14پاکستانیوں کی شہادت اور سی پیک

جمعرات 25 اپریل 2019

Waleed Malik

ولید ملک

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مملکت اسلامیہ پاکستان کے خلاف برسرپیکار قوتیں آخری راوٴنڈ کھیلنے کے لیئے اپنے گماشتوں سمیت میدانوں میں اتر چکی ہیں ۔ جس کا اندازہ 18اپریل بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کو کوسٹل ہائی وے پر اورماڑہ کے مقام پر ہونے والے بدترین دہشت گردی کے واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں 14پاکستانیوں جن میں نیوی کے 10، فضائیہ کے 3 اور کوسٹ گارڈ کے ایک اہلکار کوبسوں سے اتار کر باقاعدہ شناختی کارڈ چیک کر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر شہید کر دیا گیاتھا۔

جس سے پوری قوم شدید غم وغصے کی حالت میں تھی ،اور یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ اس اندوہناک واقعہ کے پیچھے کونسی قوتیں ہیں ؟ ۔ تب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں تصدیق کی کہ دہشت گرد ایران کی جانب سے آئے تھے ۔

(جاری ہے)

جس سے حکومت ایران کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور انہوں نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے ۔ 

پاک سیکورٹی اہلکاروں کو جس ” براس BRAS “ نامی دہشت گرد تنظیم نے شہید کیا ہے ، یہ دراصل تین علیحدگی پسند مسلح بلوچ تنظیموں ( بلوچ لبریشن آرمی ، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریپبلکن گارڈ ) کا اتحاد ہے ۔

جس کو بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی RAW مکمل سپورٹ کر رہی ہے ۔ جبکہ اس کے ٹھکانے ایرانی سرحدوں کے اندر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ مملکت اسلامیہ پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کا سب سے بڑا بیرون ملک اڈہ چاہ بہار بندرگاہ ہے ۔ جہاں پر تمام تر الفاظی جنگ کے باوجود امریکہ ، اسرائیل ، بھارت اور ایرانی رجیم ایک پیج پر ہیں یعنی سی پیک کی مخالفت میں ۔

جس میں ان طاقتوں کو آستین کے سانپوں کی مدد بھی حاصل ہے ۔ بدقسمتی سے جو ہماری بیوروکریسی، سیاست ، میڈیا اور سیکورٹی اداروں میں گھسے بیٹھے ہیں ۔ مملکت اسلامیہ کے بدخواہوں کے لیئے سی پیک ایک ایسا ڈراوٴنا خواب بن چکا ہے جس نے ان کی نیندیں حرام کر دی ہیں ۔ جس کو سبوتاژ کرنے کے لیئے وہ آخری حد تک بھی جا سکتے ہیں ۔ آنے والی ان ہولناکیوں کے ادراک کے لیئے قوم کو فکری اور عسکری طور پر تیار کرنے کے ساتھ ساتھ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آستین کے سانپوں کی موجودگی سے بھی آگاہ کرنا ہو گا ۔

 المیہ یہ ہے کہ اتنے بڑے دہشت گردی کے واقعہ پر جذبہ وطنیت سے عاری ہمارے میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔ مجال ہے کہ اس اندوہناک دہشت گردی کے واقعہ پر ایک لفظ بھی بولا ہو یا لکھا ہو ۔ یہ آنے والی اس خوفناک صورت حال کی عکاسی کر رہی ہے کہ ہماری صفوں میں میرجعفر و صادق اتنے طاقتور ہو چکے ہیں، خدانخواستہ جو کسی وقت بھی مملکت اسلامیہ کو شام و عراق بناسکتے ہیں ۔

حقیقی طور پر پاکستانی عوام زندگی اور موت کے درمیان کھڑی ہے ۔یہ ممکن ہی نہیں کہ ایرانی حکومتی چھتری کے بغیر دہشت گرد وہاں اپنی کمین گاہیں بنا سکیں ۔جبکہ پاک سیکورٹی اداروں کے پاس پہلے ہی سے بلوچستان میں ایران و بھارت کی مداخلت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں ۔ جس کی سب سے بڑی دلیل ماضی میں بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے جو چاہ بہار میں بیٹھ کر کئی سال تک پاکستان میں دہشت گردی کا گھناوٴنا کھیل کھیلتا رہا ہے ۔

سی پیک منصوبے کو ٹارگٹ کرنے والوں کو اس زمینی حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیئے کہ انہیں سوائے شرمندگی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ 
پاک فوج اور آئی ایس آئی کی مخالفت کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیئے کہ تمام تر حشرسامانیوں کے باوجود اسرائیلی قوم کا یہ ایمان ہے کہ بدنام زمانہ و دہشت گرد خفیہ ایجنسی” موساد“ ان کے دفاع کے لیئے کام کر رہی ہے ۔

بین الاقوامی سروے کے مطابق ہر اسرائیلی اپنی جان سے زیادہ موساد کی زیادہ فکر کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کبھی بھی کسی بھی اسرائیلی یہودی نے موساد کے خلاف مورچہ نہیں سنبھالا ۔ جبکہ ہمارے ہاں ڈاگ شو میں آئی ایس آئی پر ایسے چلاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔ اور چیخنے چلانے والے وہ ہوتے ہیں جن کا اپنا شجرہ نصب بھی مشکوک ہوتا ہے ۔ عیار دشمن سمجھ چکا ہے کہ کلمہ توحید کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی مملکت اسلامیہ کو توڑنے اور غیر مستحکم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاک فوج اور آئی ایس آئی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک جانب پاک فوج کو عوام کی نظروں میں متنازعہ بنانے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں تو دوسری جانب اس کی تحقیر کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جاتا ۔ پوری قوم کا وزیر اعظم عمران خان سے پرزور مطالبہ ہے کہ دوراہ ایران کے دوان، پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور آئے روز پاک سرحدوں کی پامالی جیسے واقعات سمیت پاک سیکورٹی اہلکاروں کی شہادتوں جیسے حساس ایشو کو ایران کی سیاسی ، مذہبی اور ملٹری قیادت کے سامنے پوری قوت سے اٹھانا چاہیے تھا ،کیونکہ مملکت اسلامیہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :