قیدی نمبر 650، ڈاکٹر عافیہ صدیقی!

پیر 22 مارچ 2021

Zain Kaleem Khan

زین کلیم خان

افغانستان میں قائم بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں۔ عافیہ پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ہیں جو 1972 میں پیدا ہوئیں۔ پاکستان میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عافیہ صدیقی 1990 میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے  سٹوڈنٹ ویزہ پر امریکہ گئیں۔ 4 سال سے بھی کم عرصے میں عافیہ صدیقی نے ایم آئی ٹی (MIT) اور Brandies University سے نیورو سائنسز میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی.  عافیہ صدیقی اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ میں ہی مقیم ہوگئیں۔

عافیہ Al_khair Refuge center اور Muslim student Association میں بطور رضاکار کام کرنے لگیں۔  یہ دونوں امریکہ میں موجود مدتی اور خیراتی ادارے ہیں۔ عافیہ اپنا زیادہ تر وقت خیراتی کاموں میں گزارتی اور مسلمان ممالک جیسا کہ بوسنیا اور افغانستان میں جہاد کی بہت بڑی حامی تھی۔

(جاری ہے)


مارچ 2003 عافیہ صدیقی کراچی میں تھیں جہاں انہیں تین بچوں سمیت اغوا کر لیا گیا۔  عافیہ صدیقی پر الزام لگایا گیا کہ عافیہ کا دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے نہ صرف تعلق ہے بلکہ وہ اس تنظیم کا باقاعدہ حصہ ہیں اور بہت سے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل رہی ہیں۔

اس الزام میں کتنی حقیقت ہے؟ کیا واقعی عافیہ صدیقی دہشت گردی میں ملوث ہیں یا پھر یہ سب من گھڑت الزامات ہیں؟ عافیہ صدیقی کی اغوإ کاری میں کن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں شامل ہیں اور اغوإ ہونے کے بعد عافیہ کے ساتھ کیا ہوا؟
امریکہ میں9/11 حملوں کے بعد عافیہ صدیقی ایک بار پاکستان آکر واپس امریکہ چلی گئیں اور عافیہ کی ان کے شوہر امجد خان سے علیحدگی ہو گئ۔

اس وقت عافیہ کراچی میں مقیم تھیں جب انہیں تین بچوں سمیت کراچی سے اغوا کر لیا گیا۔
عافیہ صدیقی کی اغوا کاری کا واقعہ ان کے دوسرے شوہر عمار البلوچی کے چچا خالد شیخ محمد کی پاکستان میں گرفتاری کے کچھ ہی عرصے بعد پیش آیا.
خالد شیخ محمد پاکستانی اسلامی جنگجو ہے جسے گیارہ ستمبر کے حملوں کا مبینہ چیف پلانر سمجھا جاتا ہے.
9/11 کمیشن رپورٹ میں خالد شیخ محمد کو 9/11 حملوں کا بنیادی معمار قرار دیا گیا جسے CIA اور ISI نے مارچ 2003 میں راولپنڈی سے گرفتار کیا تھا.
خالد شیخ نے جیل میں تفتیش کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام لیا اور الزام لگایا کہ عافیہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی خبررساں اور معاون ہیں. اس الزام کے بعد CIA نے عافیہ صدیقی کو (FBI Seeking information _ Terrorism List)  میں ڈال دیا۔

اس Terrorism List میں عافیہ صدیقی واحد خاتون تھیں اور اسی دوران عافیہ صدیقی کو بچوں سمیت پاکستان سے اغوا کیا گیا۔
اغوا کے بعد پانچ سال تک عافیہ کی کوئی خبر نہ ملی۔ پانچ سال بعد عافیہ غزنی (افغانستان) میں دوبارہ نمودار ہوئیں۔ انہیں افغان پولیس نے قید کر رکھا تھا جہاں امریکی سکیورٹی ایجنسی FBI ان سے تفتیش کر رہی تھی۔ جیل کے دوران عافیہ صدیقی نے FBi کو بتایا کہ وہ روپوش ہوگئیں تھی لیکن بعد میں اپنی گواہی کو مسترد کرتے ہوئے بیان دیا کہ انہیں اغوا کر کے قید میں رکھا گیا.
عافیہ صدیقی کے حامیوں کا یہ ماننا ہے کہ انہیں امریکی فوج نے سنگین قیدی کے طور پر بگرام جیل میں رکھا مگر امریکی حکومت اس الزام سے انکار کرتی ہے.
امریکی اور افغان فورسز کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے کہ جب عافیہ غزنی میں قید کی گئی تو  پولیس نے عافیہ کی ملکیت سے (Sodium Cyanide) کے علاوہ کچھ ضروری نوٹس اور ڈاکومنٹس حاصل کیے جن کی مدد سے عافیہ Bombs بنا رہی تھی۔

پولیس کے مطابق عافیہ سے ایسی دستاویزات برآمد ہوئیں جس میں ایسی مشینوں کو بنانے کی ہدایات تھیں جو امریکی ڈرونز گرا سکیں۔  اس کے علاوہ عافیہ سے کچھ بڑے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے دستاویزات بھی حاصل کی گئیں.
گرفتاری کے اگلے ہی دن عافیہ کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا گیا۔ امریکی تفتیشیوں کا یہ کہنا ہے کہ عافیہ نے پردے کے پیچھے سے رائفل پکڑی اور امریکی فوجیوں پر گولیاں برسائیں لیکن عافیہ اس الزام کو مسترد کرتی ہے ۔

عافیہ کا کہنا ہے کہ وہ صرف سپاہیوں کو دیکھنے کے لیے اٹھیں اور ان سپاہیوں میں سے کسی نے مجھ پر گولی چلا دی۔
زخمی عافیہ کو بگرام ائر بیس میں علاج کی سہولت دی گئی اور پھر انہیں امریکہ لے جایا گیا ۔ عافیہ پر امریکی فوجیوں کے قتل اور مسلح حملے کے الزامات تھے اور انہی الزامات پر عافیہ کو نیویارک فیڈرل کورٹ (New York Fedral Court) میں پیش کیا گیا۔


 نفسیاتی تشخیص اور علاج کے بعد  جج نے عافیہ صدیقی کو باقاعدہ ٹرائل (Trail) کے لئے فٹ (Fit) قرار دیا۔ عدالت میں سماعت کے دوران عافیہ نے غراتے ہوئے کئی بار عدالتی کاروائی میں مداخلت کی جس پر انہیں بہت بار کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔
 فروری 2010 میں جوری (Jury) نے عافیہ پر لگے الزامات کی سزا سنائی۔
 پراسیکیوشن  نے دلائل دیے کے عافیہ کو عمرقید ہونی چاہئیے جب کہ عافیہ کے وکیل نے  12 سال قید کی  سزا دینے کی درخواست کی کیونکہ وہ ذہنی بیمار بن چکی تھیں ۔

عافیہ کے وکیل کے مطابق عافیہ پر گولی چلانے کے الزامات ہیں اور ان پر دہشت گردی سے جڑے کسی بھی جرم کے الزامات نہیں۔
اس کیس کے آغاز سے اس کے ٹرائل تک بہت سے بین الاقوامی ادارے جن میں Human rights institutions  بھی شامل ہیں، نظر رکھے ہوئے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل Amnesty) International) نے اس ٹرائل کو مکمل شفاف قرار دیا۔
 چار برطانوی پارلیمنٹرینز (Parlimantarians) نے امریکی صدر براک اوباما (Barak Obama) کو خط لکھتے ہوئے اس گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا. ان پارلیمنٹیرینز نے عافیہ صدیقی کی گرفتاری کو  امریکی آئین میں چھٹی ترمیم کی خلاف ورزی قرار دیا۔

ان چار برطانوی  پارلیمنٹیرینز (Parlimantarians) میں لارڈ احمد، لارڈ شیخ، لارڈ پٹیل اور محمد سرور شامل ہیں۔ اُس وقت کے برطانوی پارلیمنٹیرین محمد سرور پاکستان میں صوبہ پنجاب کے موجودہ گورنر ہیں۔
عافیہ صدیقی کے بہت سے حامی بشمول کچھ بین الاقوامی(Human Rights Organization)  دعویٰ کرتے ہیں کہ عافیہ صدیقی انتہا پسند نہیں تھیں۔ ان کو اور ان کے بچوں کو غیر قانونی طور پر اغوا کیا گیا اور روپوشی کے پانچ سال کے دوران  پاکستانی یا امریکی خفیہ ایجنسی یا دونوں ممالک نے مل کر عافیہ کو غیر قانونی طور پر قید میں رکھا۔ جہاں انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ پاکستانی اور امریکی حکومتیں اس طرح کے کے تمام دعوؤں کو مکمل مسترد کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :