ہم روئیں بھی نا۔۔؟

جمعرات 7 فروری 2019

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

لوگ پوچھتے ہیں آپ کیوں لکھتے ہیں۔۔؟اس لاڈلی شہزادی جیسی طبیعت اورمزاج کے حامل ایسے نادان لوگوں کوکیاجواب دیاجائے کہ ہم کیوں لکھتے ہیں۔۔؟کہتے ہیں کہ ایک ملک میں سخت قسم کی قحط پڑی۔قحط سالی کے ہاتھوں لوگ مٹی ،لکڑاورپتھرکھانے پرمجبورہوگئے ۔ایک دن شہزادی کسی راستے سے گزررہی تھی ۔اچانک اس کی نظرکچھ ایسے لوگوں پرپڑی جوقحط سالی وبھوک کے ہاتھوں لکڑاورپتھروغیرہ کھانے کی کوشش کررہے تھے ،شہزادی یہ منظردیکھ کرحیرت زدہ ہوگئی ۔

شاہی قافلے میں شامل کسی وزیراورمشیرسے اس کی وجہ پوچھی ۔وزیراورمشیروں میں سے کسی نے اس کوکہاکہ ملک میں قحط ہے ۔اسی قحط کی وجہ سے لوگ بھوک کے ہاتھوں لکڑ،مٹی اورپتھروغیرہ کھارہے ہیں ۔پتہ ہے شہزادی نے کیاکہا۔۔؟یہ لوگ دہی اورچاول کیوں نہیں کھاتے۔

(جاری ہے)

۔؟اس ملک میں خیراورانصاف کہیں ہے نہیں ۔ہرطرف ظلم اورستم کابازارگرم ہے۔حکمرانوں سے لے کرگلی اورمحلے کے دکانداروں تک ہرکوئی غریب کاگلہ گھونٹنے میں لگاہواہے۔

جہاں بھی جس کوکوئی غریب،بے سہار،بے کس،مجبور اورکوئی لاچاراملتاہے توہرکوئی اس کے گلے پرچھری پھیرتاجاتاہے۔ایسے حال میں پھرہم سے پوچھاجاتاہے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں ۔۔؟کیااب ہم روئیں بھی نہ ۔۔؟تمہارے ہاتھوں وجودکولگنے والے زخموں پرہم آنسوبھی نہ بہائیں ۔۔؟ہم تمہارے مقابلے کے توہیں نہیں ۔سونے کے چمچ منہ میں لے کراگرہم پیداہوتے۔

لاکھوں ،کروڑوں اوراربوں کے اثاثے ہمارے بھی ہوتے ۔توپھرہم بھی نہ روتے ،نہ آنسوبہاتے بلکہ سینہ تان کرتمہارامقابلہ کرتے۔پھرہم بھی صدالگاتے ،،اوئے،،ہمت ہے توآہ میدان میں ۔لیکن ہم توپیداہی رونے کے لئے ہوئے ہیں ۔نہ منہ میں سونے کے چمچ لے کرہم دنیامیں آئے ۔نہ ہمارے پاس لاکھوں ،کروڑوں اوراربوں کے کوئی اثاثے ہیں ۔تمہارے پاس طاقت ہے ،تکبرہے ،غرورہے،مستی ہے ،بدمعاشی ہے اورسب سے بڑھ کرسینہ زوری ہے ۔

تم جس وقت چاہوہمارے جیسے غریبوں پرچڑھ دوڑو۔حکومت بھی آپ کی ۔انصاف بھی آپ کا ،تھانے بھی آپ کے ،ملک کاپورانظام بھی آپ کا۔ہماراتوکچھ نہیں ۔ہم مقتول ہوکربھی قاتل ٹھہرتے ہیں اورآپ مجرم ہوکربھی محرم بن جاتے ہیں ۔اپنی اس قسمت پراب کیاہم روئیں بھی نا۔۔؟یہ لکھناہمارے لئے رونا،دھونااورایک قسم کاتڑپناہے۔رونے ،دھونے اورتڑپنے سے جس طرح دل ہلکاہوجاتاہے اسی طرح لکھنے سے بھی دل سکون محسوس کرنے لگتاہے۔

کمزورلوگ جس طرح رونے ،دھونے اورتڑپنے کے سواکچھ نہیں کرسکتے۔اسی طرح ہمارے پاس بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھنے اورجوڑنے کے سواکوئی چارہ نہیں۔اس ملک میں جوکچھ ہورہاہے ۔واللہ اس پرہروقت خون کے آنسورونے اورچیخنے چلانے کودل کرتاہے ۔اس ملک میں کوئی غریب نہ کل محفوظ تھانہ آج ہے اوراگریہی نظام اورایسے ہی لوگ اقتدارپرمسلط رہے تونہ آنے والے کل اس ملک میں کوئی غریب محفوظ رہ سکے گا۔

ابھی توہم سانحہ ساہیوال کے غم سے بھی نہ نکلے تھے کہ ایک اوردل دہلادینے والی داستان نے ہمیں آن گھیراہے ۔یااللہ ہم کب تک ایسے مناظردیکھتے رہیں گے۔یہ زمین اب پھٹتی کیوں نہیں ۔۔؟یہ آسمان ان ظالموں اورقاتلوں پرگرتاکیوں نہیں ۔۔؟سفیدبالوں سے تواللہ کوبھی حیاآتاہے،پھردنیاوی مسائل ومصائب اورغربت کے ہاتھوں جس شخص کی کمرٹوٹ چکی ہو۔بڑھاپے کی وجہ سے جس کا وجودبستراورچارپائی سے پیوست ہوگیاہو،ایسے شخص پرتوجنگلی جانوروں کوبھی رحم اورترس آتاہوگامگرہم۔

۔؟ہم توجانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ نہ ہمیں سفیدبالوں کالحاظ ہے اورنہ ہی کسی کی ٹوٹی کمراوربڑھاپے کاکوئی خیال ۔ایک تصویربرادرم عامرہزاروی اور تحریک انصاف مانسہرہ کی عنبرین سواتی نے کچھ دن پہلے سوشل میڈیاپر شےئرکی۔جوتصویرشےئرکی گئی وہ حقیقت میں تصویرنہیں ، ایک نوحہ ہے۔ ہماری تباہی اوربربادی کاایک قطرہ ہے۔ ہمیں ایک وارننگ ہے۔

وہ تصویرہمارے لئے ایک ڈیڈلائن ہے۔اس تصویرمیں چھپی بے بسی،بے کسی ،مجبوری اورمایوسی یہ سب اپنی اپنی جگہ چیخ چیخ کرہمیں کہہ رہی ہیں کہ سدھرجاؤ،سدھرجاؤ۔اب بھی وقت ہے راہ راست پرآجاؤ۔نہیں تواس ظلم وستم سمیت پچھلے ظالموں کی طرح تمہیں بھی زمین میں دھنسادیاجائے گا۔بڑے بڑے ظالم آئے۔آج کسی کانام ونشان بھی نہیں ۔ظلم میرے رب کوپسندنہیں ۔

جہاں ایساظلم ہو۔وہاں کے لوگوں کو پھرواقعی کسی بڑے عذاب کاانتظارکرناچاہئیے۔وہ تصویرہریپورکے علاقے شادی کے پہاڑوں پر قتل ہونے والے ان دوچرواہوں کے پورے خاندان کی ہے۔اس تصویرمیں ایک بدقسمت سفیدریش اسی سالہ باباہے جومقتولین کاوالدہے ۔کمران کی ٹوٹی تھی یانہیں لیکن دوجوان بیٹوں کی ناگہانی موت نے اب ان کی کمرتوڑکے رکھ دی ہے۔ بالوں کی سفیدی اوربڑھاپے نے توان کے وجودکوپہلے ہی بسترسے لگادیاہوگا،اب ناتواں جسم پردوبیٹوں کی جدائی کابھاری غم بھی سوارہوگیاہے۔

پہلے چل پھرسکتے تھے یانہیں لیکن اب توبسترسے اٹھنے کے قابل بھی نہیں بچے ہوں گے۔تصویرمیں ایک خاتون ان مقتول جوانوں کی ماں ہے ،جوپہلے سے پاگل ہے۔پاگل نہ ہوتی توجوان بیٹوں کی نعشیں دیکھ کریاتوخودموت کوگلے لگالیتی یاپھراس سے زیادہ پاگل ہوجاتی ۔باباکی دوبیٹیاں ہیں ان میں بھی ایک پاگل ہے۔وہ دوجوان بیٹے اس بابااورپاگل ماں اوربہنوں کاآخری سہاراتھے۔

وہ سہاراان سے ظالموں نے چھین لیاہے۔اس غریب خاندان سے سہاراچھینتے ہوئے ظالموں کوبوڑھے باپ اورپاگل ماں کابھی خیال نہیں آیا۔آخری سہاراچھننے اوردوجوان بیٹوں کے جنازے اٹھانے پراس باباپرکیاگزررہی ہوگی ۔۔؟کیااس ملک کے حکمرانوں اورہمیں اس کاکوئی احساس ہے۔۔؟ظالم آکراس طرح غریبوں سے ان کاآخری سہاراچھین کرفرارہوجاتے ہیں اورحکمرانوں کواس کی کوئی پرواہ ہی نہیں ۔

حکمران آخرکب تک چین کی نیندسوئیں گے۔۔؟ہم آخرکب تک یہ تماشے دیکھتے رہیں گے۔۔؟ظلم جب حدسے سے بڑھتاہے توپھرمٹ جاتاہے۔کیااس طرح کے مظالم پرخاموشی کی چادراوڑھ کرہم 2005کے قیامت خیززلزلے کی طرح کسی اوربڑے عذاب کاانتظارتونہیں کررہے۔۔؟یاتوہمیں کسی بڑے عذاب کے لئے خودکوتیاررکھناہوگا۔۔نہیں توپھرظالموں ،قاتلوں ،چوروں اورڈاکوؤں کیخلاف سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرآگے بڑھناہوگا۔

یہ ظالم کب تک غریبوں سے ان کے سہارے اورآنکھوں کے تارے چھینتے رہیں گے۔وقت آگیاہے کہ ہم ہرظلم کیخلاف آوازاٹھاکرمظلوم کے دست وبازوبنیں ۔یہ دوجوان تھانہ ٹیکسلاکی حدودمیں قتل ہوئے لیکن ابھی تک ان کے قاتل گرفتارتودوربے نقاب بھی نہ ہوسکے۔ملک میں انصاف والوں کی حکمرانی ہے لیکن اس کے باوجودکراچی سے پشاوراورلاہورسے گلگت تک ملک میں بے انصافی کابازارگرم ہے۔

کسی انسان کوموت کی وادی میں دھکیلنامرغی سے زیادہ آسان ہوگیاہے،اس ملک میں مرغی کوذبح کرنااتناآسان نہیں جتناکسی انسان کوپھڑکاکرابدی نیندسلاناہے۔ غریبوں کایہ بے گناہ خون آخرکب تک گرتارہے گا۔وزیراعظم عمران خان عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لئے آگے بڑھیں اورملک میں چوروں،قاتلوں اورڈاکوؤں کونکیل ڈالیں ۔پنجاب حکومت اورپولیس تھانہ ٹیکسلاکی حدودمیں قتل ہونے والے دوچرواہے بھائیوں کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے اپناحقیقی کرداراداکرے تاکہ غریب اورمظلوم خاندان کوانصاف کی فراہمی ممکن ہوسکے۔

غریبوں کے قاتل اگراس ملک میں یونہی دستانے پہن کرغائب ہوتے رہے توپھراس طرح کے غریبوں،مظلوموں اوربے سہاراوبے کسوں کے یہ آنسو،مایوسیاں،ہچکیاں اورآہ ہم سب کولے ڈوبے گی ۔اس لئے ہمیں حقیقی معنوں میں غریبوں اورمظلوموں کے آگے ڈھال بن کرقاتلوں اورظالموں کاراستہ روکناہوگاورنہ پھرہمارے پاس سوائے رونے،دھونے اورہاتھ ملنے کے بھی کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :