ہم کس ڈگر پہ جا رہے ہیں

منگل 25 فروری 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

ایک شخص نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ میرا باپ میری اجازت کے بغیر میرا مال خرچ کر دیتا ہے۔ آپﷺ نے اس کے باپ کو بلا بھیجا، باپ کو اندازہ ہو گیا کہ بیٹے نے شکایت کی ہے جس کی وجہ سے مجھے بلایا جا رہا ہے، وہ بہت ملول ہوا اور دل ہی دل میں چند دکھ بھرے اشعار پڑھتا ہوا مجلس میں حاضر ہوا۔ اس دوران جبریل  نے آکر آپ ﷺ سے کہا کہ آپ ﷺ اس سے کہیں کہ وہ اشعار سنائے جو وہ دل ہی دل میں پڑھتا ہوا آ رہا تھا۔

جب آپﷺ نے اس شخص سے ارشاد فرمایا کہ بھئی وہ اشعار تو سناؤ جو تم دل ہی دل میں پڑھ رہے تھے تو بہت حیران ہوا اور کچھ یوں گویا ہوا کہ: جب تو پیدا ہوا تو بہت کمزور تھا اور میں بہت توانا تھا، میں تجھے سردی گرمی اور ہر پریشانی سے بچاتا تھا، تیری حفاظت کرتا تھا خود مشکل جھیل کر تجھے آسائش فراہم کرتا تھا۔

(جاری ہے)

اور گمان کرتا تھا کہ جب تو بڑا ہوگا تو میں تیرے سائے میں آرام سے زندگی گزاروں گا، اور تو میرے آرام و آسائش کا خیال رکھے گا، مگر اب جب کہ تو جوان اور توانا ہے اور میں بوڑھا اور ناتواں ہوں تو تو مجھ پر ناراض ہوتا ہے، مجھ سے نالاں رہتا ہے۔

یہ سن کر آپﷺ شدید رنجیدہ ہوئے اور شدت غم سے آپﷺ کے آنسو بہہ نکلے۔ آپ ﷺ نے نہایت غصے سے فرمایا کہ: تو اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے، اور یہ بات تین بار دھرائی، مقصد والدین کی تکریم کو اجاگر کرنا تھا، قرآن کئی مقامات پر والدین کی تابعداری اور عزت و احترام کے متعلق بہت واضح الفاظ میں ہدایات دیتا ہے ، اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبا دت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تمہارے سامنے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا، اور ان سے عزت و تعظیم سے بات کرنا، اور ان کے لئے عاجزی اور نرم دلی اختیار کرنا، اور عرض کرنا کہ اے میرے رب، تو ان دونوں پر ایسے رحم کرنا جیسے انہوں نے مجھ پر کیا تھا۔

والدین کی تابعداری کرو، صرف شرک اور کفر کے احکامات نہ مانو باقی زندگی کے ہر معاملے میں والدین کا احترام اور تابعداری اولاد پر لازم ہے۔
آج جب ہم اپنے اردگرد نگاہ ڈالتے ہیں تو معاشرہ بہت ہی عجیب اخلاقی ابتری کا شکار نظر آتا ہے ۔ تواتر کے ساتھ والدین سے بدسلوکی کے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں۔ جو انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہیں، کبھی کبھی تو عقل تسلیم کرنے سے قاصر نظر آتی ہے کہ یہ ہم ہی ہیں جو سگے تو دور محلے کے بزرگوں تک کے احترام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے تھے۔

اور اب روزانہ کوئی نہ کوئی دل دکھا دینے والی خبر زیر نظر ہوتی ہے ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بہت سے واقعات تو اردگرد موجود لوگوں کے ذاتی تجربات و مشاہدات سے حاصل ہو جاتے ہیں۔ او ر پھر میڈیا اتنا طاقتور اور فعال ہو گیا ہے کہ لمحوں میں کوئی بھی خبر زبان زد عام ہوجاتی ہے، یا تو سوشل میڈیا پر اپڈیٹ مل جاتی ہے ورنہ نیوز چینلز تو موجود ہیں ہی۔

حد تو یہ ہے کہ گذشتہ جمعہ کے وعظ کے دوران مولانا صاحب نہایت افسوس کے ساتھ فرمانے لگے کہ زمانہ کیا آگیا ہے کہ : ایک بیٹے نے اپنی ۸۵ سالہ ماں کو گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا در بدر کردیا کہ اگر آپ یہ جائیداد میرے نام نہیں کریں گی تو آپ یہاں رہ بھی نہیں سکیں گی۔ مگر اس سے بھی حیرت انگیز واقعہ جو انہوں نے سنایا وہ یہ تھا کہ ، ایک شخص ان کے پاس آیا اور مشورہ مانگا کہ کیا میں اپنے بیٹے کو قتل کر کے ملک سے فرار ہو سکتا ہوں، مجھے اپنی جان کا شدید خطرہ ہے، میرا بیٹا مجھے میری ہی جائیداد کیلئے قتل کر دیگا۔

یہ ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک زوردار طماچہ ہے، کیونکہ ہم لوگوں کیلئے تو اللہ کے بعد والدین ہی سب سے زیادہ محترم اور قابل تعظیم سمجھے جاتے ہیں، اور کئی کئی نسلیں ایک ہی چھت تلے بہت ہی چاہ اور اطمینان سے رہ رہے ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے تکلیف دہ واقعہ ایک ویڈیو کلپ کی شکل میں دیکھنے کو ملا، جس میں ایک نہایت ہی پروقار ۸۵ سالہ بزرگ رو رو کر بھیک مانگ رہے تھے، وہ بتا رہے تھے کہ اسی شہر میں ان کا ایک بیٹا بھی رہتا ہے، جو ڈاکٹر ہے، بڑے بنگلے میں رہتا ہے اور نہایت مہنگی گاڑی میں سفر کرتا ہے، اسی بیٹے کی خاطر انہوں نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اسے پڑھایا لکھایا ، ڈاکٹر بنایا اور آج بھیک مانگنے پر مجبور ہوں۔

وہ بہت ہی خوفزدہ نظر آ رہے تھے اور بار بار موی بنانے سے روک رہے تھے کہ اگر ان کے بیٹے کو پتہ چل گیا تو وہ ان کو جان سے مار دے گا۔ المیہ در المیہ یہ تھا کہ بیٹا انہیں گزر بسر کے لئے کچھ بھی نہیں دیتا اور بھیک بھی نہیں مانگنے دیتا کہ اس سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے، یعنی مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا۔ اب اس بڑھاپے میں ظاہر ہے وہ کسی مشقت یا نوکری کے بھلا کیسے متحمل ہو سکتے ہیں۔

کتنا سنگین مذاق ہے اور بدسلوکی کی انتہا کہ والدین جو اپنی زندگی کا خوبصورت ترین وقت اولاد کی پرورش کی نظر کرچکنے کے بعد ظلم کی ایسی خوفناک صورتحال سے دوچار ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہماری روایات و تہذیب کے برخلاف والدین سے بدسلوکی کا یہ عفریت ہمارے معاشرے میں خوب پھل پھول رہا ہے، نئی نئی تاویلیں جنم لے رہی ہیں نئے نئے جواز سامنے آ رہے ہیں مگر درحقیقت سب طفلی تسلیاں ہیں اور خود کو خواب غفلت میں مدہوش رکھنے کی سعی لا حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کیونکہ حقیقت ملعمہ کاری سے دب سکتی ہے مٹ نہیں سکتی۔
موجودہ معاشرہ اس ابتلا کا بڑی بری طرح شکار ہے اور جہاں بھی نگاہ جاتی ہے ایک نئی تکلیف دہ کہانی کے ساتھ لوٹ کر آتی ہے۔ ابھی زرا پہلے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اولڈ ہاؤسسز کا تصور بھی نہ تھا۔ بلکہ ہمارے ہاں لوگ ہنستے تھے اور حقارت سے کہتے تھے کہ یورپ و امریکہ کی یہ کیسی تہذیب ہے یہ کیسی تعلیم ہے اور یہ کیسی ترقی ہے جس میں لوگ اپنے والدین کو اولڈ ہاؤسسز میں پھینک جاتے ہیں۔

اور اب وہی کچھ ہم خود بھی کر رہے ہیں، مگر ذرا سوچیں کہ بے حد ناگوار ہی صحیح مگر گورے اپنے والدین کو ایک مناسب طریقے پر چھوڑتے ہیں پھر تہواروں پر ملنے جاتے ہیں ، کبھی کبھی انہیں تحفے دیتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے والدین کو اولڈ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے معاملات اتنے بگاڑ دئیے جاتے ہیں کہ دوبارہ شکل دیکھنے تک کے روادا ر نہیں رہتے، اور تہوا ر تو دور کی بات موت پر بھی جاکر شکل دیکھنا نصیب نہیں ہوتی۔

بچے والدین کو، بھائی بن بیاہی بہنوں کو پھوپھیوں کو بے دریغ اولڈ ہاؤسسز میں جمع کرا رہے ہیں۔ عام آدمی پر اس تکلیف دہ امر سے پردہ کبھی کبھی اس وقت اٹھتا ہے جب کسی تہوار کے موقع پر کوئی من چلا رپورٹر اپنی ریٹنگز کے چکر میں ان نہایت ہی مظلوم، قابل رحم اور دکھی لوگوں سے جا ملتا ہے، تو پتہ چلتا ہے کہ کوئی کینیڈین نیشنل ہے، کوئی رٹائرڈ بینکر ہے، کوئی رٹائرڈ اسکول پرنسپل ہے، جو اپنی جوانی، اپنی تعلیم، اپنی طاقت اپنی زندگی کا قیمتی ترین وقت اپنی اولادوں، بھانجوں بھتیجوں پر لٹا کر یہاں بے بس و لاچار پڑے ہیں۔

کوئی پرسان حال نہیں کوئی کبھی ملتا تک نہیں، وہ وہ التجائیں کرتے ہیں صرف ایک بار بلاقات کیلئے کہ اگر پتھر بھی سن کر اپنے آنسو روک سکے تو معجزہ ہو گا ۔ دراصل ایک بہت ہی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک بچے چھوٹے ہوتے ہیں اور والدین یا بہنیں انہیں پالنے میں مدد گار ہوتے ہیں برداشت کئیے جاتے ہیں مگر جوں ہی بچے بڑے ہوتے ہیں اور خود کو سنبھالنے کے قابل ہوتے ہیں گھر کے بزرگ بوجھ نظر آنے لگتے ہیں۔

ان کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا، ان کی ہر بات بری لگنے لگتی ہے، اب وہ جنہوں نے زندگی جینا سکھایا ان کی زندگی میں مشکلات پیدا کرتے ہیں دخل در معقولات کرتے ہیں، خالص ذاتی معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہیں، اور حد تو یہ کہ زندگی جینا مشکل کر رکھا ہے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا، آج زندگی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ بیٹے باپ کے گریبان پر بلا تکلف ہاتھ ڈال دیتے ہیں اور باپ شکا یت کرے تو کہتے ہیں کہ آئندہ تمہیں گولی مار دوں گا، بیٹیاں ماؤں کو چار چار چلو آنسوؤں کے رلاتی ہیں، سخت الفاظ ناروا سلوک اور بدتمیزی ماؤں کی زندگی کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔

یہ وہی ماں ہیں جن کی عظمت کا گواہ اللہ اور اس کا رسولﷺ ہے۔ وہی ما ں آج اپنی اولاد کے ہاتھوں نہ صرف زلیل و خوار ہو رہی ہیں بلکہ بے بسی و بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اگر ہم (پاکستانی) کبھی اس بات پر غور کریں کہ جوائنٹ فیملی سسٹم (مشترکہ گھریلو نظام) جو کبھی وجہ افتخار سمجھا جاتا تھا ، دنیا کے دوسرے علاقوں کے لوگ ہمارے اس معاشرتی نظام کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، خود ہمارے معاشرے میں ان گھرانوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جہاں بزرگ ساتھ رہتے تھے اور فیصلے کرتے تھے ۔

گھر انوں کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور اچھے برے کے وہ ذمہ دار ہوتے تھے۔ ہم آج اسے کیوں چھوڑ رہے ہیں، ہم کہیں اغیار کی اندھی تقلید میں اپنا سب کچھ تو گنوا نے نہیں جا رہے ہیں، ہم کہیں کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کہ مصداق کسی اندھی کھائی کی طرف تو نہیں بڑہ رہے ہیں کے جہاں سے لوٹنا ممکن نہ ہو صرف پچھتاوے ہی پچھتاوے ہوں۔

کون سے عوامل ایسے ہیں جو اولاد کو اتنا بے حس اور سنگدل کردیتے ہیں کہ ان کو اپنے والدین پر ترس نہیں آتا بلکہ والدین بوجھ ، رکاوٹ اور فضول سی شہ لگنے لگتے ہیں۔ کچھ قصور والدین کا بھی ضرور رہا ہوگا، تربیت کے معاملے میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی سقم ضرور ہے جو اس برائی کو جنم دے رہا ہے اور پروان بھی چڑھا رہا ہے۔ یہ کہیں خود اپنی لگائی ہوئی آگ تو نہیں جو اب ہمارے اپنے دامن جو جلا رہی ہے۔

کون کون سے ایسے عوامل ہیں جو اولاد کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ یہ والدین، بہن بھائی دیگر رشتہ دار ہمارے کسی کام کے نہیں، کیا ہم وہی ہیں جو بڑوں کی ایک بات پر دوڑیں لگایا کرتے تھے تو اب ایسا کیا ہو گیا کہ ہم اپنی خاندانی اور معاشرتی روایات کو پس پشت ڈال کر سب سے رو گردانی کرنے پر تلے ہیں اور ضمیر ہے کہ مطمئن ہے۔ کیوں آخر کیوں؟ کہیں مغرب کہ اندھی تقلید تو اس کا سبب نہیں، کہیں ہم اپنے بچوں کے سامنے گھر کے بزرگوں کی عزت کا تماشہ تو نہیں بناتے رہے ہیں۔

کہیں ہم لاشعوری طور پر اپنے بچوں کے سامنے اپنے بڑوں سے اختلافات کا تذکرہ تو نہیں کرتے رہے ہیں ، کہیں ہم اپنے بڑوں کی کمزوریوں کا ذکر اپنے بچوں کی موجودگی میں تو نہیں کرتے رہے ہیں، اگر محلے کے کسی بڑے نے ہمارے بچے کو ڈانٹ دیا ہو تو ہم جھٹ لڑنے تو نہیں پہنچ جاتے۔ اگر یہ سب کچھ ہوا ہے تو پھر یہ آگ ہمارے دامن کو بھی ضرور لپیٹ میں لے گی اور برائی میں تو ویسے ہی بڑی لذت ہے یہ تو وائرس کی طرح پھیلتی ہے، دیکھا دیکھی پورا معاشرہ اس وبا کا شکار ہوجائے کوئی مضائقہ نہیں۔

ایسے میں دین سے دوری اور منزلیں آسان کردیتا ہے، اور لوگ خود کو طفلی تسلیاں دے کر مطمئن کرتے رہتے ہیں کہ یہ سب تو قدرتی ہے، عین فطرت ہے ، سب جگہ ایسا ہی ہوتا ہے، ساری دنیا ایسا ہی کر رہی ہے۔ ہم نے کر لیا تو کونسی قیامت آ گئی۔ مگر مجھے اس بات کا یقین کامل ہے کہ ہم پاکستانی کبھی بھی ان افعال قبیحہ کو فخر و انبساط کا موجب نہیں بنا سکتے ہمارے لاشعور میں دکھ کی گھنٹی بجتی رہے گی۔

کیونکہ ہماری روایات، ہمارا گھریلو نظام، ہمارے اجداد کا طریق ہمیں اس کے برعکس بتاتا اور سکھاتا ہے۔
ہمیں آج اس بات کی ضرورت ہے کے بلا تفریق اپنے اردگرد، اپنے گھر، محلے، قصبے گاؤں شہر ہر جگہ وہی پرانا کارآمد فیملی سسٹم رائج کریں جہاں محلے کا ہر بزرگ سب کا سانجھا ہوتا تھا جو کسی کو بھی روک کر پوچھ سکتا ہو ، ہدایت کر سکتا ہو، اور والدین کو کوئی اعتراض نہ ہو ، تو دیکھئے گا نتیجے میں وہی بہترین تربیت یافتہ نسل سامنے آئے گی، معاشرے سے اخلاقی ابتری دور ہوگی، اطمینان اور بھائی چارہ بڑھے گا۔ بس ہمیں جہاں موقع ملے اس بات کو چلا نا ہے ، کہ کہنے سننے سے ہی یقین پیدا ہوگا، اور یقین ہی نتائج کا حامل ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :