ایمانداروں سے توبہ

پیر 6 دسمبر 2021

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

سگریٹ کاایک تازہ کش لگاتے ہوئے وہ انتہائی غمناک اوردردناک لہجے و اندازمیں بولے۔جوزوی صاحب۔ بات یہ نہیں کہ اس ظالم کی حکمرانی اورنگرانی میں ہم اورہمارے بچے اس طرح بھوک سے بلک بلک کرزندہ لاشیں بن جائیں گے مسئلہ یہ ہے کہ اب لوگ آئندہ کبھی حقیقی ایماندارپربھی نہ کوئی اعتماد،اعتباراور یقین کریں گے اورنہ ہی انہیں کوئی ووٹ دیں گے۔

ان ظالموں نے یہ سب کچھ کرناتھاتوازکم ازکم ایمانداری کالبادہ تونہ اوڑھتے۔آپ سچ بتائیں پچھلے ڈھائی تین سال سے وزیراعظم عمران خان کی نگرانی اورحکمرانی میں اس ملک کے اندرجوکچھ ہورہاہے کیاریاست مدینہ میں ایساہی ہوتاتھا۔؟میں تونہ کوئی عالم ہوں نہ کوئی قاری،نہ کوئی ٹیچر،نہ کوئی پروفیسراورنہ ہی کوئی مفتی۔جاہل باالکل ایک کٹرجاہل قسم کابندہ ہوں لیکن علماء،مفتیان کرام اوراہل علم حضرات سے تومیں نے ایک نہیں کئی بار یہ سناکہ ریاست مدینہ میں امیراورغریب کیا۔

(جاری ہے)

؟حکمران اورمزدوربھی برابرہوتے۔وہاں کوئی وقت کاحکمران اورخلیفہ ہوکربھی کبھی تین سوکنال اراضی پربنے محلات میں زندگی نہیں گزارتاتھابلکہ کیاعوام اورکیاحکمران۔؟ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔وہاں تومیراجیساایک عام اورجاہل سابندہ بھی وقت کے حکمران کاگریبان پکڑکران سے پوچھتاکہ امیرالمومنین آپ نے یہ جوچادراوڑھ رکھی ہے بتایہ کہاں سے آئی۔

؟جوکپڑے پہنے ہیں یہ کہاں سے آئے ہیں۔؟جوروکھی سوکھی اورخشک روٹی آپ کھارہے ہیں یہ کہاں سے آئی یاکس نے لائی ۔؟یہاں توپچھلے ڈھائی تین سال سے چادر،گھڑیاں،روٹیاں اوربوٹیاں آنے کے علاوہ آٹا،چینی،ادویات،کرونافنڈ،پٹرول،بجلی وگیس کے نام پرقومی خزانے اورغریبوں کی جیبوں سے بہت کچھ گیابھی۔ لیکن اس کا کسی کو کوئی اتہ ہے اورنہ ہی کوئی پتہ ۔

ایمانداری سے بتائیں کپتان کی حکمرانی میں آٹا،چینی،ادویات،بجلی وگیس کے نام پرڈھائی تین سال سے جوکچھ ہوایااب جوکچھ ہورہاہے کیاریاست مدینہ میں ایک دن اورایک گھنٹہ کیا۔؟کسی ایک سیکنڈاورکسی ایک لمحے کے لئے بھی کبھی ایساہوا۔؟ پھرایماندارکیاایسے ہوتے ہیں۔؟ میں نے توسناتھاکہ بندہ ایماندارہوتواس کے سامنے چور،ڈاکو،لوٹے اورلٹیرے کیا۔

؟جنگل کے خونخوارچرندوپرندبھی دم وپرنہیں ہلاسکتے۔پھریہ کیسے ایماندارہیں کہ جب سے اس ملک میں ان کی حکومت آئی ہے کبھی ملک سے آٹاغائب ہوجاتاہے،کبھی چینی،کبھی دوائیاں،کبھی بجلی ،کبھی گیس اورکبھی پٹرول۔یہ اگرواقعی ایماندارہیں توپھرملک میں بے ایمانوں کایہ راج کیوں ہے۔؟جوزوی صاحب مجھے شک ساہورہاہے کہ کہیں ہمارے یہ کپتان بھی وہ دوسرے قسم کے ایماندارنہ ہوں۔

میں نے حیرت سے پوچھا۔کیاایمانداری میں بھی قسمیں ہیں۔؟وہ کہنے لگے قسموں کوچھوڑیں جی میں آپ کواپنے اس کپتان جیسے ایک ایماندارکاواقعہ سناتاہوں۔کہتے ہیں ایک گاؤں اورعلاقے میں پانچ دوست رہتے تھے،ان پانچ دوستوں نے اپناایک گروپ بنایاہواتھا۔گروپ میں شامل چاردوست راتوں کولوگوں کے گھروں میں ڈاکے ڈالتے تھے اورچوریاں کرتے تھے۔پانچواں اس گروپ کاکپتان یاسربراہ تھا۔

اسے لوگ بڑاایماندارکہتے تھے۔وہ نہ لوگوں کے گھروں میں ڈاکے ڈالتاتھااورنہ ہی چوری کی کسی واردات میں شریک ہوتاتھا۔وہ صرف سامان کی تقسیم اورگروپ کے اتحادواتفاق کوقائم رکھتاتھا۔جب بھی یہ چارساتھی اوردوست کسی گھراوردکان میں ڈاکہ ڈالنے یاچوری کی واردات کرنے کے بعد واپس آتے تویہ ایماندارسب سے پہلے اپناحصہ الگ کرکے باقی سامان کوان چاروں میں برابر تقسیم کردیتاتھا۔

جوزوی صاحب ۔وزیراعظم عمران خان کومیں چور،ڈاکویابے ایمان نہیں سمجھتا۔تحریک انصاف کے کارکنوں اورکھلاڑیوں کی طرح عمران خان مجھے بھی فرشتہ نظرآتے ہیں لیکن پچھلے ڈھائی تین سال سے ملک میں آٹا،چینی،ادویات،کرونافنڈ،پٹرول،بجلی وگیس کے نام پریہ لوٹ ماردیکھ کرنہ جانے مجھے کیوں اب اپنایہ کپتان ان چارساتھیوں کے کپتان جیسادکھائی دینے لگتاہے۔

اس ملک کی گلی اورمحلوں میں سبزی ودودھ فروشوں سے لیکرآٹاوچینی چوروں تک ہرجگہ،ہرچوک اورچوراہے پر جب میں عوام کاخون چوستے اورنچوڑتے ہوئے دیکھتاہوں توسوچتاہوں کہ کہیں ہمارایہ صاحب واقعی اس ایماندارجیسانہ ہو۔میں مانتاہوں کہ وزیراعظم عمران خان نہ چورہے اورنہ ڈاکولیکن اس حقیقت سے بھی توکوئی انکارنہیں کرسکتاکہ اسی عمران خان کی نگرانی اورحکمرانی میں ڈھائی تین سال سے اس ملک کے اندرجوکچھ ہوایااب ہورہاہے اس طرح ایک ایماندارکپتان اورحکمران کی نگرانی میں ہوناکم ازکم ممکن نہیں۔

پھرہمارے یہ صاحب تو خودبھی جب ڈی چوک میں کھڑے ہوکرنئے پاکستان کی بنیادرکھتے تھے تویہ ارشادفرماناکبھی نہ بھولتے کہ اوپروالابندہ ٹھیک ہوتونیچے والے پھرسارے خودبخودٹھیک ہوجاتے ہیں۔آج اگریہ خودٹھیک ہیں توپھرڈھائی تین سال سے یہ نیچے والے ٹھیک کیوں نہیں ہوتے۔؟وہ خاموش ہوئے تومیں سوچوں کے سمندرمیں غوطے لگائے بغیرنہیں رہ سکا۔وزیراعظم عمران خان سے لوگوں نے واقعی بہت سی امیدیں اورتوقعات وابستہ کی تھیں۔

لوگ اگرعمران خان کے نام پرنکلتے تھے تووہ صرف اس لئے کہ لوگوں کومدہم سی روشنی میں چراغ کی جھلک دکھائی دے رہی تھی لیکن افسوس عمران خان نے اس کوبھی بجھادیاہے۔میرانہیں یقین کہ کپتان کے ہاتھ سے مارکھانے کے بعداب آئندہ کوئی کسی کپتان پرکوئی یقین اوراعتبارکرے گا۔لوگوں کاپاکستان کی سیاست اورسیاستدانوں سے اعتماد،یقین اوراعتبارتوپہلے ہی اٹھ چکاتھالیکن اگریہ کہاجائے کہ وزیراعظم عمران خان کے ہاتھوں اب اس کاجنازہ نکل چکاہے توبے جانہ ہوگا۔

کپتان نے لوگوں کوریاست مدینہ ،روشن مستقبل اورنئے پاکستان کے جس طرح سپنے اورخواب دکھاکرپرانے پاکستان میں ہی ان کوپائی پائی کامحتاج بنایااورمہنگائی،غربت وبیروزگاری کے ہاتھوں ذلیل کرایا۔اس تجربے کے بعد اب نہیں لگ رہاکہ کوئی بھی باشعورشخص آئندہ عمران خان جیسے کسی ایماندارپرکوئی یقین یابھروسہ کرنے پرآمادہ ہو۔گیس وبجلی کے بھاری بل اورآسمان کوچھونے والی مہنگائی کودیکھ کرتولوگ ابھی سے توبہ توبہ کرکے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس ایماندارسے تووہ پرانے والے چوراورڈاکوہزارنہیں لاکھ درجے بہترتھے ۔

وہ چوریاں کرتے تھے یاڈاکے ڈالتے تھے لیکن کم ازکم ہماراخون تونہیں نچوڑتے تھے۔اس ایماندارنے توتین سال میں عوام کاخون چوسنے اورنچوڑنے کے سوااورکام ہی کوئی نہیں کیا۔بات اورمعاملہ چاہے کچھ بھی ہو۔اس ایماندارنے تین سالوں میں اس کانزلہ ہمیشہ عوام پرہی گرایاہے۔سوچنے کی بات ہے عوام آخرکب تک مافیاکے سیاہ کارناموں اورکرتوتوں کابوجھ اٹھائیں گے۔

؟کپتان اگرواقعی ایماندار،مخلص اورعوام کے ہمدردہیں تواسے مہنگائی کوبڑھاوادیکرروز غریبوں کاخون نچوڑنے اورہڈیاں چوسنے کی بجائے مافیاکے بڑے بڑے مگرمچھوں کے پیٹ پھاڑنے چاہئیں۔کپتان نے مافیاکونشان عبرت بنانے کے بجائے عوام کوہی اگرقربانی کابکرابنانے کی یہ روش اسی طرح جاری رکھی توآئندہ پھر لوگ کپتان کے ساتھ پھرایماندارکے نام سے بھی دوربھاگیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :