
جگاڑ معاشرے کا خون چوسنے والی جونک
بدھ 7 اکتوبر 2020

زعیم ارشد
جگاڑ کا حسن یہ ہے کہ اسے ہر زبان میں جگاڑ ہی کہا جاتا ہے لہذا کوئی بھی زبان بولنے والا ہو جگاڑ اس کے لئے اپنا اپنا سا لگتا ہے۔
(جاری ہے)
کہتے ہیں کہ پاکستان کے ایک بڑے انڈسٹریل گروپ نے ایک نئے یونٹ لگانے کے کام کا آغاز کیا، اس مقصد کیلئے مشینری جاپان سے خریدی گئی، جس کو لگانے کیلئے جاپانی ماہر انجینئرز پاکستان آئے جس نے مشینری کو لگا کر چالو کرنا تھا، پورے پروجیکٹ کے دوران بارہا جاپانی سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کریں ایسے مواقع پر ہر بار پاکستانی اسٹاف بس یہی کہتا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں کوئی نہ کوئی جگاڑ نکل آئے گا، اور ہوتا بھی ایسا ہی تھا ، جب جاپانی اپنے ملک واپس پہنچے تو پاکستانیوں سے بہت متاثر تھے انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستانی نہایت ہی تعلیم یافتہ اور ہنرمند لوگ ہیں ان کے پاس ایک اضافی تعلیم (Qualification)ہے جسے جگاڑ کہتے ہیں، ہمیں بھی اس ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا چاہئے تاکہ کام آسان اور جلدی ہو سکے۔ لہذا جب ان کے افسران نے پاکستانی یونیورسٹیز سے رابطہ کرکے جگاڑ کی تعلیم فراہم کرنے کی درخواست کی تو وائس چانسلر صاحب نے فرمایا کہ یہ ٹیکنالوجی منتقل (Transferable)نہیں کی جا سکتی۔ خیر یہ تو محض ایک لطیفہ ہے مگر یہ ہمارے قومی انداز فکر کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
ہمارے منہ جگاڑ کچھ اس طرح لگا ہے کہ اب بنا جگاڑ کے لگتا ہے کہ کام ہو ہی نہیں سکتا، لہذا اب حالت یہ ہے کہ ہم کامیابی کی کنجی جگاڑ کو سمجھ کر محنت کرنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت سے آہستہ آہستہ محروم ہوتے جا رہے ہیں اور اب یہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکا ہے کہ انفرادی سے قومی سوچ میں بدلتا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ اب محکمے جگاڑ کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ سرکاری دفاتر اس کی افزائش کی بہترین نرسریز ہیں جہاں اداروں کو بذریعہ جگاڑ عالمی سطح کی کارکردگی کے معیار کے حصول کی آرزو کی جا رہی ہوتی ہے۔ قومی سطح پر سنجیدہ مسائل کے حل اور حکمت عملی کے بجائے معاملات کو بذریعہ جگاڑ ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے۔
ملک میں جگاڑ کی غیرمعمولی مقبولیت و کامیابی کو دیکھ باربار یہ خیال دل میں آتا ہے کہ یہ قوم ترقی کے معاملے میں بھلا کیسے پھسڈی رہ گئی۔ کیونکہ چھت پر بجری چڑھانے سے لیکر بندے کے ٹوٹے یا اترے اعضاء چڑھانے تک ہمارے ہاں سب کچھ جگاڑ سے ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جگاڑ کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مفت مشورہ دے کر پیسوں میں جگاڑ کی سہولت فراہم کرنے کا کام کرتی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بندہ کسی سے مشورہ کئے بغیر خود اپنی جگاڑ بھی ایجاد کر سکتا ہے ۔
جگاڑ کی مقبولیت کی بنیادی وجہ مہنگے اور مشکل دور میں سستی سہولت فراہم کرنا ہے، یعنی کم خرچ بالا نشین ۔ جگاڑ کی کئی اقسام ہیں جن میں منفی بھی ہیں اور مثبت بھی۔ کسی نے سائیکل میں انجن لگا کر پیچھے ٹھیلا جوڑ لیا اور اس کو چلتی پھرتی دکان بنا لی یہ ایک مثبت جگاڑ کی قسم ہے۔ منفی جگاڑ کچھ ایسے ہوتے ہیں جیسے پڑوسی کے بجلی کے میٹر میں خفیہ کنڈا لگا لینا، ہر وقت گھر میں بجلی موجود ہو، تو مختلف فیڈرز سے چوری کے کنکشن بنا لینا ، ہسپتالوں میں موبائل فون کی ٹارچ میں آپریشن کردینا، چاہے مریض کی جان کو کتنا ہی خطرہ کیوں نہ ہو۔
کمال حیرت امر یہ ہے کہ ہمار ا ملک اور عوام اس قدر جگاڑ و ہونے کے باوجود معیشت ذوال پزیر اور عوام نا آسودہ کیوں ہیں۔ سچ پوچھیں تو جگاڑ کبھی بھی ایک معتبر حوالہ نہیں رہا، بلکہ چند پیسے بچانے کے چکر میں نہ صرف وقت بلکہ وسائل بھی بری طرح ضائع ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری ترقی کا پہیہ رک سا گیا ہے اور ہم اور جگاڑ اردگر د کی اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زعیم ارشد کے کالمز
-
باجے کی آزادی
پیر 23 اگست 2021
-
معاشرے پر اندھی تقلید کے مضمرات
بدھ 18 اگست 2021
-
انوکھے لاڈلے
جمعرات 1 جولائی 2021
-
اسمبلیز سیاسی دنگلوں کے اکھاڑے
پیر 21 جون 2021
-
معاشرے پر افواہ گردی و دشنام طرازی کے منفی اثرات
بدھ 16 جون 2021
-
کورونا عظیم انسانی بحران، عالمی مددگار تنظیم سازی کی ضرورت
بدھ 5 مئی 2021
-
مودی حکومت کا دھرا معیار
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
ہماری توجہ کے منتظر ویران ہوتے جنگل اور معدوم ہوتی جنگلی حیات
جمعہ 9 اپریل 2021
زعیم ارشد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.