موسیٰ کا فقیر

جمعہ 22 مئی 2020

Usama Khalid

اُسامہ خالد

رزق کی تقسیم بھی ایک عجیب معاملہ ہے۔ہزاروں لاکھوں سال کی تحقیق اور نسل در نسل اکانومی کے ڈاکٹر بھی برجستہ اعلان نہیں کر سکتے کہ وہ اس تقسیم کے ضوابط سے مکمل آشنا ہیں، اور بتا سکتے ہیں کہ کس شخص کو کب اور کتنا رزق میسر آئے گا۔
موسیٰ کے زمانے میں ایک غریب آدمی تھا۔ اسے معلوم پڑا کہ موسیٰ کلیم اللہ ہیں تو اُن کے پاس چلا آیا۔ موسیٰ سے پوچھا کہ واقعی اللہ آپ سے ہم کلام ہوتا ہے؟ موسیٰ نے کہا، ہاں، میں اللہ وحدہ لاشریک کا نبی ہوں، اور کلیم اللہ ہوں۔

بولا آپ اللہ سے پوچھیں کہ مجھے کبھی پیٹ بھر کھانے کو کیوں نہیں دیتا؟ موسیٰ حیران ہوئے، پوچھا تُو نے کبھی پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا؟ بولا بہت محنت کرتا ہوں، پر عجیب معاملہ ہے، کبھی زندگی میں پیٹ بھر کھانے کو میسر نہیں آیا۔

(جاری ہے)

موسیٰ نے اللہ سے اِس غریب کی بابت سوال کیا تو جواب آیا کہ موسیٰ، اِس آدمی کے نصیب میں رزق ہے ہی تھوڑا۔ اسی لیے اسے تھوڑا تھوڑا عطا ہوتا ہے تاکہ زندگی میں کبھی مکمل بھوکا نہ رہے۔

 موسیٰ نے جب یہ بات اُسے بتائی تو اُس غریب نے اللہ سے شکوہ نہیں کیا، موسیٰ سے رزق میں کشادگی کی سفارش نہیں کرائی۔ عجیب آدمی تھا، بولا" موسیٰ، آپ اللہ سے درخواست کریں کہ میرے نصیب میں جتنا بھی رزق لکھا ہے، سارا ایک ہی دفعہ میں عطا کر دیا جائے، میں کم سے کم زندگی میں ایک دفعہ تو پیٹ بھر کر کھانا کھا سکوں۔ پھر بے شک بھوک سے مارا جاؤں، مجھے پروا نہیں۔

"
موسیٰ نے اُس کی درخواست فارورڈ کر دی اور وہ شخص اپنے گاؤں لوٹ گیا۔کچھ زمانوں بعد موسیٰ کا اُسی شخص کی بستی کی طرف سے گزر ہوا تو دیکھا ایک دربار ہے، جہاں کثیر تعداد میں لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ لوگ وہاں خالی ہاتھ جاتے ہیں اور ڈھیر سارا کھانا لے کر لوٹتے ہیں۔ موسیٰ کو اشتیاق ہوا کہ دیکھیں، یہ کون خدا ترس ہے جسے اللہ نے اتنا نوازا ہے کہ سینکڑوں لوگ اِس کے دستر خوان سے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں۔

آگے بڑھے تو دیکھا یہ تو وہی فقیر تھا جو کچھ زمانے پہلے بھوک سے پریشان آیا تھا، جس کے نصیب میں رزق کم تھا، جس نے اپنے حصے کا سارا رزق ایک ہی ساعت مانگ لیا تھا۔اللہ سے پوچھا، یا باری تعالیٰ، یہ کیا ماجرہ ہے؟ جواب آیا، موسیٰ، اِس نے اپنے حصے کا رزق لے لیا، اور اِس کے حصے میں کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ مگر اس سے سارا رزق یکمشت ختم نہ ہوا، اِس نے ہمیں قرض دینا شروع کر دیا اور ہم نے اس کا قرض لوٹانا شروع کر دیا۔

یہ قرض دینا نہیں چھوڑتا، ہم قرض لوٹانا نہیں چھوڑتے۔
 موسیٰ اُس فقیر کے پاس گئے، پوچھا تُو نے کیا کِیا اپنے رزق کے ساتھ کہ اتنا امیر ہو گیا؟ تیرے دسترخوان کو اتنی وسعت مل گئی کہ کہاں ایک فرد کا کھانا میسر نہیں تھا، کہاں سینکڑوں پیٹ بھر رہے ہیں۔ بولا، موسیٰ، جب میں پیٹ بھر کر کھا چکا تو کچھ کھانا بچ گیا۔ سوچا میں نے تو اب بھوک کاٹنی ہی ہے، اِس کھانے کو بچا کر کیا کروں گا، سو میں نے ایک بھوکے کو کھانا کھلا دیا۔

وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، میں اپنا پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہوں، باقی کسی بھوکے کو کھلا دیتا ہوں، اور کچھ بھی جمع کر کے نہیں رکھتا۔ عجیب بات ہے، کام بھی وہی کرتا ہوں، محنت بھی اتنی ہی ہے، پر اب رزق کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جتنا دیتا ہوں، اُس سے زیادہ اپنے پاس پاتا ہوں۔
موسیٰ کے اِس فقیر جیسا ایک درخت پاکستان میں بھی تھا۔

یہ ایک معجزاتی درخت تھا۔ضلع ایبٹ آباد کے دیول منال نامی گاؤں کے ایک وسیع باغ کا یہ درخت خزاں سے نا آشنا تھا۔اِس درخت کا معجزہ یہ تھا کہ اِس کے پتے کبھی سوکھتے نہ تھے۔ اِس پر لگا پھل ہمیشہ میٹھا ہوا کرتاتھا۔ کسی شاخ سے پھل توڑو، شاخ پر دو نئے پھل پیدا ہو جاتے۔ کہیں سے پتا ٹوٹتا، اُس کی جگہ نئے پتے لے لیتے۔ یہ درخت ہمیشہ ہرا بھرا رہتا۔

باغ عوام کے لیے کھلا رہتا۔ روزانہ بیسیوں لوگ اِس درخت کی زیارت کے لیے آتے، اِس کا پھل توڑتے، شفاء کا ذریعہ سمجھ کر ساتھ لے جاتے، خود بھی کھاتے،دوسروں کو بھی کھلاتے۔ رفتہ رفتہ تعداد بیسیوں سے سینکڑوں کو پہنچ گئی، مگر اِس پھل دار درخت پر زوال نہ آیا، اور نہ ہی کسی کو پھل توڑنے سے روکا گیا۔ درخت کا قد بڑھتا گیا، اور لوگ اِس کے سائے سے محظوظ ہونے لگے۔

درخت پر دھاگہ بھی باندھا جانے لگا، عزت و اکرام بھی ہونے لگا، اور درخت سے باتیں بھی کی جانے لگیں۔
یہ شجر ہزارہ کے عوام پر شفقت کرتا، انہیں پھل دیتا، سایہ دیتا، اور اُن کا دُکھ درد سنتا۔ سب کا دُکھ درد سننے والے اِس شجر کی خاموشی ایک مالن سنتی۔وہ بڑے اہتمام سے سب لوگوں کے جانے کے بعد اِس درخت کو پانی دیتی، اِس کی خدمت کرتی، اِس کا خیال رکھتی۔

درخت کی وجہ سے باغ میں ہمیشہ لوگوں کا ہجوم رہتا، سب کا خیال رکھا جاتا، انہیں چائے پلائی جاتی، تواضع کی جاتی، اور سب لوگ درخت کی نسبت سے اِس باغ اور اِس مالن کا احترام کرتے۔
ہم انسان بہت عجیب ہیں۔ ہمیں جہاں سے کھانے کو کچھ ملنے لگے، ہم وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہم موسیٰ کے فقیر کے گھر پر تب نہیں جاتے جب وہ بھوکا سوتا ہے۔مگر جب وہ کھانا دیتا ہے، ہم اُسے پِیر بنا لیتے ہیں۔

ہم اُس دربار کا نام بھی القابات کے بغیر نہیں لیتی جس دربار پر لنگر میں فراوانی ہو، اور اُس قبر پر فاتحہ کے لیے بھی نہیں جاتے جہاں سے پانی ملنا بند ہو جائے۔
اِس شجرِ مہربان اور اِس کی مالن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ موت سب کو آنی ہے۔ سو اِس درخت کا بھی وقت آ گیا۔وہ درخت جس نے کبھی خزاں نہ دیکھی تھی، اُس کے پتے بھی پیلے پڑنے لگے۔

پھل توڑنے پر نیا پھل پیدا ہونا رُک گیا،اور لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑنے لگی۔شروع میں لوگوں نے پھل توڑنا چھوڑ دیا اور اِس شجر کی خدمت کرنے لگے کہ شاید درخت ٹھیک ہو جائے۔ مگر جب مزید پھل آنے کی امید ٹوٹ گئی، لوگوں میں رنجش پیدا ہو گئی۔
 ادھر درخت کی موت قریب آئی، ادھر پھل توڑنے کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ جس کے ہاتھ جو آیا، لے اُڑا۔

اور جب تمام پھلوں سے درخت عاری کر دیا گیا، مالن کو جھڑکوں کا سامنا ہونے لگا۔ کچھ دن مالن اپنے مرتے ہوئے درخت سے ٹیک لگائے روتی رہی، پھر اچانک ایک دن کچھ اوباش آئے، جو پہلے خیر خواہی کا لبادہ اوڑھ کر آیا کرتے تھے۔ انہوں نے مالن کو کمرے میں بند کیا،درخت کا تنا کاٹ کر لے گئے، اور بیچ ڈالا۔ حوس ختم نہ ہوئی تو باغ پر قبضہ کیا، اور باغ بھی بیچ ڈالا۔

مالن کے لیے دنیا جہنم بن گئی۔ نہ اُس کا باغ رہا، نہ اُس کا سایہ دار شجر۔ سب کچھ اُنہی لوگوں نے لوٹ کھایا، جو خیر خواہ، اور راہنما بن کر اسی باغ میں اپنا پیٹ پالنے آیا کرتے تھے۔ جو معاشرے میں خود کو درخت کا متولی اور مالن کا رشتہ دار بتایا کرتے تھے۔اِس باغ کو اِس باغ کے پھلوں پر پلنے والوں نے اُجاڑ دیا۔
آپ آج بھی دیول میں اِس درخت کی داستان کے پیچھے جا سکتے ہیں۔

یہ درخت بہت پرانا نہیں ہے۔ اِس درخت کا نام بابا حیدر زمان تھا۔ یہ درخت صوبہ ہزارہ کی تحریک پر سایہ فگن تھا۔ اس بابا کے دستر خوان پر روزانہ سینکڑوں لوگوں کی تواضع اور خدمت کی جاتی تھی۔ اِس درخت کو تحریک کے کارکنان میں باپ کی حیثیت حاصل تھی۔ مگر اِس درخت کے ساتھ موسیٰ کے فقیر والا معاملہ ہی ہوا۔ جب تک بابا زندہ تھے، دستر خوان کشادہ تھا، لوگ بابا اور اُن کے اہل و عیال کو مرشد کا سا درجہ دیتے تھے۔

بابا کا انتقال ہونا تھا کہ بابا کی جائیداد پر قبضے شروع ہوگئے۔ بابا کی ایک زوجہ جو انتقال کر چکی ہیں، اُن کے دستخط شدہ کاغذات کے ذریعے سب کچھ ہتھیا لیا گیا۔ اور بابا کی دوسری زوجہ، جو ہمارے استعاروں میں مالن ہیں، آج بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔
ہمارے خیر خواہ، محترم صبور قریشی ہم سے رقت آمیز لہجے میں اِس ٹریجڈی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کتنی مفاد پرست ہے، سدا نہ باغ بہاراں۔

بابا گئے تو لوگوں نے بابا کی جائیداد، اور گاڑیاں بھی ہتھیا لیں، اور بابا کی زوجہ کو بے سہارا سسکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ موسیٰ کا فقیر جہاں ہمیں خدا سے تجارت کا سبق دیتا ہے، وہیں ایک تلخ حقیقت سے بھی روشناس کراتا ہے۔ خدا کی راہ میں دیا ہوا خدا نہیں بھولتا، انسان بھول جاتے ہیں۔ انسان احسان کا بدلہ ہمیشہ زیادتی کے ساتھ دیتے ہیں۔ موسیٰ کا فقیر ایمان افروز داستان کا استعارہ نہیں ہے، موسیٰ کا فقیر عبرت کا علمبردار ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :