معاشرہ سب کا تو نمائندگی سب کی

جمعرات 3 ستمبر 2020

Wajeeha Rubab Shahid

وجیہہ رباب شاہد

زندگی ایک زندہ حقیقت کا نام ہے_ ہر انسان کی اپنی ایک الگ ہستی ہے_ اسی طرح ہر انسان کی اپنی اپنی نفسیات ہوتی ہیں_ سوچنے کے زاویے مختلف ہوتے ہیں_ اچھائی برائی کی اپنی تعریف ہوتی ہے_ اس بارے میں گھر کا ماحول بھی بڑا اثر انداز ہوتا ہے_ معاشی حالات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں_ کچھ لوگوں کے لیے زندگی ایک مزیدار جگہ ہے، کچھ کے لیے یہ بس ایک سرائے ہے، کچھ کے لیے ایک بامقصد سفر ہے، کچھ کے لیے یہ اس فلسفے کے مطابق 'اے جہان مٹھا تے اگلا کس ہیے ڈٹھا' یعنی یہ زندگی صرف انجوائے کرنے کھانے پینے کا نام ہے، کل کی کل دیکھیں گے، کچھ کے لیے یہ سب نظر کا دھوکہ ہے، جو باالخصوص صوفیا کرام کے نزدیک اصل زندگی آگے کی زندگی ہے_ اسی طرح ہمارے یہ نظریات اور ہماری زندگی کے بارے میں ہماری سوچ ہی روزمرہ زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے_ کچھ لوگ انہیں عقائدونظریات کی بنیاد پر ہنس مکھ ملنسار اور ہر کسی کو خوش دیکھنے اور رکھنے میں لگے رہتے ہیں_ کچھ اس کے بالکل الٹ ہوتے ہیں صرف اپنے آپ کو خود تک محدود رکھتے ہیں نہ تو وہ ملنسار ہوتے ہیں زیادہ ہنس مکھ بھی نہیں ہوتے، بلکہ خود میں ہی انجمن ہوتے ہیں_ کچھ بہت شوخ وچنچل ہوتے ہیں اور زندگی کے ہر پل ہر پہلو اور ہر موقع سے جی بھر کے لطف اندوز ہوتے ہیں_ لیکن کچھ ہوتے اسی طبعیت کے ہیں پر معاشی مسائل کی وجہ سے زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور لطف اندوز نہیں ہوسکتے_ کچھ دوسروں کو دیکھ کر بہت خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن خود اس کا حصہ نہیں بنتے_ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ مختلف لوگوں کا زندگی کے بارے میں مختلف نظریہ ہے_  یہ کسی کے لیے خوشی ہےتو کسی لیے سراپا غم، کسی کے لیے آرام تو کسی کے لیے جہدِمسلسل، کسی کے لیے گلزار ہے تو کسی کے لیے انگار_ وہ اس لیے کہ یہاں ہر کسی کو ایک جیسا ماحول اور حالات میسر نہیں آتے_ محرومیاں ہر کسی کی زندگی میں ہوتی ہیں_ آبِ حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے یہی فلسفہ ذکر کیا ہے کہ دنیا کی ساری مشکلات اگر سارے لوگوں میں یکساں تقسیم کردیں تو انسان پھر بھی خوش نہیں ہوگا_ المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی خوشیوں کو اپنی خواہشات کے ساتھ جوڑ لیا ہے_جبھی تو غالب نے کہا کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
انسانی خواہشات تو کبھی مکمل نہیں ہوتیں_ ایک پوری ہوئی نہیں تو دوسری اس کا پیچھا کرنے لگ جاتی ہے_ اس لیے خوشیوں کو خواہشات کے ساتھ جوڑ کر ہم غلطی کرتے ہیں_ خوشیاں بھیک میں نہیں ملتیں_بلکہ خوشیوں کو ڈھونڈنا پڑتا ہے_ یہی بنیادی فرق ہے ایک مایوس، دنیا سے ہارے ہوئے انسان کا اور ایک روشن خیال انسان کا۔

(جاری ہے)

امام بخش ناسخ نے اسی لیے کہا تھا کہ
زندگی نام ہے زندہ دلی کا
مردہ دل کیا خاک جیے گا
مایوس، قنوطی، اور زندگی سے ہارا ہوا انسان ہمیشہ ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوگا، بہت سارے خدشات سے گھرا رہتا ہے، عجیب وغریب وسوسے اس کے ذہن میں ہروقت ڈیرا ڈالے ہوئے ہوتے ہیں_ کہیں یہ نہ ہو جائے کہیں وہ نہ ہوجائے_ الغرض روشنی میں بھی کوئی نہ کوئی اندھیرے کا پہلو اس کے ذہن میں ہوتا ہے_ اس کے برعکس روشن خیال انسان ہرآن زندگی کی تلاش میں ہرطرح کے نامساعد اور نامناسب حالات میں بھی اچھے کی امید لیے آگے بڑھتا رہتا ہے، اندھیروں میں بھی روشنی کی کرن اس کے ذہن میں ہوتی ہے_ اچھائی کی آس، روشن خیالی کا دیا 'جب تک سانس ہے تب تک آس' کے مصداق اسی کی بدولت وہ ہر مشکل سے نکل جاتا ہے، اور ایک مثالی زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے_ میں نے تھوڑے عرصے سے لکھناشروع کیا ہے تو میری چند سہیلیوں نے مجھے چند عنوانات پہ لکھنے کا کہا_ ایک نے کہا ہمارے علاقے میں سڑک خراب ہونے کی وجہ سے آئے روز ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں تو اس پہ لکھو، ایک نے کہا رومانٹک کالم لکھو، ایک نے کہا بےوفائی پہ لکھو، ایک نے کہا کرپشن پہ لکھو، ایک نے کہاجنسی جرائم پہ لکھو، ایک نے کہا مرضی کے خلاف شادیوں پہ لکھو، ایک نے کہا مہنگائی پہ لکھو، ایک نے کہا بیروزگاری پہ لکھو_ میں نے سب کو ہاں کہہ دیا پھر سوچا ان سب کا شروع اسی کیٹیگری سے ہے_ انہیں زندگی میں جو جو مسائل درپیش ہیں یا ان کے سامنے زندگی کی جو حقیقت ہے وہ ان مسائل پہ لکھا ہوا پڑھنا چاہتے ہیں_ دوسرے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں_ ہمارے معاشرے کے قنوطی، روشن خیال دنیا سے بیزار زندگی کو پھولوں کا بستر سمجھنے والے، کانٹوں کی سیج سمجھنے والے، بھوک سے مرنے والے، سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والے، پیسہ جوڑنے والے، پیسہ اڑانے والے سب کے سب دوست یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے لیے بھی لکھا جائے، چھاپا جائے اور پڑھا جائے_ کیوں کہ ہمارا معاشرہ بہت سارے مزاج رکھنے والے، مختلف طبقات والے اور بہت سارے مزاہب کا مجموعہ ہے_ اس لیے ان سب کی نمائندگی کے لیے بھی لکھا جانا چاہیے چھاپا جانا چاہیے اور پڑھا جانا چاہیے_ لیکن مثبت لکھا جانا چاہیے تاکہ زندگی سے غیر مطمئن لوگ زندگی کی طرف واپس لوٹیں اور اس کے ہر پل سے لطف اندوز ہوں سکیں_ کیونکہ خوش دلی اور خوش مزاجی میں ہی زندگی کا اصل سکون اور اطمینان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :