سانحہ ساہیوال ۔۔قوم کوتباہی سے بچاناہوگا

جمعہ 25 جنوری 2019

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

دل اداس،دماغ ماؤف،آنکھیں ہیں کہ خشک ہونے کانام ہی نہیں لے رہیں،والدین کے کپڑوں، ہاتھوں اورماتھوں پربچوں کے خون کے دھبے ایک نہیں ہزارباردیکھے تھے لیکن نئے پاکستان میں دنیاومافیھاسے بے نیازننھے منھے پھولوں کے ہاتھوں اورکپڑوں پربھی ماں باپ کے بے گناہ خون کے دھبے اورنشان دیکھے۔یہ دن بھی ہم نے دیکھناتھا۔واللہ جب سے ساہیوال کے معصوم بچوں کی تصویردیکھی ہے اس کے بعدسے دل کی بے قراری ،آنکھوں کی نمی اورسوچوں کے سمندرمیں غوطے لگانے سے ایک لمحے کے لئے بھی خلاصی نہیں مل رہی۔

ماں باپ اوربہن کوسامنے مرغیوں کی طرح تڑپ تڑپ کرمرتے ہوئے دیکھنے والے ان معصوم بچوں کی تصویریں اورزمین پرگرنے والے آنسودیکھ کرصدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی اوروزیراعظم عمران خان کوصرف الفاظی صدمہ پہنچالیکن ان معصوموں کے ایک ایک آنسونے تو کراچی سے گلگت اورچترال سے کوئٹہ تک پوری قوم کوخون کے آنسورولادیاہے۔

(جاری ہے)

ایسی کوئی آنکھ نہیں جوان بدقسمت بچوں کی بدقسمتی پرنم نہ ہوئی ہو۔

ایساکوئی دل نہیں جوان کے ساتھ ہونے والے ظلم عظیم پردردوتکلیف سے تڑپانہ ہو۔روئے زمین پرایساکوئی وجودنہیں جوان پھول جیسے بچوں سے ان کے والدین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھیننے پرلرزنہ گیا ہو۔زمین اگر کسی ظلم پرپھٹتی توساہیوال کے ان معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کوگولیوں سے بھون ڈالنے پرزمین ضرورپھٹتی۔آسمان نے اگرظالموں پرگرناہوتاتوان معصوم بچوں پرشب خون مارنے والے ظالم آسمان سے کبھی بھی نہ بچتے۔

آسمان اس دن ضرورگرتا۔لیکن اس طرح کے مظالم پرزمین کبھی پھٹتی ہے اورنہ ہی آسمان کبھی گرتاہے۔قدرت کااپناایک قانون ہے اوربلاشک وشبہ قدرت کاوہ قانون دنیاکے سب قوانین پرحاوی اوربھاری ہے ۔اس رب کے لئے کسی ظالم پر آسمان گرانایازمین کاسینہ شق کرنانہ توکوئی مشکل ہے اورنہ ہی ناممکن۔ناممکن تووجودہی اسی رب کے ایک حکم اوراشارے سے پاتاہے ۔

وہ رب توکن فیکون ہے۔وہ رحیم وکریم رب ظالموں کوڈھیل ضروردیتاہے لیکن کسی ظالم کوڈیل ہرگز نہیں۔اس رب کے ہاں دیرہے پر اندھیر نہیں ۔خودکوخداسمجھنے والے فرعون جیسے بڑے بڑے ظالم اور سرکش ہمارے اس رب سے نہ بچ سکے تویہ ایک وردی اورایک بندوق پرمست ہونے والے ظالم اس رب کی پکڑسے کیسے بچ سکیں گے۔۔؟ والدین کواولادسے جتنی محبت ہوتی ہے اتنی ہی اولادکووالدین سے بھی ہوتی ہے،بچے توماں باپ سے ایک لمحے کیلئے جداہونابھی برداشت نہیں کرتے۔

ساہیوال کے ان بدقسمت بچوں کوجب گولیوں کے زورپرماں کے سینے سے جداکیاگیاہوگااس وقت ان پرکیاگزری ہوگی۔۔؟یہ سوچتے ہوئے بھی ہاتھ کانپنے اورجسم لرزنے لگتاہے۔ماں باپ اورمعصوم بچوں کے درمیان جدائی کی لکیرکھینچنے والے اللہ کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکیں گے۔کیونکہ دنیاجہان کازورلگاکرکوئی ظالم نہ توآج تک اپنے انجام سے بچااورنہ ہی تاقیامت کوئی بچ سکے گا۔

ظالم جوبھی ہو،کوئی حکمران ہو،سیاستدان ہو،ڈاکٹرہو،انجینئرہو،ٹیچرہو،ڈرائیورہو،مزدورہویاوردی کے نشے میں مست کوئی پولیس اہلکار ۔ہرایک نے ایک نہ ایک دن ضروراپنے انجام کوپہنچناہے۔یہی اصل انصاف اور ہمارے رب کاقانون ہے۔دنیاکی عدالتوں،تھانوں اورکچہریوں سے باعزت رہائی کے سرٹیفکیٹ اورپھولوں کے ہارحاصل کرکے راؤانوارجیسے بڑے بڑے ظالم اورقاتل نودوگیارہ توہوسکتے ہیں لیکن اللہ کی پکڑسے کسی ظالم کے بچنے اوربھاگنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔

ظلم ہمارے رب کوباالکل پسندنہیں۔اسی وجہ سے تو کہاگیا کہ کفرکانظام چل سکتاہے مگر ظلم کانہیں۔جس ملک اورمعاشرے میں ظلم حدسے بڑھ جائے وہ ملک اورمعاشرہ پھرقائم نہیں رہتا۔اسی لئے مسلمانوں کوباربارکہاگیاکہ برائی اورظلم کو روکو۔دین اسلام کی روشنی میں ظالموں اورسرکشوں کے ہاتھ روکنے کے نہ صرف مختلف طریقے بتائے گئے بلکہ درجے بھی دےئے گئے ہیں ،مسلمانوں کوظلم کاراستہ روکنے کی تلقین کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ کہاگیاکہ اگرتمہارے پاس طاقت ہے توتم اپنے ہاتھ اورطاقت سے ظالم کوظلم سے روکو۔

طاقت نہیں توزبان سے اس کوظلم سے بازرکھنے کی ہدایت کرو۔اوراگرزبان سے بھی اس کوظلم سے نہیں روک سکتے توپھردل سے اس ظلم کوبراجانو۔ اوریہ ایمان کاسب سے کمزورترین درجہ ہے۔اول توکوئی ظالم دونوں جہانوں میں انجام سے نہیں بچتا،پھربھی باالفرض اگر کوئی ظالم بظاہر دنیامیں انجام سے بچ بھی گیاتو آخرت میں وہ عبرت ناک اوردردناک انجام سے ضروردوچارہوگا۔

کیونکہ یہ باالکل اٹل اورپتھرپرلکیر ہے کہ ظالم آج نہیں توکل ضروراپنے انجام کوپہنچے گا۔ہم بے شک کسی ظالم کوتختہ دارپرنہ چڑھائیں ،ہم ان کوہتھکڑیاں اوربیڑیاں بھی نہ پہنائیں نہ لگوائیں ،ہم ان کوسلاخوں کے پیچھے بھی نہ ڈالیں ۔ہم بے شک راؤانوارجیسے کسی ظالم اورقاتل کواعلیٰ پروٹوکول دے کران کوتخت پربٹھادیں لیکن پھربھی وہ ایک نہ ایک دن تختے پرضرورچڑھے گا۔

چاہے اس دنیامیں ہویااس جہان میں۔ یہی ہمارے رب کاقانون اورحقیقی انصاف ہے کہ دنیامیں آنے والے ہرشخص کواپنے کئے کی سزااورجزاضرورمل کررہے گی۔ہمارے خاموش رہنے سے ظالموں کے انجام پرتوکوئی اثرنہیں پڑے گالیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ظالموں کے ظلم پراس طرح خاموش رہ کرکیاہم ظلم کرنے والوں سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔۔؟نہیں ہرگزنہیں ۔ظلم پرخاموشی بھی ظلم کوبڑھاوادیناہے۔

اس وقت اس ملک اورمعاشرے میں ظلم وستم کاجوبازارگرم ہے اس کے ذمہ دارصدر،وزیراعظم اورچیف جسٹس سے لیکرایک عام مزدوراورریڑھی بان تک ہم سب ہیں ۔ساہیوال میں ظلم کی بھینٹ چڑھنے والے معصوم بچوں کی مما،پاپااورباجی کاخون صرف پولیس والوں پرنہیں بلکہ اس قتل اورظلم کے جواب دارہم سب ہیں ۔صدر،وزیراعظم اورچیف جسٹس کواللہ نے طاقت دی ،کیاانہوں نے اس طاقت سے ظالموں کے ہاتھ روکے۔

صدر،وزیراعظم اورچیف جسٹس چاہتے توملک میں قتل وغارت،چوری چکاری اورظلم وستم کاجاری یہ سلسلہ بنداور بازارختم ہوسکتاتھالیکن افسوس ہمارے ان بڑوں جن کواللہ نے طاقت دی انہوں نے آج تک ظالموں کے ہاتھ روکنے کے لئے ان کے آگے کوئی بندھ نہیں باندھا۔اس ملک میں کسی ایک ظالم کوبھی اگرعبرت کانشان بنادیاجاتاتونہ اس ملک میں کوئی راؤانوارپیداہوتااورنہ ہی قوم کے کسی جوان بیٹے اوربیٹی کونقیب اللہ اورعافیہ صدیقی بن کرظلم کی چکی میں کبھی پسناپڑتا۔

مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی لیکن یہاں تومرض ہی نہیں ظلم بھی حدسے بڑھتا گیامگرکسی نے دواکی نہ کوئی دعا۔اس ملک میں رہنے والے عوام کوکیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت اورحیثیت کسی نے نہیں دی ۔ووٹ کی حدتک انہیں عوام کہاجاتاہے لیکن انتخابات کے بعدبرسراقتدارآنے والے ہرحکمران کے لئے پھریہ بدقسمت عوام کسی بے کارقسم کے کیڑے مکوڑوں سے کم نہیں ہوتے۔

سیاستدانوں اورلیڈروں میں وزیراعظم عمران خان ہی سب سے زیادہ عوام عوام کرتے تھے۔لیکن آج انہی کی حکمرانی ،حکومت اوردوراقتدارمیں انہی عوام کوکیڑے مکوڑے سمجھ کرشکاری پرندوں کی طرح گولیوں سے پھڑکایاجارہاہے۔ پہلے رات کی تاریکیوں میں پولیس مقابلوں کے نام پرقوم کے بیٹوں کوموت کی وادیوں میں اتاراجاتاتھالیکن نئے پاکستان میں اب یہ کام دن کی روشنی میں ہونے لگاہے۔

انصاف والوں کی حکمرانی میں ساہیوال میں دن دیہاڑے معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں،باپ اوربہن کوسرکاری گنوں کے ذریعے گولیوں سے بھون ڈالنا یہ نہ صرف انصاف بلکہ پوری قوم اورنئے پاکستان بنانے والوں کے منہ پرطمانچہ ہے۔ہم جس مذہب اوردین کے نام لیواہیں اس میں توایک انسان کے قتل کوبھی پوری انسانیت کے قتل کامترادف قراردیاگیاہے ۔کیاایک اسلامی ملک میں اس طرح چوکوں اورچوراہوں پرخودمدعی اورمنصف بن کرلوگوں کے کھاتے میں کوئی بھی جرم ڈال کران کوپھڑکاناکوئی انصاف ہے۔

۔؟کیااس ملک کاآئین اورقانون اس طرح کسی چوک اورچوراہے پرمعصوم بچوں کے سامنے ان کی مما،پاپااورباجی کوگولیوں سے بھون ڈالنے اور پھڑکانے کی اجازت دیتاہے۔۔؟وزیراعظم فرماتے ہیں کہ سانحہ ساہیوال کی وجہ سے میں صدمے میں ہوں۔وزیراعظم صاحب اس طرح کے صدموں کیلئے ہمارے جیسے غریب پیداہوئے ہیں جن کے ہاتھوں میں سوائے چوڑیوں کے کچھ نہیں لیکن آپ توملک کے وزیراعظم ہیں اور آپ کے بازوؤں پرنہ چوڑیاں ہیں اورنہ ہی آپ کے ہاتھ خالی ہیں ۔

آپ کواللہ نے طاقت دی ہے ۔آپ صدمے میں نہ رہیں بلکہ ظالموں کے ہاتھ جڑوں سے کاٹ کر قوم کوصدمے سے نکالیں ۔آپ آگے بڑھیں، اب بھی اگرآپ صدمے میں رہ کرخاموش رہیں توپھراس ملک میں قوم کے ہرمحافظ کوقوم کاقاتل بننے سے کوئی نہیں روک سکے گااوریوں پھرایک ایک کرکے پوری قوم ان ظالموں کا نشانہ بنے گی۔اس لئے آپ اپنی طاقت سے قوم کے قاتل بننے والے کسی ایک راؤانوارکوعبرت کانشان بنادیں تاکہ کل کوکوئی اورراؤانواربننے کاسوچ بھی نہ سکے۔ورنہ پھرہمیں یہی کہناپڑے گا،کہ جب مٹ جائے گی خلق خداتوکیاانصاف کروگے۔ ۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :