درہ خیبر ۔۔۔ ایک عجوبہ

جمعہ 15 اکتوبر 2021

Zeeshan Hoti

زیشان ہوتی

درہ خیبرکوئی وادی گل پوش ہے نہ دلکش سیر گاہ، اس میں گنگناتے آبشار اور چشمے ہیں نہ خو ش منظر باغات، تاہم دنیا کے کونے کونے سے سیاح درہ خیبر دیکھنے آتے ہیں۔ وہ اس دشوار گزار اور پرپیچ پہاڑی راستے کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کو جانتے ہیں۔مشہور زمانہ ڈیورنڈ لائن درہ خیبر کے بلند پہاڑوں سے گزرتی ہوئی اپنا طویل فاصلہ طے کرتی ہے یہ دنیا کا مشہور درہ سلسلہ کوہ سلیمان میں پشاور سے ساڑھے 17 کلو میٹر کے فاصلے پر قلعہ جمرود سے شروع ہوتا ہے اور تورخم  بارڈر پر ختم ہوجاتا ہے جو 56 کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔


 یہ درہ قوموں، تہذیبوں، فاتحوں اور نئے نئے مذاہب کی عروج و زوال کی ایک مکمل تاریخ ہے۔۔ ایک ریلوے لائن جو فن انجینئرنگ کا عجوبہ ہے، 3500 فٹ اونچے درے میں سے گزرتی ہے اور لنڈی خانہ پر ختم ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)

برطانوی راج میں تعمیر کی گئی اس ریلوے لائن پر 4 نومبر 1924ء کو پشاور ریلوے اسٹیشن سے اسٹیم انجن والی پہلی مسافر ٹرین خیبر پاس کے سنگلاخ و بلند پہاڑی سلسلے میں 34 ٹنلز اور 92 پلوں سے ہوتے ہوئے لنڈی کوتل تک پہنچی۔


یہاں پہاڑی سلسلہ کبھی تو اتنا کشادہ ہو جاتا ہے کہ گزر گاہ ڈیڑھ کلو میٹر ہوتی ہے اور کبھی اتنا تنگ کہ صرف 16 میٹر رہ جاتی ہے ۔
یہ قبائلی علاقہ’’یاغستان‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہاں کے عوام اب تک اپنی قبائلی علاقے کی قدیم روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔پولیس اور عدالتی نظام کے باوجود ان لوگوں نے جرگہ نظام کو زندہ رکھا ہے،انکی جرگہ روایات کو دیکھتے ہوئے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی مدد سے اس جرگہ نظام کو سرکاری حیثیت دے دی گئی ہے جسکو ڈی آر سی کہا جاتا ہے۔


 درہ خیبرکی اکثریت آفریدی قبیلہ سے تعلق رکھتی ہے۔ تاہم شنواری، ملاگوری اور شلمانی بھی اس علاقے کے باشندے ہیں۔
یہ درہ اونچی نیچی پہاڑیوں کے مابین پیچ وخم کھاتی ہوئی ایک گھاٹی ہے جو شادی گھیاڑ کے مقام سے شروع ہو کر پاک افغان سرحد پر واقع مقام طورخم تک پہنچتا ہے جو کوئی 33 میل لمبا ہے جمرود کے مقام پر اس درہ کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے شاہراہ پر ایک خوبصورت محرابی دروازہ بنایا گیا ہے جسے ’’باب خیبر‘‘ کہتے ہیں یہ دروازہ جون1963ء میں بنا۔


’باب خیبر‘‘ کے پاس ہی جرگہ ہال ہے جہاں قبائلی نمائندوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔
سلطان خیل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر لنڈی کوتل کا تاریخی بازار جہاں صدیوں سے قافلے آکر پڑاؤ ڈالتے رہے ہیں۔ آج بھی اپنی بلند روایات کے مطابق مہمانوں کے قیام و طعام کے بندوبست میں مشغول ہے۔ یہاں کی مشہور نمکین کڑاہی اور تکہ سیاحوں اور مسافروں کی پسندیدہ غذا ہے۔

لنڈی کوتل سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے 3600 فٹ بلندی پر واقع میچنی پوسٹ وہ مقام ہے جو 1920 میں تعمیر کیا گیا تھا اور  یہاں سے ایک طرف خیبر پاس اور ہندوکش کے بلند و بالا پہاڑوں اور چوٹیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف دریائے کابل اور جلال آباد کا دیدار بھی کیا جاسکتا ہے۔ علی مسجد کے پاس ایک اونچی جگہ شاہ گئی کا قلعہ ہے، 1927ء میں تعمیر کیے گئے شگئی قلعے کو  آثارِ قدیمہ کے مقامات میں کافی اہمیت حاصل ہے۔


درہ خیبر میں بہت سی جگہوں پر بودھوں اور ہندو تہذیبوں کے آثار قدیمہ ہیں۔ کافر کوٹ، شوپلا، اسٹوپا وغیرہ ایسے ہی آثار ہیں
یہ علاقہ تاریخی حیثیت کی وجہ سے جاناجاتا تھا لیکن اب لوگ اسکو علم اور ادب کی وجہ سے بھی پہچانے ہیں۔پشتو کے بابائے غزل امیر حمزہ شینواری اور خاطر آفریدی سمیت کئی مشہور شعراء کا تعلق اس تاریخی مٹی سے ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ درہ خیبر نے پشتو ادب کو بھی اپنی ذوق سے نوازا ہے۔
درہ خیبر کا اختتام طورخم بارڈر پر ہوتا ہے جو پاکستان اور افغانستان کے مابین اہم تجارتی راستہ ہے جسکو پرامن رکھنے کیلئے ایف سی کے جوان دن رات پہرہ دے رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :