پشاور کی تاریخ میں قلعہ بالا حصار کا کردار

جمعہ 23 جولائی 2021

Zeeshan Hoti

زیشان ہوتی

خیبر پختون خوا کا صوبائی دارالحکومت پشاور درہ خیبر کے مشرقی کنارے پر آباد قدیم تاریخی شہر ہے، پشاور کو جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کا درمیانی دروازہ بھی کہا جاتا ہے،یہ خطہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کی توجّہ کا مرکز رہا ہے، یہاں پر مختلف ادوار میں انگریزوں، سکھوں، مغلوں اور پشتونوں نے حکمرانی کی ہے
تاریخ میں پشاور کو پارس پور، شاہ پور، باشا پور، پیشی پور، بگرام، پیشور اور پارو پاراش کے نام سے جانا جاتا ہے۔

  16ویں اور 17ویں صدی میں مُغلوں کے دَور میں پشاور نے بڑی اہمیت حاصل کی،مُغل حُکم رانوں  کے دَور میں جامع مسجد مہابت خان، مسجد گنج علی خان، بازار مسجد دلاور خان اور مسجد قاسم علی خان تعمیر کی گئی۔
 پشاور میں فنِ تعمیر کا عظیم شاہکار ’قلعہ بالا حصار‘ کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی اپنی شان و شوکت دکھا رہا ہے۔

(جاری ہے)

’بالا حصار‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اونچائی پر واقع محفوظ قلعے کے ہیں۔

۔ قلعہ بالاحصار ہمارے ملک کا ایک تاریخی ورثہ ہے، یہ غالباً اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ پشاور شہر۔ یہ ایک بہت بڑا قلعہ ہے، جس کا ایک ہی دروازہ ہے اور اس کا رُخ ہندوستان کے راستے کی جانب ہے۔بالا حصار ایک بلند ٹیلے پر موجود ہے، جسے باقاعدگی سے اونچائی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ابتدا میں شاہی رہائش گاہ قلعے کے زیریں حصے میں تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے چبوترے کو بلند کرنا شروع کیا گیا۔

پرانی تعمیر کے اوپر نئی تعمیرات کی جاتی رہیں جس سے اس کی بلندی میں اضافہ ہوتا گیا۔ زمین سے قلعہ کی مجموعی اُنچائی 92فٹ ہے جبکہ اندرونی دیواروں کی بلندی 50فٹ ہے۔پختہ سرخ اینٹوں سے دیواریں تعمیر کی گئی ہیں۔ دوہری دیواروں والا یہ قلعہ کُل سوا پندرہ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے جبکہ اندرونی رقبہ تقریباً دس ایکڑ بنتا ہے۔ بل کھاتی ہوئی ایک پختہ سڑک قلعہ کے اندر جاتی ہے۔

قلعہ کے احاطے میں دو مزارات ہیں۔ قلعہ کی اندرونی دیوار کے جنوب مشرقی کونے میں ایک مزار کے قریب 120فٹ گہرا پرانا کنواں موجود ہے۔
جب 988ء میں غزنی کے امیر سبکتگین نے پشاور فتح کیا تو اس نے 10ہزار گھڑ سواروں کے ساتھ یہاں پڑائو ڈالا۔ شہاب الدین غوری نے پشاور کی اہمیت کے پیش نظر 1179ء میں اس قلعہ پر قبضہ کیا۔اس کے علاوہ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے بھی اپنی خودنوشت ’تزک بابری‘ میں باگرام یعنی پشاور کے قریب اپنی فوجوں کے اترنے اور شکار کے لیے روانگی اور قلعہ بالا حصار کا ذکر کیا ہے۔

افغان بادشاہ شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست دینے کے بعد قلعہ بالا حصار کو تباہ کر دیا تھا ۔ لیکن بعد میں ہمایوں نے قلعہ بالا حصار کی تعمیرِ نو کروائی اور ازبک جرنیل سکندر خان کی نگرانی میں وہاں ایک بڑا فوجی دستہ تعینات کیا۔ اس وقت قلعہ میں پہلی مرتبہ توپیں نصب کی گئیں۔ 18ویں صدی میں فارس کے نادر شاہ نے درہ خیبر کے راستے ہندوستان پر حملہ کیا تو سب سے پہلے پشاور شہر کو مغلوں سے حاصل کیا اور وہاں اپنا گورنر مقرر کیا، جس کی رہائش قلعہ بالا حصار میں تھی۔

نادرشاہ کے بعد احمد شاہ ابدالی نے وہاں حکومت کی۔ روایت ہے کہ اسکے فرزند تیمور شاہ ابدالی نے ہی اس قلعے کا نام بالاحصار رکھا، جو طویل عرصے تک درانیوں کے زیرِ استعمال رہا۔1834ء میں سکھ پشاور پر قابض ہوئے تو  ہری سنگھ نلوہ اور سردار کھڑک سنگھ نے قلعہ بالاحصار کی اہمیت کے پیش نظر اس کی تعمیرِ نو کروائی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم پر شیر سنگھ نے کچی اینٹوں سے قلعہ بنوایا اور اس کا نام تبدیل کرکے سمیر گڑھ رکھ دیا گیا مگر مقامی سطح پر یہ نام مشہور نہ ہو سکا۔

قلعہ بالا حصار کی مرکزی دیوار پر سکھوں کے دور کی تختی آج بھی نصب ہے۔1849ء میں جب انگریزوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا پر قبضہ کیا تو قلعہ بالا حصار کی دیواریں کچی اینٹوں ا ورگارے سے تعمیرشدہ تھیں، جنہیں ڈھاکر انگریزوں نے پختہ اینٹوں سے دیواریں تعمیر کروائیں جو کہ تاحال قائم ہیں۔ ساتھ ہی فوجیوں کے لیے قلعے کے اندر بیرکیں بنوائیں۔

قیامِ پاکستان کے وقت انگریز سامراج کی فوج کا ایک دستہ قلعہ بالا حصار میں قیام پذیر تھا۔تاہم، 1948ء سے قلعہ بالاحصار فرنٹیئر کور کے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔فرنٹیئر کور علاقائی نوجوانوں پر مشتمل ایک منظم فورس ہے اور خصوصی طور پر علاقے کے لوگوں کیلئے کام کرتی ہے،  2015ء میں آنے والے ہندوکش زلزلہ میں جزوی طور پر قلعے کی ایک دیوار متاثر ہوئی تھی، جسے دوبارہ تعمیر کردیا گیا ۔


قلعہ بالا حصار جتنا بیرونی طور پر دلکشی کا منظر پیش کررہا ہے اس سے کئی گنا زیادہ تاریخی اور پروقار مناظر اس قلعہ کے اندر موجود ہے جن میں ہر کونہ،ہر راستہ اور ہر در و یوار اپنی ایک داستان چھپا کے رکھا ہے.
یہاں موجود پھانسی گھاٹ سے اگر خوف جھلک رہا ہے تو دوسری جانب تاریخی میوزیم اپنے آثار کے ذریعے انسان کو ماضی کی یاد تازہ کرواتا ہے,  
سردار عبد الرب نشتر سیل،باچا خان سیل اور جرگہ ہال کی اہمیت اور رونق سمیت اس قلعہ میں ایف سی کے تمام یونٹس کے جھنڈے،مونوگرامز اور تاریخی اسلحہ نے اس قلعہ کو اور بھی انوکھی حیثیت بخش دی ہے۔

اس قلعہ سے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع سمیت تمام علاقوں کی سیکیورٹی امور سرانجام پاتے ہیں
جرنیلی سڑک کے کنارے موجود اس تاریخی قلعے کو بحالی اور تزئین و آرائش کے بعد سیاحتی مقام بنانے کا منصوبہ ہے جو اس خطے کی اقتصادی ترقی کا سبب بھی بنے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :