسافر بچ گیا یہ گندہ مجہول سا مسافر تھا کنڈیکٹر نے اسے ترس کھا کر بس میں سوار کر لیا تھا مسافروں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔لوگوں کا کہنا تھا ہم تمہاری وجہ سے موت کے منہ پر بیٹھے ہیں ۔تم فورا بس سے اتر جا ۔وہ اس سے ان گناہوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے جن کی وجہ سے ایک اذیت ناک موت اس کی منتظر تھی ۔وہ مسافر اترنے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن لوگ اسے ہر قیمت پر بس سے اتارنا چاہتے تھے مسافروں نے پہلے اسے برا بھلا کہہ کر اترنے کا حکم دیا ۔

پھر اسے پیار سے سمجھایا اور آخر میں اسے گھسیٹ کر اتارنے لگے۔وہ کبھی کسی سیٹ کی پشت پکڑ لیتا تھا کبھی کسی راڈ کے ساتھ لپٹ جاتا تھا اور کبھی دروازے کو جپھا مار لیتا تھا ۔لیکن لوگ باز نہ آئے۔ انھوں نے اسے زبردستی گھسیٹ کر اتار دیا۔ ڈرائیور نے بس چلا دی۔بس جوں ہی گناہ گار سے چند میٹر آگے گئی۔ دھاڑ کی آواز آئی۔ بجلی بس پر گری اور تمام مسافر چند لمحوں میں جل کر بھسم ہو گئے ۔

اس گاڑی میں گناہ گارقرارپانے والے ایک بے گناہ کے ساتھ جومعاملہ ہواایساہی کچھ آج اس معاشرے میں بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ہزاروں نہیں لاکھوں بے گناہوں کے ساتھ ہورہاہے۔گناہوں سے لت پت ہونے کے باوجودآج ہم اپنے آپ کوتوبڑے ایماندار،نیک ،صالح اوربے گناہ سمجھتے ہیں لیکن دوسروں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے باوجودہمارارویہ،خیال اورگمان کبھی اچھانہیں ہوتا۔

جھوٹ ،فریب،دھوکہ دہی،نوسربازی،شراب نوشی ،زناء،چوری ،ڈکیتی،غیبت اورقتل وغارت سمیت دنیاجہان کاہرگناہ ہم خود کریں گے لیکن جب بھی نیکی اوربدی کی کوئی بات ہوگی،کوئی معاملہ یامقابلہ ہوگاتوپھران گناہوں اورجرائم کے باوجودہمارے کھاتوں میں ہم بے گناہ اورفرشتے جبکہ باقی لوگ مجرم اورگناہ گارٹھہریں گے ۔آج اس ملک میں ناجائزمنافع خوری،ذخیرہ اندوزی،چوری ،ڈکیتی ،جھوٹ اورفریب کامظاہرہ کرنے والاہرشخص دوسرے کی طرف انگلی اٹھاکرکہتاپھرتاہے کہ فلاں چورہے،ڈاکوہے،جھوٹاہے،فراڈی ہے،ناجائزمنافع خوراورذخیرہ اندوزہے مگراپنے گریبان میں ہمارے سمیت کوئی بھی نہ جھانکتاہے اورنہ جھانکنے کی ذرہ بھی کوئی کوشش کرتاہے ۔

آج دوسروں کوجھوٹ ،فریب،دھوکہ دہی،نوسربازی،شراب نوشی ،زناء،چوری ،ڈکیتی،غیبت،قتل وغارت اوردیگرگناہوں کے بارے میں لیکچرتوہم دیتے ہیں ،گناہوں کے حوالے سے نہ صرف درجنوں احادیث مبارکہ بلکہ قصے، کہانیاں اورہزاروں تقریریں بھی ہمیں زبانی یادہیں لیکن اس کے باوجودجھوٹ ،فریب،دھوکہ دہی،نوسربازی،شراب نوشی اورزناء سمیت دیگرکوئی گناہ کرتے ہوئے نہ اپنے رحیم وکریم رب سے ہم ڈرتے ہیں نہ ہی اپنے کئے پرہمیں کبھی کوئی شرمندگی اورندامت محسوس ہوتی ہے ۔

جس زبان سے ہم لوگوں کوجھوٹ بولنے اوردوسروں کی غیبت کرنے سے روکتے ہیں پھراسی زبان سے ہم نہ صرف خودجھوٹ بولتے ہیں بلکہ غیبت کے ذریعے دوسرے مسلمان بھائیوں کاگوشت بھی نوچتے ہیں ۔جن ہاتھوں سے ہم اوروں کوامن ،اخوت،محبت اوربھائی چارے کے اشارے کرتے ہیں پھر انہی ہاتھوں سے ہم امن کاگلہ گھونٹنے،خون کی ندیاں بہانے اوربے گناہ انسانوں کوقتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

رشوت دینے اورلینے والے دونوں طبقات کوتوڈنڈے کی چوٹ پرہم جہنمی قراردیتے ہیں لیکن اپناالوسیدھاکرنے کے لئے پھراسی رشوت کے دینے اورلینے میں ہم کبھی دیرنہیں لگاتے۔رزق حلال کی ترغیبیں توہم سب کودیتے ہیں لیکن اپنے پیٹ کاجہنم بھرنے کے لئے ہم حرام کھانے سے کبھی اپنے ہاتھ پیچھے نہیں کھینچتے۔ہرتباہی اوربربادی والاکام ہم خودکرتے ہیں لیکن باہریہ کہتے پھرتے ہیں کہ زمانہ بہت خراب ہے،زمانہ کبھی خراب نہیں ہوتابلکہ زمانے کوہمارے جیسے لوگ ہی اپنے گناہوں اورجرائم کی وجہ سے خراب کردیتے ہیں ۔

آج بھی ہم میں سے ہرشخص یہ کہہ رہاہوگاکہ اس ملک میں بہت ظلم اورناانصافی ہے مگراپنی طرف کوئی نہیں دیکھتا۔اس گاڑی کے مسافروں کی طرح آج ہم سب بھی کسی ایک ایک بندے کونشانہ بناکرانہیں نہ صرف گناہ گارہونے کاسرٹیفکیٹ تھمارہے ہیں بلکہ ساتھ ان سے یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ بتا کون کون سے گناہ کئے۔اپنے بارے میں اچھاگمان اچھی بات لیکن گمان اتنابھی اچھانہیں ہوناچاہئے کہ وہ پھردوسرے کوگناہ گارثابت کرنے پرہی ختم ہو۔

بحیثیت انسان ہمارے سمیت ہرشخص سے گناہ سرزدہوتاہے۔کوئی انسان غلطیوں اورگناہوں سے مبراء نہیں ۔ماناکہ کچھ لوگ ہم سے زیادہ گناہ گارہوں گے مگریہ بھی توایک تلخ حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں کچھ نہیں بلکہ اکثرلوگ ہم سے بھی زیادہ بے گناہ،نیک ،صالح اورمعصوم ہوں گے۔اپنے آپ کوبے گناہ اوردوسرے کوگناہ گاراورمجرم سمجھنے کی روایت اورعادت نے ہمیں ترقی اورخوشحالی سے آج کوسوں دورکردیاہے۔

ہم اگردوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانے سے پہلے ذرہ ایک باراپنے گریبان میں جھانکیں ،خودکوایک بارایمانداری اوربے گناہی کی کسوٹی میں پرکیں ۔توہمیں امیدہے کہ اگرہمارے سارے مسائل دنوں میں حل اورپریشانیاں ختم نہ ہوئیں توپچاس فیصدمسائل اورپریشانیوں سے ہم ضرورچھٹکاراپالیں گے۔اس لئے ہمیں مفت میں دوسروں کونشانہ بنانے اورگناہ گارثابت کرنے کی بجائے اپنے آپ سے خوداحتسابی کاآغازکرناچاہئے۔کسی کوگناہ گارکہنے سے پہلے ہمیں صرف ایک منٹ کے لئے اپنے آپ پرنظرڈال کریہ سوچناچاہئے کہ میں اپنے دوسرے بھائی کوجوکچھ کہنے والاہوں کہیں اس پرمیں توپورانہیں اتررہا۔جب ہم کسی دوسرے کواپنے آئینے میں دیکھیں گے اورپرکیں گے توپھراس ملک میں تبدیلی خودبخودآئے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :