دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے

منگل 13 اکتوبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

گرمیوں کی ایک دوپہر اچانک ہی اس وقت ٹھنڈی ٹھار شام میں بدل گئی جب مرزا پاڑے میں اترنے والے کرائے داروں کے سامان کے ساتھ ایک نہایت ہی حسین و جمیل عورت نے بھی انٹری دی، محلے کے جو لوگ اب تک سامان سے مالکان کی غربت کے اندازے لگا رہے تھے یکایک ان کو اپنا آپ بہت ہی غریب اور تنگدست سا نظر آنے لگا، بھورے بال ، چمپئی رنگت اور دراز قد ، سڈول جسم کی مالک خاتون کی انٹری بالکل کچھ اس طرح تھی کہ ہر ایک کے دل میں بس یہی گانا بجنے لگا تھا کہ تو نے ماری انٹری اور دل میں بجی گھنٹی ٹن ٹن ٹن۔

محلے کے خوش فکرے تماش بین ابھی خاتون کی سحر انگیزی سے باہر نکلے بھی نا تھے کہ وہ ناز و انداز سے چلتی ہوئی ان ہی کی طرف آگئی اور تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا نام گل افشاں ہے مگر میں بھابھی کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہوں۔

(جاری ہے)

میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے بچے کوئی نہیں یہ بیچارے دیور ہیں ساتھ جو میری مدد کرتے ہیں، یہ سنتے ہی سب کے دلوں میں بس ایک ہی خیال مشترکہ طور پر آیا کے دینے والا جب بھی دیتا ، دیتا چھپر پھاڑ کے۔


جس دن سے اس شعلہ جوالہ نے محلے میں گھر کرائے پر لیا تھا محلے کے لڑکے بالوں کے ساتھ ساتھ پکی عمروں کے بابوں کے سروں میں بھی ایک ہی دھن سوار تھی کہ وہ حسینہء عالم بس لمحہ بھر کو نظر التفات سے نواز دے، اس فراق میں سب ہی بولائے بولائے پھر رہے تھے اور اس کی توجہ حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے ہر حربہ آزمانے پر دل و جان سے محنت کر رہے تھے۔


وہ جتنی حسین تھی اس کہیں زیادہ عیار تھی لہذا بہت ہی جلد وہ محلے میں جگت بھابھی کے نام سے مشہور ہوگئی، محلے کا ہر مرد اس پر فریفتہ اور عورتیں متنفر نظر آتی تھیں۔ وہ بہت اچھے سے حالات کو بھانپ چکی تھی اور جیسا جس پر داؤ چل رہا تھا آزمائے لے رہی تھی۔ چالاک اتنی تھی کہ ایک سے ملاقات کی بھنک بھی دوسرے کو نہیں پڑنے دے رہی تھی۔ سب کو یہی سمجھایا ہوا تھا کہ اگر تمہارے منہ سے ہماری ملاقات کی بھاپ بھی نکلی تو تم سے زندگی بھر کے لئے ناراض ہو جاؤں گی۔

نوعمر لڑکے تو اس کیفیت سے پہلی بار گزر رہے تھے مگر وہ بابے جو عمر کی بھٹّی میں خوب پک چکے تھے اور درجنوں عشق کی نیٹ پریکٹس کرچکے تھے جن کی روداد وہ اکثر رات کو محلے کے کسی چبوترے پر بیٹھ کر ان ہی لڑکوں کو سنایا کرتے تھے ، اس بار تو بالکل ہی پگلا گئے تھے، اور بھابھی کیلئے کچھ بھی کریگا کے فارمولے پر عمل پیرا نظر آرہے تھے۔
اور وہ کسی عیار لومڑی کی طرح اپنے ہر شکار حال سے مکمل واقف تھی، کس سے پان منگانا ہے اور کس سے حلوہ پوری اور کون سبزی اور گوشت لائے گا اسے خوب معلوم تھا۔

زرا دن اور گزرے تو پکی عمروں کے بابوں کا اس کے گھر آنا جانا شروع ہو گیا، وہ بہت دیر دیر تک اس کے گھر میں رہتے اور جب گھر سے نکلتے تو چہرے پر ایک عجیب فاتحانہ مسکراہٹ لئے ہوتے، یہ بات لڑکوں کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ لہذا بابوں اور لڑکوں کے دو دھڑے بن گئے اور بھابھی چاہتی بھی یہی تھی۔ دونوں دھڑے اجتماعی رقابت کی آگ میں جل رہے تھے۔ اور دل کے ہاتھوں کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔


وہ نہایت ہی شاطر و عیار تھی زرا وقت اور گزرا تو اس نے اپنا دائرہ کار کچھ اور وسیع کرنا شروع کردیا اور ان دونوں دھڑوں کے ذریعے قریبی بازار میں تعارف حاصل کرنا شروع کردیا، شکل و صورت تو ایسی تھی ہی کہ ہر ایک کا دل موہ لے لیتی تھی اوپر سے ادائیں بھی کچھ کم قاتل نہ تھیں۔ لہذا جلد ہی بازار میں وہ دھوم مچی کے لوگوں کے پاس کوئی اور موضوع ہی نہ رہا، محلے سے بازار تک میلا لگا ہوا تھا، جس میں ہر شخص اکیلا تھا اور اکیلا ہی اپنے کام میں لگا رہنا چاہتا تھا۔

کچھ وقت اور گزرا لوگوں کی طلب اور تڑپ اور بڑھی تو اس نے اس موقع کو کیش کرانے کی ٹھانی، اور اپنے التفات کی قیمت بڑھادی، اب وہ پان اور حلوہ پوری سے نہیں بہلتی تھی۔ بلکہ اب مہنگے پرفیومز اور برینڈڈ کپڑے اگر تحفے میں ملتے تھے تو بات بنتی تھی۔
پھر ایک صبح کا سورج کچھ ایسے طلوع ہوا کہ پورے محلے او ر بازار میں جیسے کہرام مچ گیا، ہر شخص دوسری بار بولایا بولایا پھر رہا تھا۔

ماجرہ کچھ یوں ہوا کہ محلے کا ایک لڑکا صبح صبح ناشتہ لسّی لے کر بھابھی کے گھر پہنچا، آواز دینے پر جواب نا پایا تو دروازہ بجایا، دروازہ کھلا تھا اندر گہرا سناٹا تھا، ڈرتے ڈرتے جھانک کر دیکھا تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا، کہ اندر تو ایک کیل بھی نہ تھی۔ اسے یقین نہ آیا باہر آکر دوبارہ تصدیق کی تو یہ جان پایا کہ یہ کوئی خواب نہیں اٹل حقیقت ہے، بھابھی محلے دارو ں اور بازار کے دکانداروں کے ساتھ ہاتھ کر گئی تھیں۔

ہر شخص خاموش دل گرفتہ و بے چین تھا کہ اس خاموشی کو محلے کے ایک غریب ریڑی بان شرفو نے روتے ہوئے توڑا کہ اس کا بڑا نقصان ہوگیا ہے اس نے اپنے گھر کی ہر چیز بیچ کر پیسے بھابھی کو دے دیئے ہیں اب تو جیسے آہ و بکا کا سیلاب امڈ آیا، ہر شخص اپنے لٹنے کی داستان سنا رہا تھا۔ کسی سے پیسے ادھار لئے، کسی سے مال ادھار لیا، بازار میں کسی دکاندار سے فرج لیا تو کسی سے LCDبڑی والی لی تھی، اب بابے ناصرف مقروض تھے بلکہ سامان دلوانے کے ضمانتی بننے پر الگ پھنسے ہوئے تھے۔

ایک غدر مچا ہوا تھا ہر شخص دھائی دے رہا تھا کہ ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک ماموں بنادیا گیا تھا اور ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا تھا، بس آسروں اور امیدوں پر ماموں بنتے رہے۔
جو بابے دیر دیر تک گھر میں وقت گزارا کرتے تھے پھٹ پڑے اور اپنی داستان غم سنانے لگے کہ وہ جو ہم پسینے میں شرابور گھر سے نکلتے تھے ، اور فاتحانہ سب کو دیکھتے تھے وہ سب دھوکہ تھا، بھائیوں وہ پسینے تو جھاڑو برتن اور کپڑے دھونے کی وجہ سے آتے تھے ورنہ تو اس ظالم نے تو کبھی پاس بیٹھ کر بات تک نہ کی تھی۔ ہر شخص اپنے غم کی داستان سنا رہا تھا اور بھابھی اگلے شکار کی تلاش میں اگلی شکار گاہ کی جانب جا چکی تھی۔
اسے تو قتل کرنا اور تڑپانا ہی آتا ہے، گلا کس کا کٹا کیونکر کٹا تلوار کیا جانے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :