سینیٹ کی تاریخ اور الیکشن فارمولا!

جمعرات 4 مارچ 2021

Zain Kaleem Khan

زین کلیم خان

دوستو پاکستان (Bicameral) دو ایوانی ریاست ہے۔ ایوانِ زیریں یعنی lower House ہے، جسے قومی اسمبلی کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا ایوان، ایوانِ بالا یعنی Upper House ہے جسے سینیٹ کہا جاتا ہے.
 یہ دونوں ایوان مل کر پاکستان کی قانون سازی کرتے ہیں۔ ان دونوں ایوانوں میں بیٹھنے والے اراکین کو پارلیمنٹیرینز  (Parliamentarians) کہا جاتا ہے۔
مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ میں کل ارکان کی تعداد 446 ہے ۔

قومی اسمبلی میں بیٹھنے والے اراکین کو ایم این ایز (MNAs) کہتے ہیں جن کی تعداد 342 ہے جبکہ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں بیٹھنے والے اراکین کو سینیٹرز کہا جاتا ہے جن کی کل تعداد 104 ہوتی ہے۔
ان دونوں ایوانوں میں بیٹھنے والے اراکین کا چناؤ مختلف ہے. ایسا کیوں  ہے؟
پاکستان 1947 میں وجود میں آیا۔

(جاری ہے)

26 سال بعد پاکستان کو دوسری قانون ساز اسمبلی، سینٹ  کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سینیٹ کے اراکین کا چناؤ کس فارمولے کے تحت ہوتا ہے؟
ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا دونوں ایوانوں کا چناؤ مختلف ہے ۔

ایوانِ زیریں کے ارکان یعنی MNAs کا چناؤ جنرل الیکشنز میں  عوام کرتے ہیں.
 جو امیدوار اپنے حلقے میں باقی تمام مدمقابل امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ الیکشنز جیت کر  حلقے میں عوام کی  نمائندگی کے لیے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی کا رکن بن جاتا ہے. لیکن سینیٹ کا طریقۂ انتخاب اس سے بالکل مختلف ہے۔
ریاست پاکستان مختلف یونٹوں یعنی صوبوں پر مشتمل ہے۔

وجود میں آنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کہ ان صوبوں کو نمائندگی کے یکساں حقوق کیسے دیے جائیں، بظاہر یہ ناممکن سا تھا کیونکہ ان تمام صوبوں میں آبادی کا تناسب بالکل مختلف ہے.
گیارہ کروڑ کی آبادی پر مشتمل  صوبہ پنجاب کی قومی اسمبلی میں کل 183 سیٹیں ہیں جبکہ ایک کروڑ 30 لاکھ کی آبادی پر مشتمل صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی میں صرف 17 سیٹیں ہیں، یعنی کوئی بھی سیاسی پارٹی صرف پنجاب سے الیکشن جیت کر  پورے پاکستان کی نمائندگی اور قانون سازی با آسانی کر سکتی ہے.
یکساں نمائندگی کا یہ مسئلہ پہلے 26 سال  تک جاری رہا. 1973 کے آئین میں میں اس مسئلہ کا حل نکالتے ہوئے پارلیمانی نظام کو (bicameral legislature) میں بدلا گیا.
اب قومی اسمبلی کے ساتھ دوسرا ایوان، سینٹ متعارف کروا دیا گیا تاکہ یکساں نمائندگی کے اس مسئلہ کو  ہمیشہ کے لئے ختم کیا جا سکے۔


 سینیٹ کو متعارف کروانے کا مقصد تھا کہ ہر صوبے میں سے لوگوں کی برابر تعداد اس ایوان کا رکن بنیں گے تاکہ تمام صوبوں کو قانون سازی کے لیے یکساں حقوق فراہم ہوں۔
جب ایوان بالا کو بنایا گیا تو اس کے اراکین کی کل تعداد 45 تھی، 1973 میں یہ تعداد 63 ہوگئی اور 1985 میں یہ تعداد 87 تک جا پہنچی، پرویز مشرف کے دور حکومت میں اس تعداد کو  بڑھا کر 100 کر دیا گیا. 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئین میں اٹھارویں ترمیم  (18th Amendment) کرتے ہوئے چاروں صوبوں میں سے اقلیتیں سیٹیں شامل کرکے اس تعداد  کو 104 تک بڑھا دیا۔


ہر صوبے کی قانون ساز اسمبلی میں سے چوبیس (23) سینیٹرز منتخب ہوتے ہیں، اسلام آباد میں چار سینیٹرز جو قومی اسمبلی کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں جبکہ فاٹا سے منتخب ہونے والے اراکین کی تعداد آٹھ ہوتی ہے۔
آئین میں پچیسویں ترمیم  (25th Amendment) کے بعد فاٹا صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا ہے جس کے بعد سینیٹ کی ان آٹھ نشستوں کے متعلق فیصلہ ھونا ابھی باقی ہے۔


سینیٹ کے اراکین کو عوام نہیں چنتی بلکہ یہ صوبائی اور قومی الیکٹورل کالج میں سے ووٹ حاصل کر کے منتخب ہوتے ہیں. سینیٹرز کی مدت 6 سال ہوتی ہے۔ ہر تین سال بعد بعد آدھے سینیٹرز (retire) ہوجاتے ہیں اور ان سیٹوں کے لیے دوبارہ الیکشن کروائے جاتے ہیں۔
سینیٹ کے انتخابات عام انتخابات کے بجائے "Single Transferable Vote" کے تحت ہوتے ہیں۔ اس طریقہ انتخاب کو "Hare System" بھی کہا جاتا ہے۔


اس طریقہ انتخاب (STV) کو، 1819 میں  "Thomas Wright" نے پہلی بار متعارف کرایا اور اب تک بہت سے ممالک میں یہ نظام کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے.
 اس طریقہ انتخاب میں کم سے کم ووٹ ضائع ہونے کے مواقع ہوتے ہیں اور یہی اس طریقے کی خوبصورتی ہے۔  Wright کے اس نظام میں اسمبلی کے تمام اراکین اور امیدواروں کے تناسب کے لحاظ سے جیتنے کے لیے ووٹوں کی تعداد یا کوٹہ مختص کر دیا جاتا ہے۔

ہر الیکٹورل کالج یعنی اسمبلی میں یہ کوٹہ مختلف ہوتا ہے۔
 (STV formula system) کے تحت اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد کو مطلوبہ نشستوں +1  پر تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں دوبارہ 1 کو جمع کیا جاتا ہے۔
Qouta = (Total Members/Seats + 1) +1
مثال کے طور پر اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد  500 ہے۔ اور سینٹ کے چار امیدواران کو منتخب ہونا ہے تو اراکین کی کل تعداد 500 کو  4+1 یعنی 5 پر تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں پھر 1 کا اضافہ کیا جاتا ہے  تو اس صورت میں اب یہ کوٹہ 101 ووٹس کا ہوگا.
اس  ووٹنگ سسٹم میں ہر ووٹر کو ایک  بیلٹ پیپر (ballet paper) ملتا ہے جس پر تمام امیدواروں کے نام درج ہوتے ہیں.
ووٹر ترجیحات کی بنیاد پر اپنا ووٹ ڈالتا ہے. یہ الیکشن مختلف مراحل پر مشتمل ہوتا ہے.
پہلے مرحلے میں جو امیدوار پہلی ترجیح حاصل کرتے ہوئے  کوٹے کے مطابق 101 ووٹ حاصل کرے گا وہ کامیاب ہو جائے گا.
 دوسرے مرحلے میں اگر کوئی امیدوار اپنے کوٹا یعنی 101 ووٹوں سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے تو اضافی ووٹس دوسری ترجیح والے امیدوار کو مل جاتے ہیں ۔


 اس مرحلے میں وہ امیدوار جو سب سے کم ووٹ حاصل کرتا ہے وہ مقابلے سے باہر ہو جاتا ہے۔ اور تیسرے مرحلے میں  اس امیدوار کے ووٹ دوسرے  امیدواران میں تقسیم ہو جاتے ہیں یہ طریقہ اس وقت تک دہرایا جاتا ہے جب تک مطلوبہ نشتوں پر ترجیحی امیدواران مطلوبہ ووٹ حاصل کر لیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :