
ووہان کے شہریوں کی قربانیاں فراموش نہیں کی جاسکتیں!
بدھ 15 جولائی 2020

زبیر بشیر
(جاری ہے)
چین پر حقائق کی پردہ پوشی کا الزام غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وائرس سے متعلق چین کا ردعمل اور وائرس کے حوالے سے نوٹیفکیشن انتہائی شفاف ، تیز اور ذمہ دارانہ تھے۔جیسا کہ ٹائم لائن واضح طور پر ظاہر کرتی ہے ، چین میں نامعلوم وجوہات سے پیدا ہونے والے نمونیا کے تین معاملات 27 دسمبر 2019 کو چین کے صوبہ حوبے میں سب سے پہلے رپورٹ ہوئے۔ صرف دو دن بعد ہی متعلقہ حکام نے وبائی تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس کے 4 دن بعد 31 دسمبر 2019 کو چین میں ڈبلیو ایچ او کے دفتر کو اس حوالے سے مطلع کیا گیا۔ 7 جنوری2020 کواس وائرس کی شناخت واضح ہوگئی تھی ، اور نوول کورونا وائرس کا "جینوم سیکونس کو 12 جنوری کو ڈبلیو ایچ او کے ساتھ شئیر کر دیا گیا تھا ۔
معروف میڈیکل جریدے دی لانسیٹ کے چیف ایڈیٹر رچرڈ ہارٹن نے حقائق کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا تھا : "ہمیں جنوری کے آخری ہفتے میں پتہ چلا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ چین کی جانب سے یہ پیغام بالکل واضح تھا ، کہ یہ ایک نیا وائرس ہے ، جو وبائی طاقت رکھتا ہے اور شہروں کے شہر اس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں"۔
چین پر حقائق چھپانے کے حوالے سے تنقید بلاجواز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ، چین نے بروقت اعداد و شمار جاری کئے ، جس میں تشخیص شدہ کیسز ، مشتبہ کیسز ، شدید نوعیت کے حامل کیسز ، صحت یاب ہونے والے مریضوں ، انتقال کر جانے والے اور قرنطین کئے جانے والوں کی تعداد بھی شامل ہے۔ دنیا میں کیسز کی تعداد ایک کروڑ سے زائد اور چین میں نہایت کم ہونا بھی ایک اعتراض ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چینی حکومت نے وبا کے نسبتاً ابتدائی مرحلے میں وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے لئے انتہائی جامع ، مکمل اور سخت ترین اقدامات اختیار کئے۔ اس کے ساتھ ساتھ چینی عوام بھی قابل تعریف ہیں جنہوں نے اپنی حکومت کے فیصلوں کا بھرپور احترام کیا اور وبا کی روک تھام کی کوششوں میں اپنی حکومت کا مکمل ساتھ دیا۔
یہ دعوی کرنا غلط ہے کہ چین نے لاک ڈاؤن میں تاخیر کی ، جس کی وجہ سے وائرس پھیل گیا۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ، چین کا لاک ڈاؤن انتہائی تیز اور موثر تھا۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ کووڈ-19 انسانی تاریخ کا ایک بالکل نیا وائرس ہے ، لہذا یہ قدرتی بات ہے کہ کسی بھی ملک کو اس کی روک تھام کے ساتھ ساتھ اس کا شکار ہونے والوں کے علاج کی کوششیں بھی کرنا ہیں۔ جب تصدیق شدہ کیسز کی تعداد بہت کم ہو تو فوری لاک ڈاؤن نہیں کیا جا سکتا۔در حقیقت ، چینی حکومت نے 23 جنوری ، 2020 کو "ووہان کے لاک ڈاؤن" کا اعلان کیا ، یہ اعلام نامعلوم وائرس کے پہلے کیس کی اطلاع آنے کے ایک ماہ سے بھی کم وقت میں کیا گیا۔ اس کے سات روز بعد 30 جنوری کو عالمی ادارہ صحت نے اس وبا کو "پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آف انٹرنیشنل کنسرسن" کانام دیا ، جس نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہےکہ چین طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
زبیر بشیر کے کالمز
-
چودہ برس بعد بیجنگ میں اولمپک مشعل کی حرارت
جمعرات 3 فروری 2022
-
چین وبا کے خلاف کیسے کامیاب ہوا؟
بدھ 26 جنوری 2022
-
وبا پر قابو عالمی تعاون کے بغیر ممکن نہیں
جمعہ 21 جنوری 2022
-
ماحول دوست سواری کی حوصلہ افزائی کی ضرورت
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نیا سال نیا عزم
بدھ 5 جنوری 2022
-
سال 2022 میں چین کی معاشی وسماجی پالیسیاں کیا ہوں گی؟
پیر 13 دسمبر 2021
-
دنیا کی مشترکہ ترقی کا راستہ
جمعہ 26 نومبر 2021
-
دو سوسے زائد امریکی کمپنیاں چین میں کیا تلاش کر رہی ہیں؟
ہفتہ 13 نومبر 2021
زبیر بشیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.