
ٹک ٹاک پر پابندی
اتوار 11 اکتوبر 2020

ذیشان نور خلجی
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈبلیو ڈبلیو ایف کا پرواگرام تو بند ہو چکا تھا لیکن ڈبلیو ڈبلیو ای نے ابھی اس کی جگہ نہیں لی تھی۔ لہذا سطحی قسم کی کشتیاں دیکھنے کو ملتی تھیں جس میں ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے داؤ پیچ سے زیادہ عریانیت کا سہارا لیا جاتا تھا۔
ایک دن کی بات ہے میں ان کے ساتھ بیٹھا اسی قبیل کی ایک کشتی دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک ان کی بیوی کمرے میں داخل ہوئیں۔ جب انکل کی نظر اپنی زوجہ ماجدہ پر پڑی تو اونچی آواز سے دہائی دینے لگے، " کتنی بے حیاء اور بے غیرت ہیں یہ گوری چمڑی والیاں، انہیں ذرا شرم نہیں، ننگی ہو کے لڑنے آگئی ہیں۔
(جاری ہے)
آپس کی بات ہے میرا ٹک ٹاک سے واسطہ صرف اسی حد تک ہے کہ کسی جاننے والے نے دس پندرہ سیکنڈز کی کوئی ویڈیو وٹس ایپ کر دی کہ جس کے کونے میں ٹک ٹاک کا نشان ثبت ہوتا ہے۔ بس اس سے زیادہ نہ کبھی کچھ دیکھنے کو ملا اور نہ ہی کبھی جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سو ٹک ٹاک پر چاہے بے حیائی بال کھولے ناچے یا پھر شریف زادیاں مجرا فرمانے لگیں، ہم اس سے دور ہی رہے۔ جب کہ کچھ لوگ تسلی کے ساتھ راگ الاپ رہے ہیں کہ یہ ایپلیکیشن بے حیائی کا گڑھ تھی لہذا بہت اچھا ہوا کہ اسے بند کر دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ مزے کی بات ہے ان لوگوں کو دیکھ کر مجھے اپنے انکل یاد آگئے جو ریسلنگ دیکھتے ہوئے خواتین ریسلرز کو صلواتیں سنانا بھی اپنا فرض سمجھتے تھے۔
قرآن پاک میں بے حیائی پھیلانے والوں پر سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اور اس کے علاوہ عورتوں کو بھی اپنی زینت چھپانے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن کیا مردوں کے لئے یہ حکم نہیں آیا کہ تم اپنی نگاہیں بھی نیچی رکھو۔ صاحبو ! سیدھی سی بات ہے اگر آپ کے لئے اس میں فحاشی کا عنصر موجود ہے تو آپ اسے استعمال ہی نہ کریں۔
بات دراصل یہ ہے کہ نہ تو میں ٹک ٹاک کے حق میں ہوں اور نہ ہی اس کے خلاف کیوں کہ میرا تو اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ لیکن آپ کی طرح میں بھی بے حیائی کا مخالف ضرور ہوں۔
یہاں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت نے ٹک ٹاک پر بے حیائی کی وجہ سے پابندی لگائی ہے اور ہم اس حکومتی اقدام کی تائید کر کے اسے اخلاقی جواز فراہم کر رہے ہیں کہ کل کو وہ کوئی دوسرا پلیٹ فارم بھی فحاشی کا ناٹک رچا کر بند کر سکتی ہے۔ کیوں کہ یہ بات تو طے ہے وہ فیس بک ہو، ٹوئٹر ہو یا پھر گوگل، ہر جگہ پر ایسا مواد موجود ہے جسے ہم اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ اور یہاں تو ایسے ایسے نابغے بھی موجود ہیں کہ جنہیں خبریں سناتی اک لڑکی میں بے حیائی نظر آنے لگتی ہے تو گمان غالب ہے کل کو کسی ایسے پلیٹ فارم کو بھی بے حیائی کا ٹھپا لگا کر بند کر دیا جائے جو حکومت وقت کی نکمی پالیسیوں کو ایکسپوز کر رہا ہو۔ اور ویسے بھی حکومت کے پاس ایسا کوئی جواز ہی نہیں تھا کہ وہ ٹک ٹاک پر پابندی لگاتی۔ کیوں کہ جب وہ تفریح کے ذرائع دینے سے قاصر ہے تو پھر اس کو واپس لینے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتی۔
اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی سوچنے کے لائق ہے۔ ٹک ٹاک چونکہ ایک چائنہ میڈ ایپ ہے جو کہ دوسری ایپس کے مقابلے میں متعارف کروائی گئی تھی اور چین کے بدترین مخالف بھارت اور امریکہ نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے جب کہ اب ہم بھی اس بلاک کا حصہ بن چکے ہیں۔ تو کہیں ہماری حکومت بھی امریکہ بہادر کے ساتھ وعدہ ایفاء تو نہیں کر رہی؟ بے شک مجھے اندازہ ہے کہ ہماری حکومت اتنی گہری سوچ نہیں رکھتی کہ اس طرح کی ریشہ دوانیوں کا حصہ بنے۔ لیکن دوسری طرف انجان کی دوستی کی طرح ان سیانوں سے کچھ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ذیشان نور خلجی کے کالمز
-
امام صاحبان کے غلط رویے
بدھ 6 اکتوبر 2021
-
مساجد کے دروازے خواتین پر کھولے جائیں
منگل 28 ستمبر 2021
-
اللہ میاں صاحب ! کہاں گئے آپ ؟
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
مندر کے بعد مسجد بھی گرے گی
پیر 9 اگست 2021
-
جانوروں کے ابو نہ بنیے
جمعہ 23 جولائی 2021
-
عثمان مرزا کیس کے وکٹمز کو معاف رکھیے
ہفتہ 17 جولائی 2021
-
بیٹیوں کو تحفظ دیجیے
پیر 28 جون 2021
-
مساجد کی ویرانی اچھی لگتی ہے
پیر 7 جون 2021
ذیشان نور خلجی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.