والدین پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات ہماری اخلاقی تنزلی کا منہ بولتا ثبوت

ہفتہ 25 جولائی 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

والدین کا نام سنتے ہی دل میں شفق ، بے لوث، بے غرض اور دل و جان سے انتہائی محبت کرنے والی ہستیوں کے نقشے ذہن میں ابھرنے لگتے ہیں اللہ نے ہر رشتے کا نعم البدل بنایا ہے مگر والدین کا کوئی بدل نہیں ہے۔ اللہ تعالی اپنے کلام میں سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے کہ : اور یاد کرو جب ہم نے اولاد یعقوب سے پختہ وعدہ لیا اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔

اور زمانہ یہ بھی جانتا ہے کہ حضرت اویس قرنی  کو یہ بلند مقام و مرتبہ کیسے ملا کہ سرکار دوعالم ﷺ ان کا ذکر اکثر اپنی محافل میں فرمایا کرتے تھے حالانکہ حضرت اویس تو کبھی بھی آپ ﷺ سے ظاہری طور پر نہیں مل سکے تھے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ حضرت اویس قرنی  کے فضائل اتنے پیار سے بیان فرماتے تھے کہ رشک آتا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے کہ میرے اویس کی یہ علامت ہے کہ اس کے ہاتھ پر داغ ہے اور مرتبہ یہ ہے کہ اس کی دعا سے میری امت کے لاکھوں لوگوں کی بخشش ہوگی۔

(جاری ہے)

یہ امر بلا شبہ باعث کمال اعزاز کامیابی کی سند ہے کہ سید الانبیاء ﷺ اویس قرنی کی غیر موجودگی میں اتنے اہتمام اور پیار سے تذکرہ فرمائیں۔ تو ایسا کیا عمل تھا جس کی وجہ سے اویس قرنی  نے یہ مقام و مرتبہ حاصل کرلیا۔ دراصل حضرت اویس قرنی نے یہ مقام اپنی والدہ کی خدمت و تابعداری سے حاصل کیا اور اس ہی وجہ سے وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہونے کی قربانی دے سکے۔


 اس کے علاہ قرآن، حدیث، اور دنیا کے تمام ہی مکتب فکر اور علوم میں والدین کی عظمت، ادب و احترام کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں یہ کیسا چلن ہے کہ روز ایک ناقابل یقین حد تک بری خبر سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ جسیے اخلاقی پستی کی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ والدین سے زبانی بدتمیزی تو سنا کرتے تھے یا نافرمانی کے کہنا نہ ماننا اور اپنی سی چلانا مگر والدین پر تشدد کا چلن عام نہ تھا ایسا بالکل نہ تھا کہ روز ہی والدین پر ظلم و تشدد کی کو ئی نہ کوئی کہانی سننے کو ملنے لگے۔


ابھی بیٹے کی والدہ پر تشدد کی بازگشت تھمی بھی نہ تھی کہ ایک اور بیٹے نے باپ کو قتل ہی کردیا، کیا یہ سب کچھ یونہی ہو رہا ہے، آخر لوگوں میں اس قدر تشدد پسندانہ رویئے کیوں جنم لے رہے ہیں کہ وہ کائنات کی سب سے محرم ہستیوں کی جان لینے سے بھی نہیں چوک رہے، اور ان واقعات کا تواتر ایک بہت ہی خطرناک صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ہم اگر بنظر غائر ہی دیکھیں پریشان کن حد تک تعداد میں والدین کی تحقیر اور بے عذتی کے واقعات مشاہدے میں آئیں گے، عمومی طورپر یہ ہوتا تھا کہ والدین جب بوڑھے ہوجاتے تھے اور اولاد کمانے لگ جاتی تھی تو پھر وہ اپنا رویہ بدل لیتی تھی مگر اب تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے، نہ کماتے ہیں نہ خدمت کرتے ہیں مگر تشد د و بد اخلاقی میں جیسے Phd کیا ہوا ہوتا ہے۔

اور کمال حیرت امر یہ ہے کہ اپنے کئے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے، لہذا یہ برائی ہمارے معاشرے میں بہت تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے اور بہت ہی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، جو اور دوسری ناکامیوں کے مقابلے میں کہیں بڑی ناکامی کا سبب ہوگی۔ دل اس وقت دھک سے رہ گیا کہ آخر یہ کیسا بیٹا ہوگا جو اپنی سگی والدہ پر ظلم کرتا ہوگا، جب ہمسایہ کی ایک خاتون نے یہ انکشاف کیا کہ یہ سلسلہ تو کئی سال سے جاری ہے تو جیسے دل خون کے آنسو روپڑا کہ کیسا سخت دل انسان ہوگا کہ جس نے اسے اپنے جسم میں نو ماہ تک رکھا، پھر اس کی بے بسی کے ایام میں دن رات انتھک خدمت کی، کھانے پینے، پہنے اوڑھنے، رہنے اور سونے کے انتظام کئے بار بار دنیا سے بچا کر اپنی آغوش میں پناہ دی ہوگی، وہ شفیق ماں جو اپنی اولاد کے لئے اپنا کلیجہ تک نکال کر دینے کو ہر گھڑی تیار رہتی ہوگی آج اسی بدبخت کے تشدد کا شکار ہے،
یا یہ وہی باپ ہے نا جو مشکلات سے لڑ لڑ کر انہیں آسائیشیں مہیا کرتا رہا، انہیں خوشیاں فراہم کرنے کیلئے اپنی عذت نفس تک کو مجروح ہونے دیتا رہا، وہ جو دنیا بھر کی پریشانیوں کے آگے ہمیشہ ڈھال بنا رہا اور ان بدبختوں کی خوشیوں کا ضامن بنا رہا آج ان ہی عاقبت نااندیشوں کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گیا۔

مجھے یقین ہے کہ ان اعمال قبیحہ پر اللہ تعالی ان کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
بچے عموما والدین کے ساتھ کیوں برا رویہ اپناتے ہیں یا تو وہ دوسروں کی بلا ضرورت تقلید کر رہے ہوتے ہیں، یا انہیں گھرانے میں اپنا رعب دبدبہ قائم کرنا ہوتا ہے یا ان کے کچھ ایسے مقاصد ہوتے ہیں جو عام طور پر پورے ہونا ناممکن ہوتے ہیں۔ مگر ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی اخلاقی تربیت میں کمی کا رہ جانا ہے، یہ بچے بے توجہی اور نظر انداز کئے گئے ہوتے ہیں، گھر کے ماحول میں دین کا نہ ہونا ہے، گھر میں بڑے پیمانے پر اخلاقی بے قدری ہو رہی ہو تب بھی اسی قسم کے رویئے جنم لیتے ہیں، بری صحبت بھی ایک ایسا عنصر ہے جو لوگوں کو اس فعل قبیحہ کی جانب راغب کرنے ایک سبب ہوسکتا ہے، ساتھ ساتھ فحش لٹریچر، بری صحبت، فلمیں اور گھر کی تربیت کا فقدان بھی اس رواج کو معاشرے میں پروان چڑھانے کے اسباب ہیں۔


کیونکہ بچے وہی سیکھتے ہیں جو اپنے والدین کو کرتے دیکھتے ہیں، تو جیسا ماحول ، جیسی تربیت ان کو گھر سے ملے گی وہی وہ اپنے تجربے کی روشنی میں استعمال کریں گے۔ اگر گھر کے اندر باہمی احترام کا ماحول نہیں ہے والدین ہر وقت کے اختلافات کا شکار ہیں تو اولاد کے لئے بہت آسان ہوگا کہ وہ بے راہ روی کا شکار ہو جائے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اپنے گھر کے ماحول کو ادب و احترام والا بنائیں بچوں کی تربیت کا خاص اہتمام کریں، تربیت کے حصول کیلئے اسکول و مدرسہ پر انحصار نہ کریں۔

نہ صرف اپنے بچوں کی بلکہ دوسروں کے بچوں کو بھی اس میں شامل رکھیں کیونکہ مل جل کر ہی مثالی کردار و معاشرے کی تربیت و تعمیر ہو سکتی ہے۔ یہ ہم سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے محلے، رشتہ داروں اور اردگرد کے بچوں پر نگاہ رکھیں اور جب بھی موقع ملے ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں جو انہیں اخلاقی تربیت کی طرف راغب کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :