کورونا: ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے نام

جمعرات 19 مارچ 2020

Zubair Bashir

زبیر بشیر

چین میں بدھ کے روز وباء سے متاثرہ شہر ووہان میں کووڈ-19 کا کوئی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ چین نے وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اسی ہزار سے زائد مریضوں میں اڑسٹھ ہزار سے زائد مکمل صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ باقی تیزی سے روبہ صحت ہیں۔ چینی قوم کو یہ کامیابی باہمی اتحاد کے مظاہرے اور مثبت سوچ کی وجہ سے حاصل ہوئی۔

اس کامیابی کا سہرا چینی یقیناً چینی قیادت کے بروقت فیصلوں کو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کامیابیاں چینی کے طبی عملے کی شب و روز محنت کا نتیجہ ہے۔
چینی ڈاکٹروں  اور پیرا میڈیکل سٹاف کو جب وباء کے خلاف لڑنے کے حکم نامے وصول ہوئے تو انہوں نے اسے اپنے لئے اعزاز سمجھا۔ ایک ایسے وقت میں جب آپ کو یہ  معلوم ہو کہ آپ کا مقابلہ کس ان دیکھے دشمن سے ہے۔

(جاری ہے)

ایسے میں میدان عمل میں اترنا دل گردے کا کام ہے۔ چینی طبی عملے   نےبھرپور دلیری اور جرات سے صف اول میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ جن لوگوں کی  ڈیوٹی نہ لگی وہ قدرے مایوس نظر آئے ۔ مجھے فروری کا پہلا ہفتہ یاد ہے جب ایک میڈیکل ورکر سے میری ملاقات ہوئی جن کے تعیناتی کے آرڈر پر تاریخ روانگی پانچ فروری درج تھی لیکن واپسی کی تاریخ کی جگہ تحریر تھا "ڈے آف وکٹری"، میں یہ پڑھ کر بہت زیادہ حیران ہوا۔


یقین جانئیے میں پانچ فروری سے دن گن رہا تھا کہ کب یہ واقعہ تحریر کروں گا۔ کل میری آنکھوں نے " ڈے آف وکٹری" دیکھا۔ یہ وہ منظر تھا جس کے لئے سب دعا گو تھے۔ سترہ مارچ صبح 7:30 کے قریب ووہان سے پہلی میڈیکل ٹیم واپس لوٹ رہی تھی۔ ووہان میں وباء انسانیت سے شکست کھا چکی تھی  اور ووہان شہر اہنے محسنوں کو رخصت کر رہا تھا جو دو ماہ قبل ان کی طبی امداد کے لئے ملک کے مختلف حصوں سے آئے تھے۔


منگل سترہ مارچ کو پہلی میڈیکل ٹیم ووہان سے  روانہ ہوئی۔ اس میڈیکل ٹیم کے عملے کا تعلق شمال مغربی چین کے صوبہ شانسی سے  تھا۔ اس وقت نہایت رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے، طبی عملے ارکان اپنے ماسک کے پیچھے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ ٹیم کے سربراہ ما فوچن نے کہا ، "ہم 4 فروری کو ووہان پہنچے اور پچھلے 40 دنوں میں دو عارضی اسپتالوں میں کام کیا۔

ووہان اور صوبہ ہنان کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہم نے 988 بستروں کے ہسپتال کا  انتظام دیکھا اور 1235 مریضوں کا علاج کیا۔" شکر ہے کہ ہمارے ہسپتال میں نہ تو کوئی مریض ہلاک ہوا اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کو کوئی انفیکشن ہوا"۔ انہوں نے کہا ، "یہاں ہماری موجودگی نے نہ صرف مقامی طبی کارکنوں کے بوجھ کو کم کیا بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بیماری سے متاثرہ ووہان کے رہائشیوں میں یہ اعتماد پیدا ہوا کہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

یہاں کام کرنا میرے اور میری ٹیم کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔"
حوبے ایئر پورٹ کی انتظامیہ کے مطابق ، شام 5 بجے تک 21 طبی ٹیموں کے 3000 سے زیادہ ارکان مختلف پروازوں کے ذریعے تیانجن ، ہائکو ، ینچوان ، ارمچی ، سمیت دیگر شہروں کے لئے روانہ ہوئے۔ اس عملے کو روانگی کے وقت مقامی عوام اور پولیس نے نہایت پرتپاک انداز میں رخصت کیا۔
تیانجن سے تعلق رکھنے والی ایک نرس نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو ملیں گی جو اب آٹھ ماہ کا ہو چکا ہے۔

اس نے بیٹھنا سیکھ لیا ہے یہاں تک کہ وہ چیزوں کو پکڑ کر چلنا بھی شروع کرچکا ہے۔ مجھے اس کی معصوم مسکراہٹ بہت یاد آرہی ہے۔ کبھی سوچتی کہ وہ مجھے پہچانے کا بھی یا نہیں، یہ کہنا تھا کہ ان کی آواز بھر آئی۔  انہوں نے کہا میں خوش ہوں کہ اپنی قوم کی خاطر کچھ کر پائی۔ میں دوبارہ ووہان آنا چاہوں گی۔ میں اپنے بیٹے کو یہ جگہ دکھاؤں گی جہاں اس کی ماں نے انسانیت کا دفاع کرتے ہوئے وباء کو شکست دینے میں اپنا اہم کردار ادا کیا تھا۔


اس طبی عملے کی اپنے اپنے علاقوں میں واپسی کے باوجود اپنے پیاروں سے ملاقات میں اب بھی 14 دن باقی ہیں کیوں کہ انہیں ووہان سے آنے کی وجہ سے ابھی قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔
چین بھر سے 41 میڈیکل ٹیموں سے وابستہ 3675 طبی عملے کے ارکان نے وباء کے مرکز صوبائی دارالحکومت ووہان اور صوبہ ہوبے  کے 14 عارضی اور سات مخصوص وبائی ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دیں۔

اس عملے نے اس دوران اکثراوقات  مسلسل 36 گھنٹوں تک کام کیا۔  ابتدائی دنوں میں حفاظتی لباسوں کی کمی وجہ سے یہ آرام کرنے بھی نہیں جاتے  تھے۔ ہسپتال میں اپنی کرسی پر ہی سو جاتے تھے۔ چینی قوم ،طبی عملے اور قیادت عزم، ہمت اور اتحاد سے وباء کو شکست دی ہے۔
میرے   پاکستانی ڈاکٹر ز، پیرا میڈکس اور میڈیکل   کے تمام شعبوں سے وابستہ بہن بھائی قوم کے محسن ہیں۔

یہ ہمارے معاشرے کے سب سے ذہین لوگ ہیں۔ یہ محنت سے ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ جدوجہد اور سخت مقابلے کی فضا  کے بعدنوکری حاصل کرتے ہیں۔ سخت مشکل حالات میں   آسائشوں کو چھوڑ کر فرائض انجام دیتے ہیں۔  اس وقت آپ کے حوالے سے کچھ ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں جنہیں سن کر دکھ ہوتا ہے۔  اس وقت آپ تمام چیزیں ایک طرف رکھ کر صرف  اپنے قومی فرض کے بارے میں سوچیں ۔

انشااللہ چینی ڈاکٹروں کی طرح وقت آپ کو سرخرو کرے گا۔
آج پاکستان میں کووڈ-19 کی خبروں نے افراتفری پھیلا دی ہے۔    قوم کا اضطراب ظاہر کر رہا ہے کہ ہم تقسیم ہیں ۔  چینی قوم  نے اس وباء کا مقابلہ باہمی اتحاد اور اپنی قیادت کے احترام  سے ممکن بنایا ہے۔ میں  پاکستانی بہن بھائیوں سے گزارش کروں گا۔ وباء خطرناک نہیں ہے۔ اس وباء سے زیادہ خطرناک اس کا خوف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اضطراب ہے۔  اگر ہم  متحد ہو کر بغیر کسی اضطراب کے اس  وباء کا مقابلہ  کریں گے تو ہمارا "ڈے آف وکٹری" بھی دور نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :