پاکستان میں اساتذہ کی ابتر حالت

بدھ 24 مارچ 2021

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

اشفاق احمد ایک بار کا قصّہ سناتے ہیں کہ وہ روم میں تھے اور ٹریفک کی ایک غلطی پر سارجنٹ جو وہاں بڑا افسر مانا جاتا ہے نے ان کا چالان کر دیا، وہ مصروفیت کی وجہ سے چالان جمع نہ کراسکے تو عدالت سے بلاوہ آگیا، جب اشفاق احمد عدالت میں پیش ہوئے، وہ کٹہرے میں کھڑے تھے کہ، جج نے ان سے ان کا نام پوچھنے کے بعد معلوم کیا کہ انہیں آنے میں دیر کیوں ہو گئی، تو اشفاق احمد نے جواب دیا کہ مصروفیت کی وجہ سے دیر ہو گئی، تو جج نے کہا کہ آپ کیا کرتے ہین، تو اشفاق احمد نے کہا کہ استاد ہوں، کہتے ہیں کے میں نے جیسے ہی کہا کہ میں ایک استاد ہوں، جج زور سے بولا Here is a teacher in the court اور یہ کہتے ہوئے جج اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا، ساتھ ساتھ عدالت میں موجود سب لوگ بھی کھڑے ہو گئے، جج نہایت موودب لہجے میں معذرت کر رہا تھا، اس نے ان کا لائیسنس بھی واپس کیا اور چالان کی رقم بھی معاف کردی۔

(جاری ہے)

اشفاق احمد کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کی ترقی کا راز پالیا تھا، جن معاشروں میں استاد کی یہ قدر و منزلت ہو انہیں اخلاقی و معاشرتی ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
علم اللہ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی افادیت سے کوئی بھی کسی بھی دور میں انکار نہیں کرسکا، ہزاروں سال سے انسان علم حاصل کرنے کی جستجو میں مصروف ہے ۔ اور جو ایسا نہیں کر رہے وہ پسماندگی اور زلت کا شکار ہیں۔


درس و تدریس یا تعلیم و تعلّم انسانی معاشرے کا ایک نہایت ہی اہم جز ہے، علم حاصل کرنے کی جستجو اور اس کی اہمیت ہر انسان کے لاشعور میں ہمیشہ پنہاں رہتی ہی ہے، لہذا علم حاصل کرنے کی بنیادی ضرورت و خواہش کو پورا کرنے کیلئے انسان جیسے جیسے ترقی کرتا گیا وہ مختلف علوم و فنون کی اعلی سے اعلی درگاہیں تعمیر کرتا چلا گیا۔ دراصل انسانیت کی بقا و ترقی کا انحصار قدیم ادوار سے آج تک استاد کا مرہون منت رہا ہے۔

پاکستان کا تعلیمی نظام بہت بری طرح تنزلی کا شکار ہے ، جس کی یوں تو بے شمار وجوہات ہیں مگر اس کی بنیادی وجہ اساتذہ کے اہم ترین کردار کو مجرمانہ حد تک نظر انداز کیا جانا اور اہمیت نہ دیا جانا ہے۔ پاکستان میں اساتذہ کی کارکردگی نہایت ہی غیر اطمینان بخش اور غیر موثر ہے جس کی وجہ اساتذہ کی مراعات و سہولیات کا فقدان بھی ہے ، ان کی کم تنحواہیں، کم تعداد میں اساتذہ کا ہونا، کام کا زیادہ بوجھ اور مضامین پر پوری دسترس نہ ہونا بھی ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے، جو انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے، اور ان کی کارکردگی میں گراوٹ کا سبب بنتا ہے۔


استاد معاشرے کا معمار ہوتا ہے، اور معاشرے کی ترقی و خوشحالی میں اس کا کردار نہایت اہم اور قیمتی مانا جانا چاہئے ۔ بچوں کو علم کی دولت سے سرفراز کرنے والے اساتذہ معاشرے میں والدین سے زیادہ قدر و منزلت کے مستحق ہوتے ہیں، ایک اچھا معلم کسی شمع کی مانند ہوتا ہے جو خود جل کر دوسروں کی زندگیاں روشن کر رہا ہو تا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک درمیانے درجے کا استاد سکھاتا ہے، ایک اچھا استاد تشریح کرکے ذہن نشین کراتا ہے، ایک عمدہ استاد عمل کر کے سکھاتا ہے، جبکہ ایک بے مثال و لاجواب استاد اپنے شاگردوں کے اذہان میں پنہاں ہو جاتا ہے، وہ ان کیلئے زندہ مثال بن جاتا ہے۔

ایک اعلی درجہ کے استاد کیلئے ضروری ہے کہ وہ شعبہ تعلیم کی تمام پیشہ ورانہ ضرورتوں سے پوری طرح نہ صرف آگاہ ہو بلکہ بہرمند اور تربیت یافتہ بھی ہو۔ تاکہ وہ اعلی معیار کی تعلیم کی ترویج میں مثبت کردار ادا کر سکے ۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ طبقہ سب سے زیادہ پسا ہوا اور نظرانداز کیا ہوا ہے ، انہیں کبھی بھی ان کے قیمتی کام کی نسبت سے نہ معاشرے میں مقام ملا نہ عزت و توقیر ملی اور نہ ہی سراہا گیا، جیسا کہ پرانے وقتوں میں اساتزہ کی تکریم کی جاتی تھی معاشرہ ان کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔

ایسا دیکھا گیا ہے کے اسقدر نا مساعد حالات کے باوجود بے شمار عمدہ اور محنتی اساتذہ موجود ہیں مگر ان کی محنت اور لگن کا ان کو کبھی بھی صلہ نہیں ملتا لہذا وہ بھی مایوسی کا شکار ہوکر اپنی کارکرگی خراب کر بیٹھتے ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ تیس سال سے اساتذہ مسلسل تنزلی کا شکار ہیں، اب اساتذہ بدترین معاشی بدحالی کا شکار ہیں، ہر آئے دن آپ انہیں پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں، ان کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔

یہ مظاہرے کئی کئی دن جاری رہتے ہیں، اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ارباب اختیار ان کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتے ، اگر ہم شروع میں بیان کئے گئے اشفاق احمد کے واقعہ کے تناظر میں دیکھیں تو ہم اپنے معمار ملّت کی کس کس طرح تذلیل کر رہے ہیں۔ جو نہایت افسوسناک اور دل گرفتہ کردینے والی بات ہے۔
پاکستان میں قریب 22 ملین اساتذہ درس و تدریس کے شعبہ سے وابسطہ ہیں جو 131,000 سرکاری اور 203,800 غیر سرکاری اسکولز میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔

قریب سات ملین 7 million اساتذہ سرکاری اسکولز میں اور پندرہ ملین 15 million غیر سرکاری اسکولز میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ مگر نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سرکاری اسکولز کے 49 فیصد اور پرائیوٹ اسکولز کے 86 فیصد اساتذہ درس و تدریس کے حوالے سے غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، انہوں نے تدریس کی کوئی رسمی تربیت حاصل نہیں کی ہوئی ہوتی۔


جس کے منفی اثرات تعلیم کے عمومی معیار پر پڑ رہے ہیں، اور طالب علموں کی وہ کھیپ تیار نہیں ہو پارہی جو ملک و ملّت کی قسمت بدلنے کے ہنر سے آراستہ ہوتی ہے۔ غیر تربیت یافتہ اساتذہ نصاب کے متعلق مکمل معلومات نہیں رکھتے، نہ انہیں طالب علموں کو جانچنے پرکھنے کا تجربہ ہوتا ہے، نہ غیر نصابی سرگرمیوں کی معلومات ہوتی ہیں، لہذا جو مدبر، دانشور، شعراء اور ادیب درسگاہوں سے نکلا کرتے تھے وہ نہ کے برابر ہی نکل پاتے ہیں۔

یہی سب کچھ تکنیکی اور پیشہ ورانہ درسگاہوں میں ہو رہا ہے۔
ہماری حکومت وقت سے اور عوام لناس سے یہ التجاء ہے کہ تعلیم ہماری اوّلین ترجیحات میں ہونا چاہئے، اور تعلیم کے شعبہ سے منسلک افراد بالخصوص اساتذہ کرام کی فلاح و بہبود کیلئے خاص توجہ اور اہتمام کی اشد ضرورت ہے، اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ یہ تمام اقدامات وقتی نہ ہوں بلکہ مستقل ہوں، اب کوئی حکومت آئے کوئی جائے تعلیمی اداروں اور ان سے منسلک لوگوں کے کام نہیں رکنا چاہئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :