بارہواں کھلاڑی اورحکومت

بدھ 25 ستمبر 2019

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

2018کے الیکشن میں انہیں جیسے تیسے آؤٹ کرکے یہ سمجھے تھے کہ شائدوہ آرام سے پویلین میں بیٹھ جائیں گے مگرانہیں یہ نہیں پتہ تھاکہ مولانادل کی مرادپائے بغیرکہیں ٹک کے نہیں بیٹھتے۔مولانافضل الرحمن پاکستان کی مذہبی وسیاسی تاریخ میں تقریباً وہ واحدشخص ہے جس نے کبھی گھاٹے کاسودانہیں کیا۔یہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے جتنے قریب رہے اتنے ہی یہ سابق صدرآصف علی زرداری کے بھی محبوب رہے۔

پاکستان کی سیاست میں بہت سارے لوگ جوڑنے یاپھرصرف توڑنے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن مولاناوہ واحدسیاستدان ہیں جنہیں بیک وقت جوڑنے اورتوڑنے کاملکہ حاصل ہے۔یہ اپنے مدمقابل۔مخالف اورحریف کوچندلمحوں میں انگلیوں پراس طرح نچادیتے ہیں کہ مخالف کے پاس پھرکانوں کوہاتھ لگانے یاسرکھجانے کے کوئی چارہ رہتاہے اور نہ ہی کوئی راستہ۔

(جاری ہے)

جولوگ کل تک مولاناکوبارہواں کھلاڑی اورڈیزل کاڈیلرسمجھ رہے تھے آج مولانانے انہی لوگوں کی راتوں کی نیندیں اوردن کاسکون غارت کردیاہے۔

تازہ تازہ اقتداروکرسی ملنے کے نشے میں جولوگ طنزیہ طورپراٹھتے بیٹھتے ،،ڈیزل ،،ڈیزل،،کررہے تھے آج وہی لوگ اسی ڈیزل کے پاؤں پڑرہے ہیں۔جس کو ،،ڈیزل،،سمجھاجا رہاتھا اب وہی ڈیزل زہرکاپیالہ بنتاجارہاہے۔مولانافضل الرحمن نے جب اسلام آبادلاک ڈاؤن کااعلان کیاتوہم نے اس وقت ہی حکومت کوہمدردانہ مشورہ دیاکہ مولاناکی باتوں کوسنجیدگی کے ساتھ لیکرابھی سے اس کاکوئی حل نکالاجائے مگرافسوس یہ نادان مولاناکی باتوں کوبچوں کامذاق اوربڑھکیں سمجھنے لگے تھے۔

یہ سمجھ رہے تھے کہ جس طرح ہم بات بات پرلوگوں کوتبدیلی کالالی پاپ تھمارہے ہیں شائدمولاناکااسلام آبادلاک ڈاؤن کایہ اعلان بھی اسی طرح کاکوئی لالی پاپ ہے لیکن اب جب مولاناکااصلی چہرہ ان کے سامنے آچکاہے توان کے اوسان خطاء ہوگئے ہیں ۔ ہم چیخ چیخ کرکہتے رہے کہ یہ ملک مزیدکسی بحران کامتحمل نہیں۔یہ وقت سیاسی اختلافات کوپس پشت ڈالنے اورانتقام کی آگ کوبجھاکرایک ساتھ چلنے کاہے ۔

ہرمخالف کوپکڑکرجیل میں ڈالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگامگرہماری ان باتوں پرغورکرنے کی بجائے دھرنے اوراحتجاج کی دھمکی دینے والوں کووزیراعظم سے لیکروزیروں اورمشیروں تک سب دھرنے و احتجاج کے لئے جگہ اورکنٹینردینے کی پیشکشیں کرتے رہیں۔پہلے کہاجاتارہادھرناتم دوکنٹینرہم دیں گے ۔اب جب وہ احتجاج،مارچ اوردھرنادینے آرہے ہیں توپھریہ رونااوردھوناکیوں۔

۔؟ماناکہ مولانافضل الرحمن مقناطیس کی طرح ہرحکومت کے ساتھ چمٹ جاتے ہوں گے ۔یہ بھی ماناکہ جہاں وہ مفاددیکھتے ہیں اس طرف پھرلچک دکھاتے ہوں گے لیکن جہاں تک ہمیں یادہے یوٹرن کی سیاست انہوں نے کبھی کی اورنہ ہی انہیں یوٹرن لینے کی کوئی خاص عادت ہے۔جولوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مولانایوٹرن لے لیں گے یاآزادی مارچ سے برات کااعلان کردیں گے ایساہونااب بہت مشکل دکھائی دے رہاہے۔

ہم مانتے ہیں کہ سیاست میں ناممکن کالفظ نہیں ۔ عادت نہ ہونے کے باوجودمولانایوٹرن لے سکتے ہیں اورآزادی مارچ پرلعنت بھی بھیج سکتے ہیں لیکن ایک بات جواٹل ہے وہ یہ کہ مولانا ایساکرکے بھی وہ سیاسی مخالفین کوکہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑیں گے کیونکہ مولاناجتنابھاری ہے اس سے زیادہ ان کے مطالبات بھاری ہوتے ہیں ۔تحریک انصاف والوں نے علامہ طاہرالقادری جیسے مذہبی وسیاسی لیڈرتوبہت دیکھے لیکن مولانافضل الرحمن جیسے بندے کووہ پہلی باردیکھ رہے ہیں اورغالباًسیاسی تاریخ میں ان کاپہلی مرتبہ کسی ایسے سیاسی مولاناسے واسطہ پڑاہے ۔

یہ تواس خوش فہمی میں تھے کہ نیب کے ہتھوڑے اورحکومتی ڈنڈے کے ذریعے ڈرانے اوردھمکانے سے مولانارام ہوجائیں گے یاعلامہ طاہرالقادری کی طرح ایک آدھ دن شورشرابہ کرکے مولانابھی کینڈایاسعودی عرب چلے جائیں گے لیکن مولاناتوآنے کی تیاریاں کررہے ہیں جانے کی نہیں۔ادھرحکمرانوں کی بدقسمتی یہ کہمولاناکادامن کہیں ایساصاف ہے کہ ابھی تک نیب کاہتھوڑابھی حکمرانوں کے کام نہ آسکاہے۔

مولاناکے دامن پرکرپشن اورلوٹ مارکاایک چھینٹابھی اگرہوتاتویقینناًمولانااب تک سرکارکے مہمان اورنوازوزرداری کے امام ضرور ہوتے کیونکہ اس دوریاموسم میں تولوٹ ماراورکرپشن کے نام پرگلی ،محلوں سے سیاسی مخالفین کواٹھاکرجیلیں بھری گئیں پھروہ مولاناجوشروع دن سے حکومت کوللکاررہے ہیں ان کی اگرایسی کوئی فائل ہوتی انہیں توپھرپہلے دن ہی مرغی کی طرح ڈبے میں بندکرناتھا۔

مگرلگتاہے کہ تمام فائیلیں چھان مارنے سے بھی کرپشن کی جدید حکومتی کتاب میں مولاناکاکوئی نام نہیں ملا۔اسی وجہ سے توبات منتوں اورترلوں تک پہنچ گئی ہے ورنہ مولانابھی توایک ہتھکڑی کی مارتھے۔جولوگ مولاناکوبارہواں اورہاراہواایک کھلاڑی کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اب وہ اس ہارے ہوئے کھلاڑی کے سامنے ہاتھ اورپاؤں کیوں پھیلارہے ہیں۔۔؟مولانااگرڈیزل کے ایک ڈیلرہے توپھرڈیزل کے ایک ڈیلرسے اس قدرخوف اورڈرکیوں۔

۔؟تم توکہتے تھے کہ نئے پاکستان میں مولاناکوکوئی گھاس بھی نہیں ڈالے گااگرایساہی تھاتوپھرتمہارے مبارک ہاتھوں سے یہ چپکے چپکے مولاناکے پاؤں کی مالش اورقدم بوسی کیوں۔۔؟اقتدارمیں آنے والے حکمران طاقت کے نشے میں مدہوش ہوکرپھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی سب کچھ ہیں مگرایسانہیں ہوتا۔سابق وزیراعظم نوازشریف اورآصف علی زرداری بھی کسی دوراوروقت میں خودکوسب کچھ سمجھتے تھے مگرآج ان کی کیاحالت ہے۔

۔؟عقلمندلوگ کہتے ہیں کہ پاؤں اتنے پھیلاؤجتنی چادرہو۔پی ٹی آئی حکومت نے ایک سال میں ہی پاؤں اتنے پھیلادےئے ہیں کہ چادرکااب نام ونشان دکھائی نہیں دے رہا۔آج یہ جومسائل ،اختلافات،انتقام،بعض وعنادکی سیاسی ہوائیں اس ملک میں چل رہی ہیں یہ حکومت کی اپنی پیداکردہ ہیں۔مولاناسے حکومت کوخطرہ ہویانہ ۔لیکن حالات سے حکومت کوپھربھی خطرہ موجودہے۔

نئے پاکستان کے چکرمیں جن لوگوں نے مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کے خاتمے کے لئے تحریک انصاف کاساتھ دیاتھا۔اب کب تک وہ مہنگائی ،غربت وبیروزگاری کے ہاتھوں اپنے بچوں کوقصے اورکہانیاں سناکرسلاتے رہیں گے۔۔؟مولاناجوہمیشہ ون ڈے کوبھی ٹیسٹ میچ بناکرکھیلتے ہیں ۔وہ ایک سال کوصرف اس لئے دھکیلتے گئے کہ میچ کے لئے میدان سج اورکھلاڑی تیارہوجائیں۔

عوام کے چہروں پرمایوسی،پریشانی اوربھوک وافلاس کے آثارسے یوں محسوس ہو رہاہے کہ حکومت کے خلاف میچ کے لئے میدان سجنے کے لئے تقریباً تیارہوچکاہے۔اب اگرمولانااپنے لاؤلشکرسمیت میدان میں اترگئے توپھرحکومت کے لئے احتجاج،مارچ اوردھرنوں سے جان چھڑانامشکل بہت ہی مشکل ہوگا۔آبیل مجھے مارکے مصداق مولاناکواسلام آبادآنے کی دعوت ان حکومتی وزیروں اورمشیروں نے خوددی ۔

اب اگروہ آرہے ہیں توپھران کوپریشانی کی کیاضرورت۔۔؟ہمارے یہ موجودہ حکمران توہرچیزکومذاق اورگپ سمجھتے ہیں مگرکئی چیزیں گپ اورمذاق نہیں ہوتیں ۔ان کی ایک سالہ حکمرانی میں عام سے لیکرخواص تک ایک ایک شخص کاجیناحرام ہوچکاہے۔مہنگائی اس قدربڑھ چکی ہے کہ اب غریب کے پاس کھانے کیلئے روٹی اوربدن ڈھانپنے کے لئے کپڑاتک نہیں ۔کل تک جولوگ ہاتھ اٹھااٹھاکرنئے پاکستان کے لئے دعائیں مانگاکرتے تھے اب وہ ہاتھ الٹ کران نااہل اورنکمے حکمرانوں کوبددعائیں دے رہے ہیں ۔

ہم نے پہلے ہی کپتان کوکرائے کے ان خوشامدیوں اورچاپلوسوں سے بچنے اور دوررہنے کامشورہ دیامگرافسوس کپتان اس ٹولے کے نرغے میں اس طرح پھنستے گئے کہ اب ان کیلئے ان سے ،،بچاؤ،،کاکوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔جس حکومت اورکابینہ میں انسانوں کادکھ اوردردجاننے اورمحسوس کرنے والے کم اورمسخرے زیادہ ہوں اس کے خلاف پھراحتجاج،مظاہرے،دھرنے اورآزادی مارچ نہیں ہوں گے تواورکیاہوگا۔

۔؟طاقت واقتدارکے نشے میں مکے لہرالہراکرسیاسی مخالفین کوکنٹینرزدینے کی پیشکش کرنے والے اب اپنے خلاف دھرنوں اوراحتجاج کے لئے خودانتظامات کراناشروع کردیں کیونکہ یہ سلسلہ اگراب ایک بارچل پڑاتوپھریہ رکنے کانام نہیں لے گا۔گیند اب اسی ہارے ہوئے مولاناکے ہاتھ میں ہے کہ وہ کب ،،فاتحہ،،پڑھ کرمیچ کاآغازکرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :