تبدیلی خودنہیں آئے گی

جمعہ 19 اکتوبر 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا جو اپنی رعایا پر بڑا مہربان تھا، اس نے 100کلومیٹر لمبی سڑک تعمیر کرنے کا حکم دیا، جب سڑک تعمیر ہوگئی اور اس کے افتتاح کا وقت آیا تو اس نے اپنے تین وزیروں سے کہا کہ ایک بار پوری سڑک کا جائزہ لیکر آؤ تاکہ پتہ چل سکے کہ کہیں کوئی نقص تو باقی نہیں رہ گیاہے۔۔؟تینوں وزیر چلے گئے،شام کے قریب پہلا وزیر واپس آیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت پوری سڑک بہت شاندار بنی ہے۔

مگر سڑک پر ایک جگہ کچرا پڑا نظر آیا اگر وہ اٹھا لیا جائے تو سڑک کی خوبصورتی کو چارچاند لگ جائیں گے۔ تھوڑی دیربعددوسرا وزیربھی آیا تو اس نے بھی بالکل یہی احوال سنایا کہ سڑک پر ایک جگہ کچرہ ہے اگر وہ اٹھا لیا جائے تو سڑک پر انگلی اٹھانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔

(جاری ہے)

تیسرے وزیرنے کیاکہایاکیاکیا۔۔؟اس کاذکرہم کالم کے درمیان میں کریں گے ،فی الحال ہماراموضوع بادشاہ کے پہلے دووزیرہی ہیں جوآج اس ملک میں نہ صرف ہرجگہ کثرت سے پائے جاتے ہیں بلکہ انصاف اورتبدیلی کے نام پراقتدارمیں آنے والے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی حدسے کچھ زیادہ ہی شہدکی مکھیوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں ۔

تحریک انصاف کی حکومت میں شامل چندایک وزیروں اورمشیروں کے علاوہ ہمارے اکثروزیراورمشیربادشاہ سلامت کے ان دووزیروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ہمارے یہ بھولے بھالے اورسادہ وزیرومشیربھی ان دووزیروں کی طرح ملک میں مہنگائی ،غربت،بیروزگاری ،صحت،تعلیم،پانی اوربجلی وگیس لوڈشیڈنگ سمیت نہ صرف دیگرمسائل کی کھل کرنشاندہی کرتے ہیں بلکہ یہ آج کے بادشاہ سلامت کوبھی روزانہ یہ رپورٹ دیتے ہوں گے کہ بادشاہ سلامت بنی گالہ اوروزیراعظم ہاؤس سے کوسوں دورفلاں صوبے،فلاں شہر،فلاں علاقے ،فلاں گاؤں اورفلاں گلی ومحلے میں کچرہ پڑاہے۔

۔گندگی کے ڈھیرلگے ہوئے ہیں ۔۔مسائل کے انبارہے۔۔بجلی وپانی کابحران ہے ۔۔یہ یہ مسائل ہے ۔۔اگریہ نہ ہوتے تولوگ خوشحال،ملک ترقی کی راہ پرگامزن اورتبدیلی کی منزل قریب سے قریب ترہوتی۔۔یہ وزیراورمشیربادشاہ سلامت کے سامنے مسائل کی نشاندہی توکرتے ہیں مگران مسائل کوخودحل کرنے کی کوشش کبھی نہیں کرتے۔۔لوگ انتخابات میں ووٹ دے کرپھرامیدلگائے بیٹھ جاتے ہیں کہ منتخب ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اورناظمین اب ان کے مسائل حل کریں گے۔

گلی ومحلوں میں لگے کچرے اورگندگی کے ڈھیرختم کریں گے۔مہنگائی کے اژدھے کونکیل ڈالیں گے۔۔غربت کی لکیرکومٹانے کے لئے قدم اٹھائیں گے۔۔نوجوانوں کے گلے سے بیروزگاری کاطوق اتاریں گے ۔۔بجلی وپانی بحران کوقابومیں لائیں گے ۔۔مگرہمارے حکمران ،منتخب ممبران اورناظمین شائد سمجھتے ہیں کہ عوام کودرپیش ان مسائل کے حل کے لئے کوئی نورانی مخلوق آئے گی یاآسمان سے کوئی فرشتے اتریں گے۔

اسی وجہ سے سب کچھ اپنی گناہ گارآنکھوں سے دیکھنے کے بعدبھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ بادشاہ سلامت کے ان دووزیروں جیسے وزیروں،حکمرانوں،سیاستدانوں،منتخب ممبران اورناظمین سے آج ہماراواسطہ پڑاہواہے۔۔یہ لوگ ملک کے اس نظام کے ساتھ اس طرح چمٹے ہوئے ہیں کہ ان سے جان چھڑانابھی ہمارے لئے ممکن نہیں ۔حکومت پیپلزپارٹی کی ہو۔۔مسلم لیگ ن کی۔

۔اے این پی کی یاپھرتحریک انصاف کی۔۔ایسے لوگ ہرحکومت میں اعلیٰ عہدوں اورمنصبوں پرپہنچ جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے پچھلے سترسال سے ہمارے مسائل حل ہورہے ہیں اورنہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہورہاہے۔۔نعرے تویہ لوگ بڑے بڑے ضرورلگاتے ہیں۔دعوے بھی بے شمارکرتے ہیں ۔۔سادہ لوح عوام کوسہانے خواب دکھانے کے لئے خواب گاہیں بھی ان کے پاس وافرمقدارمیں ہیں لیکن خودیہ کام کرنانہ صرف اپنی توہین بلکہ موت سمجھتے ہیں ۔

۔ ہمیں اس تیسرے وزیرکی طرح کے کام کرنے والے لوگ چاہئے مگر وہ اس ملک میں آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ۔۔جوتھوڑے بہت ہیں وہ بے چارے بھی حکمرانوں کی چاپلوسی ،مالش اورپالش کاگرنہ جاننے کی وجہ سے تماشابننے پرمجبورہیں ۔۔اب پڑھےئے اس تیسرے وزیرکی کارگزاری۔دوببرشیروزیروں کے بعدجب تیسرا وزیر آیا تو وہ بہت تھکا ہوا نظر آیا اور پسینے سے اسکے کپڑے بھی گیلے ہورہے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا بھی تھا۔

بادشاہ کو اس نے بتایا کہ بادشاہ سلامت سڑک تو بہت عالیشان بنی ہے مگر سڑک پر مجھے ایک جگہ کچرا پڑا نظر آیا جسکی وجہ سے سڑک کی خوبصورتی ماند پڑ گئی تھی۔ میں نے اس کو صاف کر دیا ہے۔ جس سے سڑک کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے ہیں اوراب سڑک بہت خوبصورت نظرآرہی ہے۔ بادشاہ سلامت وہاں یہ ایک تھیلا بھی تھا شائد کوئی بھول گیا ہوگا۔تیسرے وزیرکی کارگزاری سن کر بادشاہ مسکرایا پھربولا۔

۔ یہ کچرا اوریہ تھیلامیں نے ہی تم تینوں کاامتحان لینے کے لئے رکھوایا تھا۔ اس تھیلے میں اشرفیاں اورہیرے ہیں جو تمہارا انعام ہے ۔۔پھر بادشاہ پہلے والے دونوں وزیروں کی طرف رخ کرکے بلند آواز میں کہنے لگے۔دعوے تو سب کرتے ہیں اور خامیاں بھی سب نکالتے ہیں۔چاہتے بھی سب ہیں کہ سب کچھ اچھا ہو جائے، مگر عملدرآمد کوئی نہیں کرناچاہتا۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سب اچھا ہو تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔

بادشاہ سلامت کی بات سن کروہ دونوں وزیرتوشرم سے پانی پانی ہوگئے مگرافسوس ہمارے بے حس وزیر،مشیر،منتخب ممبران اورناظمین شرم سے بھی کوسوں دورہیں،ان کوتوجب ان کی کوئی غلطی دکھائی جاتی ہے،کسی حادثے اورواقعے کاذمہ دارقراردیاجاتاہے،کوئی آئینہ ہاتھ میں تھمایاجاتاہے تویہ بجائے شرم شرم ہونے کے سینہ تان کرخرگوش کی طرح دوپاؤں پرسامنے سیدھے کھڑے ہوجاتے ہیں،احساس،ذمہ داری اورشرم وحیاکے قریب سے بھی یہ لوگ کبھی نہیں گزرے ۔

ہرحکومت کاحصہ بننے اوررہنے والے ہمارے یہ سیاستدان اگراس ملک سے گندصاف کرناچاہتے توآج اس ملک کی کبھی بھی یہ حالت نہ ہوتی مگرجیساچلتاہے چلنے دیں کی پالیسی پرعمل پیراہوکرہمارے ان وزیروں اورمشیروں نے نہ صرف اس ملک کوتباہ کرکے رکھ دیاہے بلکہ عوام کوبھی مسائل ،چیلنجزاوربحرانوں میں دھکیل دیاہے۔اپوزیشن میں رہ کرہمارے یہ سیاستدان،حکمران اورمنتخب ممبران توہرروزمسائل کی نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ چیخ چیخ کران مسائل کوحل کرنے کے مطالبے بھی کرتے ہیں مگرجب یہ اقتدارمیں آجاتے ہیں ،بادشاہ سلامت کے وزیروں میں شمارہونے لگتے ہیں توپھران کوان مسائل حل کرنے کی توفیق کبھی نصیب نہیں ہوتی ۔

سابق دورحکومت میں تحریک انصاف کے موجودہ وزراء اورمشیر مہنگائی ،غربت،بیروزگاری ،صحت،تعلیم،پانی اوربجلی وگیس لوڈشیڈنگ سمیت جن دیگر مسائل پرچیختے اورچلاتے تھے آج وہی وزیراورمشیراب ان مسائل پرمکمل خاموش ہیں ۔۔عوامی مسائل کوحل کرنااگرحکمرانوں،وزیروں اورمشیروں کاکام نہیں یاان کے بس کی بات نہیں توپھران کے حکمران،وزیراورمشیربننے کاکیافائدہ۔

۔؟یاکیامقصد۔۔؟تحریک انصاف تبدیلی کے نام پراقتدارمیں آئی،عمران خان کی کابینہ میں شامل وزیروں اورمشیروں کی بڑھکیں ماضی قریب وبعیدمیں عوام نے بہت سنیں۔۔ان کویادہویانہ ۔لیکن عوام کو یادہے ذرہ ذرہ ۔ان لوگوں نے پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن،اے این پی ،مسلم لیگ ق اوردیگرسیاسی پارٹیوں کے کارکن ،رہنماء ،عہدیداراورترجمان بن کر جوجونعرے لگائے،دعوے اوروعدے کئے ان سے پوری دنیاواقف ہے۔

۔اس لئے بادشاہ سلامت کے پہلے دووزیروں جیسے بننے کی بجائے کپتان کے کھلاڑیوں کوتیسرے وزیرجیسابن کرتبدیلی ،ترقی اورخوشحالی کے سفرمیں وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ بٹھانے ہوں گے،تحریک انصاف کے وزیراورمشیرجب تک ملک میں حقیقی تبدیلی لانے کے لئے خودہاتھ پاؤں مارکردارادانہیں کرتے اس وقت تک ملک میں تبدیلی کاخواب کبھی پورانہیں ہوسکتا۔یہ اب کپتان کی ٹیم پرہے کہ وہ بادشاہ سلامت کے سامنے صرف مسائل کی نشاندہی کرتی ہے یاتبدیلی کے لئے خودبھی کوئی کرداراداکرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :