جگاڑ معاشرے کا خون چوسنے والی جونک

بدھ 7 اکتوبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

انسانی زندگی میں زبر دست ترقی کا انقلاب پہیئے کی ایجاد کے بعد آیا، درمیان میں ایجادات ہوتی رہیں مگر وہ پہیہ کے زبردست اثرات کو معدوم نہ کرسکیں اور پہیہ مسلسل انسانی زندگی میں بدلاؤ اور آسانیاں پیدا کرنے کا مرکزی کردار بنا رہا، اس کے بہت بعد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے وہ دھوم مچائی کہ بیچارہ پہیہ بس گھوم کر ہی رہ گیا کہ واقعی اب لگتا ہے کہ جوڑ برابر کا پڑا ہے۔

مگر دور حاضر میں ایک نئے نظریہء ضرورت نے جنم لیا او ر سب کا پتہ کاٹ دیا، اب بیچارے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ مل کر سوچ رہے ہیں کہ اس کا کیا توڑ نکالا جائے، آخری خبریں آنے تک جگاڑ ہی کنگ آف دا رنگ کے سنگھاسن پر براجمان نظر آرہا ہے۔
جگاڑ کا حسن یہ ہے کہ اسے ہر زبان میں جگاڑ ہی کہا جاتا ہے لہذا کوئی بھی زبان بولنے والا ہو جگاڑ اس کے لئے اپنا اپنا سا لگتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ عام فہم اور عمومی بولا جانے والا کثیر المقاصد لفظ اپنی ذات میں بڑی معنویت اور افادیت رکھتا ہے۔ یعنی روایت سے ہٹنے کے باوجود یہ نہایت مقبول و مشہور ہے۔ کوئی بھی ایسا کام جو عام ایجاد، اوزار، ساز و سامان یا فارمولے کرنے سے قاصر ہوں بلکہ معذور ہوں وہ جگاڑ کے ذریعے ہو جاتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ پاکستان کے ایک بڑے انڈسٹریل گروپ نے ایک نئے یونٹ لگانے کے کام کا آغاز کیا، اس مقصد کیلئے مشینری جاپان سے خریدی گئی، جس کو لگانے کیلئے جاپانی ماہر انجینئرز پاکستان آئے جس نے مشینری کو لگا کر چالو کرنا تھا، پورے پروجیکٹ کے دوران بارہا جاپانی سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیا کریں ایسے مواقع پر ہر بار پاکستانی اسٹاف بس یہی کہتا تھا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں کوئی نہ کوئی جگاڑ نکل آئے گا، اور ہوتا بھی ایسا ہی تھا ، جب جاپانی اپنے ملک واپس پہنچے تو پاکستانیوں سے بہت متاثر تھے انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستانی نہایت ہی تعلیم یافتہ اور ہنرمند لوگ ہیں ان کے پاس ایک اضافی تعلیم (Qualification)ہے جسے جگاڑ کہتے ہیں، ہمیں بھی اس ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا چاہئے تاکہ کام آسان اور جلدی ہو سکے۔

لہذا جب ان کے افسران نے پاکستانی یونیورسٹیز سے رابطہ کرکے جگاڑ کی تعلیم فراہم کرنے کی درخواست کی تو وائس چانسلر صاحب نے فرمایا کہ یہ ٹیکنالوجی منتقل (Transferable)نہیں کی جا سکتی۔ خیر یہ تو محض ایک لطیفہ ہے مگر یہ ہمارے قومی انداز فکر کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
ہمارے منہ جگاڑ کچھ اس طرح لگا ہے کہ اب بنا جگاڑ کے لگتا ہے کہ کام ہو ہی نہیں سکتا، لہذا اب حالت یہ ہے کہ ہم کامیابی کی کنجی جگاڑ کو سمجھ کر محنت کرنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت سے آہستہ آہستہ محروم ہوتے جا رہے ہیں اور اب یہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرچکا ہے کہ انفرادی سے قومی سوچ میں بدلتا جا رہا ہے ، یہاں تک کہ اب محکمے جگاڑ کی بنیاد پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہیں۔

سرکاری دفاتر اس کی افزائش کی بہترین نرسریز ہیں جہاں اداروں کو بذریعہ جگاڑ عالمی سطح کی کارکردگی کے معیار کے حصول کی آرزو کی جا رہی ہوتی ہے۔ قومی سطح پر سنجیدہ مسائل کے حل اور حکمت عملی کے بجائے معاملات کو بذریعہ جگاڑ ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے۔
ملک میں جگاڑ کی غیرمعمولی مقبولیت و کامیابی کو دیکھ باربار یہ خیال دل میں آتا ہے کہ یہ قوم ترقی کے معاملے میں بھلا کیسے پھسڈی رہ گئی۔

کیونکہ چھت پر بجری چڑھانے سے لیکر بندے کے ٹوٹے یا اترے اعضاء چڑھانے تک ہمارے ہاں سب کچھ جگاڑ سے ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جگاڑ کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو مفت مشورہ دے کر پیسوں میں جگاڑ کی سہولت فراہم کرنے کا کام کرتی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بندہ کسی سے مشورہ کئے بغیر خود اپنی جگاڑ بھی ایجاد کر سکتا ہے ۔
جگاڑ کی مقبولیت کی بنیادی وجہ مہنگے اور مشکل دور میں سستی سہولت فراہم کرنا ہے، یعنی کم خرچ بالا نشین ۔

جگاڑ کی کئی اقسام ہیں جن میں منفی بھی ہیں اور مثبت بھی۔ کسی نے سائیکل میں انجن لگا کر پیچھے ٹھیلا جوڑ لیا اور اس کو چلتی پھرتی دکان بنا لی یہ ایک مثبت جگاڑ کی قسم ہے۔ منفی جگاڑ کچھ ایسے ہوتے ہیں جیسے پڑوسی کے بجلی کے میٹر میں خفیہ کنڈا لگا لینا، ہر وقت گھر میں بجلی موجود ہو، تو مختلف فیڈرز سے چوری کے کنکشن بنا لینا ، ہسپتالوں میں موبائل فون کی ٹارچ میں آپریشن کردینا، چاہے مریض کی جان کو کتنا ہی خطرہ کیوں نہ ہو۔


کمال حیرت امر یہ ہے کہ ہمار ا ملک اور عوام اس قدر جگاڑ و ہونے کے باوجود معیشت ذوال پزیر اور عوام نا آسودہ کیوں ہیں۔ سچ پوچھیں تو جگاڑ کبھی بھی ایک معتبر حوالہ نہیں رہا، بلکہ چند پیسے بچانے کے چکر میں نہ صرف وقت بلکہ وسائل بھی بری طرح ضائع ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری ترقی کا پہیہ رک سا گیا ہے اور ہم اور جگاڑ اردگر د کی اقوام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :