نوجوان نسل پر موبائل فون کے منفی اثرات

جمعرات 25 جون 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کہتے ہیں کسی زمانے میں ایک بہت ہی غریب لکڑ ہارا تھا ، جس کی زندگی غربت کی وجہ سے بہت کٹھن تھی ، ایک بار وہ جنگل میں تھک کر ایک درخت کے نیچے بہت ہی اداس بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے، شدید محنت اور بد ترین تنگدستی، یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی، کیا دیکھتا ہے کہ سامنے ایک بہت ہی نورانی شکل بزرگ کھڑے ہیں، وہ اس سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ کیا بات ہے آپ بہت مغموم ہیں، تو لکڑہارا کہنے لگا کہ میں بہت ہی بدقسمت انسان ہوں شدید محنت کے باوجود بڑی شدید تنگدستی ہے۔

تو بزرگ نے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو، زرا بیان کرو۔ تو کہنے لگا میرا دل چاہتا ہے کہ میں جس چیز کو ہاتھ لگاؤں وہ سونے کی ہوجائے اور میں بہت ہی امیر کبیر ہو جاؤں۔ بزرگ نے کہا یہ کون سی مشکل بات ہے۔

(جاری ہے)

تمہاری یہ خواہش ابھی پوری کئے دیتے ہیں۔ لکڑہارے کو ایک ہلکا سا جھٹکا لگا اور وہ نیند سے جاگ گیا، پہلے تو حیرت سے اپنے اردگرد دیکھتا رہا اور پھر اس نے جیسے ہی اپنا کلہاڑا اٹھایا وہ حیرت زدہ رہ گیا کہ اس کا کلہاڑا سونے کا بن چکا تھا، وہ خوشگوار حیرت کے ساتھ گھر کی طرف چل دیا، وہ جیسے ہی گھر پہنچا، اس کی لاڈلی بیٹی دوڑ کر اس سے لپٹ گئی، اور جیسے ہی لکڑ ہارے نے اپنی بیٹی کو پیار سے چھوا، وہ سونے کی مورتی میں بدل گئی۔

یکایک لکڑ ہارے کی خوشی دکھ میں بدل گئی، اسے چیزوں کو سونے میں بدل دینے والی صلاحیت ایک وبال ایک مصیبت لگنے لگی۔
 بالکل اسی طرح موبائل فون ہم پاکستانیوں کیلئے ایک ایسی ہی مصیبت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ شروع شروع میں جب موبائل فون متعارف ہوا تو یہ ضرورت سے زیادہ اسٹیٹس سمبل کے سوا کچھ نہ تھا، لوگ ضرورت سے زیادہ شوق کی خاطر موبائل فون رکھتے تھے، اس وقت تک لینڈ لائن اتنی غیر موئثر نہ ہوئی تھی۔

کاروباری اور گھریلو استعمال کیلئے لینڈ لائن پر ہی بھروسہ کیا جاتا تھا۔ اس وقت موبائل فون بھی بار فون یا پریس اے بٹن والے فون ہوتے تھے، جو بات کرنے اور SMS ہی کرسکتے تھے، اسکرین بھی رنگین نہیں ہوتی تھی، کیمرہ سے بھی یہ فون محروم تھا، اور نہ ہی زیادہ آپشن موجود تھیں نہ فون کی صلاحیت ایسی تھی کہ بندہ پورا دن بس فون میں ہی لگا رہے، اور کسی کام کا نہ رہے۔

اس زمانے میں فون پر موسیقی اور ریڈیو کے آپشن بھی نہیں ہوتے تھے۔ لوگ اپنی پسند کی رنگ ٹون سیٹ کرانے کیلئے دکانوں پر جایا کرتے تھے۔ یعنی یہ وہ وقت تھا جب موبائل نے دل کی دوا جیسی اہمیت حاصل نہیں کی تھی۔
موبائل فون دور حاضر کی سب سے زیادہ مقبول اور اہم ٹیکنالوجی بن چکی ہے۔ جو بہت کم وقت میں انسانی زندگی میں جیسے جزو لازم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

کیا بوڑھے کیا جوان، کیا مرد کیا عورت اور کیا بچے کیا جوان لگتا ہے موبائل کے بغیر ان کی زندگی ادھوری ہے۔ لوگوں نے بھانت بھانت کے اور ہر رنگ و ہر برانڈ کے موبائل خرید رکھے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ موبائل کنکشنز کی تعداد بارہ کروڑ کے قریب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں موبائل فون کے استعمال کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔


وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور موبائلز ٹچ اینڈ ٹائپ آنے لگے، اسکرینز بھی رنگین آنے لگیں کیمرے بھی آنے لگے، تو لوگوں نے کئی مشاغل ڈھونڈ لئے، اب تصاویر بننے لگیں گیمز کھیلے جانے لگے ، گانے ڈاؤن لوڈ ہونے لگے۔ یوں سمجھیں کے خرافات کی بس ابتداء تھی، مگر لوگ ابھی تک اس بلا کے عادی نہ ہوئے تھے، کچھ ضرورتاً اور کچھ مشغلے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

مگر اب تک یہ بلا جان لیوا نہیں ہوئی تھی۔
موبائل فون نے خاموش قاتل کی شکل تب اختیار کی جب اس پر انٹرنیٹ اور WIFI کی سہولت فراہم کی گئی۔ اس کے بعد تو ایسا لگا جیسے ایک طوفان بدتمیزی امڈ آیا ہے، بالکل ایسا لگا جیسے ایک ہوائی جہاز پرواز سے پہلے کچھ دیر تک آہستہ آہستہ رن وے پر چلتا ہے ، اس کے بعد وہ دوڑنے لگتا ہے ، پھر بہت تیز دوڑنے لگتا ہے، اور آخر کار وہ ہوا میں بلند ہوجاتا ہے اور پھر اوپر اور اوپر ہوتا چلا جاتا ہے، مسافروں کو کچھ زیادہ پتہ نہیں چلتا کہ کتنی اونچائی پر پہنچ گئے ہیں۔

بالکل اسی طرح اب موبائل کے استعمال کرنے والوں کو بھی بالکل اندازہ نہیں ہے کہ وہ کتنی دور جا چکے ہیں۔ ترقی کرتے کرتے موبائل اب اس مقام پر آچکا ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے لیپ ٹاپ کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے بلکہ بعض مہنگے برانڈز تو لیپ ٹاپ سے بھی زیادہ با صلاحیت ہیں۔
موبائل کا استعمال اب ہمارے معاشرے میں ایک لت کی شکل اختیار کرگیا ہے اور اس کے نقصانات اس کے فوائد پر غالب آچکی ہے اور یہ ایک کارآمد کاروباری ٹول کی بجائے محض ایک Entertainment ٹول بن کر رہ گیا ہے، لوگ موبائل کی لت کی وجہ سے اپنی زندگی بھی داؤ پر لگانے سے نہیں چوکتے۔

جب سے موبائل کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے یہ ایک جان لیوا بیماری بن کر نوجوانوں میں سرائیت کر چکا ہے۔ والدین بھی اس آفت کو گھر لانے میں برابر کے شریک ہیں،
ایک عام علت جو ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں چھوٹے بچے نے ضد کی اس کو بہلانے کیلئے موبائل ہاتھ میں دے دیا، آہستہ آہستہ یہ بچہ موبائل کا عادی ہو جائے گا۔ جو اس کی صحت اور سیکھنے کی صلاحیتوں کیلئے زہر قاتل ہے، اب عمومی نوجوان موبائلز پر Online Games کھیلتے ہیں، اور اپنی جان گنوانے کی نوبت تک پہنچ جاتے ہیں، ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ ایک گیم جو پب جی کے نام سے مشہور ہے کی وجہ سے صرف چار دن میں دو نوجوانوں نے خودکشی کرکے اپنی جان گنوائی۔

اس سے پہلے ایک اور مشہور Online Game بلیو وہیل ہمارے ملک میں بہت سے نوجوانوں کی جان لے چکا ہے۔
مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ ہمارے ہاں یا تو اس حوالے میں کوئی سائبر پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں، یا پھر اس پر کوئی قانونی عمل درآمد کرانے والا نہیں لہذا جو چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے کر گزر تا ہے۔ نتجتاً ایک ادھم مچی ہوئی ہے، جس کا جو جی چاہتا ہے کر رہا ہے، یہی موبائل بلیک میلنگ کا بہت ہی آزمودہ کار آلہ بن چکا ہے، اب لوگ زیادتی کرنے کے بعد تصاویر اور فلمیں بنا کر بلیک میلنگ کرتے ہیں۔

جس کا شکار مظلوم لڑکیاں، بچے اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ فحاشی و عریانی والی سائٹس پر جانا اور ان کو دیکھنا آج سے پہلے اتنا آسان کبھی بھی نہ تھا۔ جو نوجوان نسل کی اخلاقی گراوٹ کا بڑا سبب ہے۔ موبائل فون چھینا جانا ایک بہت ہی عام جرم ہے جو قریب قریب ہر شہر میں پایا جاتا ہے۔
ماہرین اس بات کا بھی بار بار اعادہ کرتے رہتے ہیں کہ موبائل فون کا بہت زیادہ استعمال صحت کے شدید مسائل کا سبب بن سکتا ہے جس میں سماعت ، بصارت اول درجے کے متاثرین ہوتے ہیں اس کے علاوہ زہنی دباؤ اور دل کی بیماریوں کا بھی سبب بن سکتا ہے۔

ساتھ ساتھ موبائل نیٹ ورک سروس کی جانب سے فراہم کئے جانے والے نئے نئے پیکیج بھی حادثات کا سبب ہیں، لوگ بے دھڑک ڈرائیونگ کے دوران موبائل استعمال کرتے ہیں ، یہ روش بھی عام ہے کہ نوجوان کانوں میں ہیڈ فون لگا کر دنیا اور اردگر د کی ٹریفک سے بے نیاز مین شاہراہوں پر وہ کچھ کرتے ہیں کہ کسی ذی شعور سے آپ اس کی توقع کبھی بھی نہیں کرسکتے۔ مگر یہ سب کچھ تو روز ہی ہوتا ہے۔

لوگ جان سے جاتے ہیں مگر اپنی روش نہیں بلدتے۔
موبائل کے حوالے سے اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں جن کو شمار کیا جانا باقی ہے۔ مگر یہ چند نقصانات ہیں جو معاشرے میں باآسانی مشاہدہ کئے جاسکتے ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا اہتمام کریں کہ وہ بچوں کو موبائل دینے سے پہلے یہ ضرور جان لیں کہ بچے کو موبائل دینا ضروری ہے بھی یا نہیں، اور اگر موبائل دینا ہی پڑ جائے تو اس بات کا ضرور اہتمام کریں کہ بچہ اس کا غلط استعمال نہ کرنے پائے۔

اس کے علاوہ نوجوانوں کو اس بات کا احساس دلانا نہایت ضروری ہے کہ وہ جسمانی اور ذہنی طاقت بڑھانے کیلئے موبائل کی بجائے کھیلوں اور دوسری سماجی ایکٹیوٹیز میں حصہ لیں۔ یہ سب کچھ مل جل کر سماجی یکجہتی کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہر ایک کو اسکول سے لیکر کالج تک اور گھر سے لیکر محلوں تک مل جل کر اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :