کاروبار کی جھوٹی چکا چوند کا شکار نہ ہوں

پیر 27 اپریل 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

 دنیا بھر میں عام طور پر اور خاص کر ہمارے ہاں یہ روش عام ہے کہ مالی معاونت فراہم کرنے والے ادارے جو کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ کاروبار کررہے ہوتے ہیں عموماً مالی بے ضابطہ گی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں ۔ وہ کاروبار کے حصول کیلئے عموماً کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں اور اپنے کلائنٹ کے اعلی عہدیداروں یا فیصلہ سازوں کو رشوت دینے میں کوئی شرم کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی اسی طرح کے دوسرے غیر اخلاقی کاموں کو برا سمجھتے ہیں۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بغیر رشوت دیئے کاروبار کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ ضرورتمند اور کم تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنا شکار بناتے ہیں اور اپنے ادارے جز وقتی یا کل وقتی معاہدوں کی بنیاد پر بھرتی کرلیتے ہیں۔

(جاری ہے)

اب چونکہ یہ ملازمین مستقل ملازمت پر نہیں ہوتے لہذا ویسے ہی ڈرے ہوئے اور خوداعتمادی کی کمی کا شکار ہوتے ہیں ایسے میں ان پر ٹارگیٹ کے حصول کیلئے مسلسل دباؤ بنائے رکھا جاتا ہے۔

یہ ٹارگیٹ عموماً ناقابل حصول ہوتے ہیں، جو ان ملازمین کیلئے بذات خود ایک بڑی درد سری ہوتی ہے، ساتھ ساتھ آجر ان کو مجبور کرتے ہیں (اکساتے ہیں) کہ جو بھی کریں مگر اپنا ٹارگیت پورا کریں اس کیلئے جو بھی کاروباری غیراخلاقی طریقے اپنانے پڑیں اپنائیں مگر ٹارگیٹ پورا کرنا ہے۔ ورنہ نوکری سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ مسلسل دباؤ کے ذریعے ان لوگوں کو رشوت دینے اور ایسے ہی اور بہت سے گھناؤنے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔

بلکہ انہیں ان کاموں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً یہ بیچارے کم تعلیم یافتہ اور ناتجربہ کار ملازمین مالک کے کاروباری بد اخلاقی کے مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور محض مالک سے شاباش حاصل کرنے یا نوکری بنائے رکھنے کیلئے وہ مسلسل کاروباری بداخلاقی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔
دور حاضر کی زندگی بے شمار رونقوں ، آسائشوں، اور خوشیوں سے مزیں ہے اور ان سب کے حصول کا واحد ذریعہ ہے پیسہ، اب ایسا کون ہوگا جو ان سب کے حصول کی خواہش سے اپنا دامن بچا سکے۔

لہذا کچھ لوگ حالات سے مجبور ہوکر اور کچھ محض حصول زر و تعیشات کے حصول کی خاطر اسطرح کی کاروباری بد اخلاقی میں ملوث ہوت چلے جاتے ہیں، آخر کار انجام دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے یعنی اپنے مالک کے ہاتھوں کھلونا بننا، اس کے اشاروں پر ناچنا اور اس کے ہر جائز ناجائز حکم کو بجالانے کیلئے تیار رہنا۔ اس ضمن میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اصل مالی فائدہ تو ان دولت مندوں کو ہی پہنچتا ہے جن کے پاس ذرائع ہوتے ہیں اور جو ان لوگوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرہے ہوتے ہیں، بدلے میں ان مجبوروں کو بہت تھوڑا سا حصہ انعام کی شکل میں دے کر انہیں خوش کردیا جاتا ہے۔

اس کار نارسا کا حتمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آجر یا مالک جب تک چاہتا ہے ان ملازمین کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے اور جب چاہتا ہے ان کی جگہ نئے ملازم رکھ کر ان کو فارغ کردیتا ہے۔ کیونکہ یہ تو ہوتے ہی Contractپر ہیں لہذا اپنے حق میں لڑ بھی نہیں سکتے ، اس طرح کی افسوسناک مثالیں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں۔ شروع میں جس کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ایک حقیقی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔

اسی طرح کی بہت ساری مثالیں ہمارے ارگرد موجود ہیں۔ مندرجہ ذیل اس کی مذید تصدیق کیلئے کافی ہے۔ جدید تصور کے مطابق بیگار یا Bonded Laborپرانے وقتوں کے غلاموں کی بالکل حقیقی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں مالک اپنے مقصد کے حصول کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح کسی بھی کمپنی کے ملازمین اپنے ٹارگٹ کے حصول کی خاطر غیراخلاقی کاروباری طریقوں پر کام کر رہے ہوتے ہیں ۔

جو انہیں ان کے مالکان نے سکھائے ہوتے ہیں، اب اگر پکڑے گئے تو نوکری بھی گئی اور عزت بھی ، مالک ایسے معاملات میں بالکل بری الزماں نظر آتا ہے، مثال کے طور پر سگریٹ کی فروخت کو ہی لے لیں۔ اب اس کے بیچنے والے ہر جائز ناجائز طریقے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کا بھی احتمال نہیں رکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ نوعمر لوگوں کو نہ صرف لبھائے گی بلکہ بیچی بھی جا رہی ہوگی۔

اپنی فروخت کو بڑھانے کیلئے وہ اپنے کسٹمر کو ناجائز منافع اور سہولیات بھی دیا کرتے ہیں۔ بڑے پروجیکٹس کے حصول کیلئے غیر ملکی چھٹیاں گزارنے کے انتظامات، مہنگے ہوٹلوں میں قیام ، مہنگے تحائف، مہنگے ہوٹلوں میں ڈنر اور بہت سے ایسے طریقے ہیں جن کے ذریعے کارباری اخلاقی بے قاعدگیاں کی جاتی ہیں۔ ساری دنیا بشمول ہمارا اپنا ملک کاروبار میں دیانتداری ، Fair Business Practiceکی لمبی لمبی پالیسیز بنا رہا ہوتا ہے اور ان کو بڑے دھڑلے سے سب کے سامنے پیش بھی کر رہا ہوتا ہے مگر اس کا عملی مظاہرہ بہت کم اداروں میں ہو رہا ہوتا ہے۔

بالکل اسی طرح دنیا بھر میں خواتین کو کام کے دوران ہراساں کیا جانا ایک بہت ہی جانا مانا جرم ہے ، مگر تمام تر برا گردانے جانے کے باوجود دنیا بھر میں جاری ہے اور اس کا شکار عموماً وہ بیچاری نوجوان لڑکیاں ہوتی ہیں جو کسی طرح نوکری کے حصول کے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہوتی ہیں۔ آجر کے لئے یہ آسان اور کارآمد شکار ہوتی ہیں ، انہیں ڈرا دھمکا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کئے جا رہے ہوتے ہیں ۔


 بالاآخر حالات سے مجبور یہ کمزور لوگ پیسے گلیمر ، راحت اور شہرت کے حصول کی خاطر اپنا عقیدہ، اپنے اقدار، اپنی خود اعتمادی اور اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں۔ جن لوگوں کا اس طرح کے حالات سے سابقہ پڑا ہوتا ہے بہتر طورپر جانتے ہیں کہ اپنے ایمان کو سلامت رکھنا اور خوداری کے ساتھ جینے کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ لوگ دوسروں کے تجربات کا فائدہ اٹھا کر بچ جاتے ہیں مگر کچھ جدید دور کی جھوٹی چکا چوند کا شکار ہوجاتے ہیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ہم غیر اخلاقی کاروباری روش سے خود کو محفوظ رکھیں تو بہت ممکن ہے کہ ہمارے پاس بہت سارے پیسے نہ ہوں ، بہت ساری آسائیشیں نہ ہوں، مگر یہ تو طے ہے کہ ہم ایک خود دار، باہمت اور خوداعتماد انسان بن کر زندگی گزار رہے ہوں گے۔ ہماری قربانی ہمیں بدلے میں عزت، احترام اور خوداری سے بھرپور زندگی گزارنے کا موقع عطاء کرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :