اصغرخان کیس ،ْ نواز شریف کی عدم پیشی ،ْ

سپریم کورٹ کی تمام افراد کو ہفتے تک تحریری جواب جمع کرانیکی ہدایت سویلین افراد کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونا ہوگا ،ْ اس بات کا تعین عدالت کریگی کہ کن کا ٹرائل فوج اورکن کا سویلین اداروں میں ہونا ہے ،ْ چیف جسٹس نواز شریف کہاں ہیں انہیں نوٹس دیا تھا کیوں نہیں آئی ٹی وی چینلز پر ٹکرز بھی چلے ،ْ اخبارات کی لیڈ سٹوری بھی یہی ہے ،ْچیف جسٹس یہ عدالت کا حکم ہے ،ْ ہر کسی کو آنا پڑیگا ،ْ چیف جسٹس …نواز شریف اس وقت احتساب عدالت میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں ،ْاٹارنی جنرل نواز شریف کے وکیل ہیں ،ْ تو ان کو بھجوا دیں ،ْ چیف جسٹس …اپنے وکیل کا بندوبست کر رہے ہیں ،ْ اٹارنی جنرل ،ْ نوازشریف وکیل کے ذریعے پیش ہونے کاحکم میں نے پیسے نہیں لئے ،ْ 5 سال نیب کی عدالت میں کیس بھگت کر اس الزام کو کلیئر کیا ،ْجاوید ہاشمی کا جواب… خورشید شاہ کو جاری نوٹس واپس ہم اصغر خان وقوعہ کے متاثرہ ہیں ،ْمجھے اس الزام میں مقدمہ چلائے بغیر 5 برس تک جیل میں ڈالا گیا ،ْجاوید ہاشمی کی میڈیا سے بات چیت

بدھ 6 جون 2018 14:07

اصغرخان کیس ،ْ نواز شریف کی عدم پیشی ،ْ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جون2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران تمام افراد کو نو جوان ہفتہ تک تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ سویلین افراد کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونا ہوگا ،ْ اس بات کا تعین عدالت کرے گی کہ کن کا ٹرائل فوج میں ہونا ہے اور کن کا سویلین اداروں میں۔

تفصیلات کے مطابق مذکورہ کیس کی 2 جون کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے 1990 کی انتخابی مہم کے دوران پیسے وصول کرنے والے سابق وزیراعظم نواز شریف، سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی اور عابدہ حسین سمیت21 سویلین کو نوٹس جاری کیے تھے۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی سمیت کیس سے متعلقہ آرمی افسران، ڈی جی نیب اور ڈی جی ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کیے گئے تھے۔

(جاری ہے)

بدھ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران متعدد سیاسی رہنماؤں کے وکلاء اور سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ میاں نواز شریف کہاں ہیں انہیں نوٹس دیا تھا وہ کیوں نہیں آئی ٹی وی چینلز پر ٹکرز بھی چلے جبکہ اخبارات کی لیڈ سٹوری بھی یہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر نواز شریف اسلام آباد میں ہیں تو وہ ایک گھنٹے میں عدالت میں پیش ہوں، یہ عدالت کا حکم ہے ہر کسی کو آنا پڑیگا۔اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ نواز شریف اس وقت احتساب عدالت میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف کے وکیل ہیں ،ْ تو ان کو بھجوا دیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ نوٹس کی تعمیل کے باوجودپیش نہ ہوناعدالت کی تکریم کیخلاف ہے،نوازشریف کو ہرصورت شامل تفتیش ہونا پڑیگا، جاوید ہاشمی آسکتے ہیں تو نوازشریف کیوں نہیں،اٹارنی جنرل اورجاوید ہاشمی،نواز شریف سے رابطہ کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر تاریخ کا نواز شریف کو الگ جواب دینا ہوگا،پشاور رجسٹری میں سماعت کیلئے بھی جانا ہے، پشاور سے واپسی ممکن ہے رات ایک بجے ہو، نوازشریف ابھی نہ آئے تو رات ایک بجے پیش ہوناہوگا،تحریری جواب آنے کے بعد اتوارکو مزید سماعت کریں گے ۔وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ میاں نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے باعث سپریم کورٹ نہیں آسکے تاہم وہ اپنے وکیل کا بندوبست کر رہے ہیں۔

جس پر عدالت عظمیٰ نے کہا نواز شریف آئندہ سماعت پر اپنے وکیل کے ذریعے پیش ہوں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی صاحب یہاں موجود ہیں ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے پیسے لیے تھی جس پر جاوید ہاشمی نے جواب دیا کہ انہوں نے پیسے نہیں لیے۔جاوید ہاشمی نے کہاکہ میں نے 5 سال نیب کی عدالت میں کیس بھگت کر اس الزام کو کلیئر کیا۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت اچھی بات ہے،کرپشن کے خلاف کیسز میں آپ جیسے سیاستدانوں کو لیڈ کرنا چاہیے۔جاوید ہاشمی نے کہا کہ نیب کو بھی یہی بتایا ہے ،ْآپ نے طلب کیاتوبس میں بیٹھ کراسلام آباد پہنچا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جیسے لوگ سیاسی قیادت کیلئے مثال ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت نے آرمی افسران کا معاملہ آرمی کو ہی سونپ دیا ہے، وہ بھی اس معاملے کو اپنے قانون کے مطابق دیکھیں جبکہ اس کیس میں سویلینز کا معاملہ ایف آئی اے دیکھ رہی ہے۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ اعتزاز احسن نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ کے نام بھی نوٹس جاری ہوا، مگر ان کا اس کیس میں نام نہیں ہے۔جس پر عدالت عظمیٰ نے یہ کہہ کر خورشید شاہ کو جاری نوٹس واپس لے لیا کہ یہ نوٹس غلطی سے جاری ہوا۔چیف جسٹس نے اسلم بیگ سے کہا کہ فوجی افسران کا معاملہ آرمی کے حوالے کردیا گیا ہے اس لیے وہ جا سکتے ہیں۔

اسلم بیگ نے کہاکہ 1996 میں میرا مقدمہ فوج کو بھیجا گیا تھا اور اس وقت کے آرمی چیف نے میرا مقدمہ چلانے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں چیف جسٹس سے استدعا کی کہ میرا مقدمہ آپ سنیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایف آئی اے کی تفتیش میں شامل ہو جائیں ،ْہمارا مقصد کسی کی تضحیک کرنا نہیں۔بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت منگل 12 جون تک کے لیے ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے اس حوالے سے ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا ،ْیہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔

پیسے لینے والوں میں غلام مصطفی کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اٴْس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کیلئے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔عدالت عظمیٰ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے کہا کہ ہم اصغر خان وقوعہ کے متاثرہ ہیں ،ْمجھے اس الزام میں مقدمہ چلائے بغیر 5 برس تک جیل میں ڈالا گیا۔انہوںنے کہا کہ 5 سال بعد نیب نے فیصلہ دیا اور وہاں بھی تحقیقات ایف آئی اے نے کی تھیں۔