تحریکِ اعتماد اور عدم اعتماد کی تاریخ!

بدھ 10 مارچ 2021

Zain Kaleem Khan

زین کلیم خان

1973 کے آئینِ پاکستان میں ساتویں ترمیم 16 مئی 1977 کو کی گئی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنی جمہوری حکومت کے اختتام سے ایک مہینہ پہلے اس ترمیم کو پارلیمنٹ میں لائے جو ایوان میں منظور کر لی گئی۔ آئین کی اس ترمیم کے مطابق کسی بھی رکن اسمبلی کو وزیراعظم بننے کیلئے ایوان میں موجود باقی ارکان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔

اسی طرح ترمیم میں یہ بھی  بیان کیا گیا کہ اگر وزیراعظم ایوان کے بقیہ ارکان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو صدر پاکستان اسمبلیاں تحلیل کر کے وزیراعظم کے چناؤ کے لیے قومی انتخابات کا آئینی حکم دیں گے۔
 قومی اسمبلی میں  ارکان کی کل تعداد 342 ہوتی ہے۔ وزیراعظم کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے ارکان کی اکثریت یعنی 172 ووٹ درکار ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اگر وزیراعظم اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد کھودے تو صدرِ پاکستان اسمبلیاں تحلیل کردیتے ہیں۔
دوسری طرف تحریک عدم اعتماد، ارکان کا حکومت کے خلاف بیانیہ ووٹ ہوتا ہے. یعنی یہ تحریک حکومت کے خلاف ہوتی ہے. پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے اسپیکر،  ڈپٹی اسپیکر، چیئرمین سینیٹ، وائس چیئرمین سینیٹ اور وزیراعظم کے خلاف پیش کی جاسکتی ہے. اگر اسمبلی میں موجود ارکان کی اکثریت وزیراعظم کے خلاف ووٹ ڈالے تو اس صورت میں وزیراعظم نااہل ہو جاتا ہے اور چناو کے لئے دوبارہ الیکشنز کروائے جاتے ہیں.
پاکستان کی تاریخ میں اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد کا استعمال کئی بار کیا گیا. پارلیمانی تاریخ میں کم از کم 3 کامیاب اور 5 ناکام تحریک عدم لائی گی.
کامیاب تحاریک میں سپیکرز اسمبلی کے عدم اعتماد کا شکار ہوئے۔

اور ان کی جگہ نئے اسپیکرز کا انتخاب کیا گیا۔ ایسا دو بار وفاق میں اور ایک بار صوبائی اسمبلی میں ہو چکا ہے۔
اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لئے اسمبلی کے 20 فیصد ارکان کی رضامندی ضروری ہے ۔ تحریک عدم اعتماد میں منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کے لئے ووٹنگ کا طریقہ اس طرح ہوتا ہے کہ  اسمبلی میں دو لابیاں بنائی جاتی ہیں۔ ایک حصے میں اسمبلی کے وہ ارکان بیٹھتے ہیں جو وزیراعظم کے حق میں ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ ارکان ہوتے ہیں جو وزیر اعظم کے خلاف ہوں۔


پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیراعظم کے خلاف اب تک صرف ایک بار تحریک عدم اعتماد لائی گی۔ یہ تحریکِ عدمِ اعتماد نومبر 1989 میں اپوزیشن لیڈر غلام مصطفی جتوئی اُس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف لائے تھے جو ناکام رہی۔
 اسی طرح جنوری 2018 میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثناءاللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی جو اس طرح کامیاب رہی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان، ووٹنگ کے عمل سے پہلے ہی مستعفی ہوگئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :