مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف کا سیاسی سفر

شہبازشریف نے 1988 سے باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا اور پی پی122 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے 93 میں شہباز شریف پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے ،1997میں پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلی بننے کا اعزاز حاصل کیالیکن دوسال بعد1999 میں فوجی بغاوت کے بعد انہیں معزول کردیا گیا سعودی عرب جلا وطن رہے،2007 میں 8 برس جلا وطنی میں گزارنے کے بعد وہ واپس وطن آئے

جمعہ 17 اگست 2018 23:54

مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف کا سیاسی سفر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 اگست2018ء) پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم کے انتخاب کی دوڑ میں ناکام ہونے والے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف کے سیاسی سفر پر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے 1988 سے باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط کاروباری شخصیت سمجھے جانے والے شہباز شریف 23 ستمبر 1951 کو صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پیدا ہوئے۔

ابتدا میں انہوں نے اپنے خاندان کے اتفاق گروپ کا کاروبار دیکھا اور 1985 میں لاہور ایوان صنعت و تجارت کے صدر منتخب ہوئے۔1988 میں پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور لاہور میں پی پی 122 کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔1990 میں لاہور ہی سے قومی اسمبلی کے حلقہ 96 سے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کے رکن بنے۔

(جاری ہے)

1993 میں شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی کی نشست سے کامیابی حاصل کی اور انہیں قائد حزب اختلاف کے طور پر نامزد کیا گیا۔

1997 میں پھر سے صوبائی اسمبلی کے رکن بنے اور پہلی مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلی بننے کا اعزاز حاصل کیا۔1999 میں ملک میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد انہیں معزول کرکے سعودی عرب جلا وطن کردیا گیا۔2007 میں 8 برس جلا وطنی میں گزارنے کے بعد وہ واپس وطن آئے اور پھر سے سیاست میں حصہ لیا۔2008 میں ہونے والے عام انتخابات میں پی پی 48 بھکر سے پنجاب اسمبلی کے چوتھی مرتبہ رکن بنے اور صوبے کے دوسری مرتبہ وزیر اعلی کے منصب پر فائز ہوئے۔

2013 میں انہوں نے 5 ویں مرتبہ پنجاب اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور مسلسل دوسری مرتبہ جبکہ مجموعی طور پر تیسری مرتبہ وزیر اعلی پنجاب بنے۔2018 میں ان کے سفر میں ایک نیا موڑ آیا اور ان کے بڑے بھائی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد انہیں مسلم لیگ(ن)کا صدر منتخب کیا گیا۔اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں کراچی سمیت قومی اسمبلی کی 4 نشستوں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 2 نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا تھا، جن میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر ناکامی دیکھنا پڑی تھی۔

تاہم وہ این اے 132 لاہور اور پی پی 164 اور 165 کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔تین دفعہ وزیرِ اعلی رہنے والے اور اتفاق گروپ آف کمپنیز کے حصے دار، کامیاب کاروباری شخصیت شہباز شریف کو ایک مضبوط اور پرعزم شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو ایک قابل منتظم بھی ہیں۔انہوں نے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے قابلِ دید کامیابی حاصل کی جبکہ پنجاب کے میٹرو بس منصوبوں کو ان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے قرار دیا جاتا ہے، وہ کئی علاقوں میں کروائے جانے والے تعمیراتی اور ترقیاتی کام پر فخر کرتے ہیں اور انہیں لاہور کی ترقی پر بھی بہت فخر ہے۔

ماضی قریب اور ماضی بعید میں اپنے بھائی کی مشکلات، جن کی وجہ سے شہباز شریف کو جلاوطن بھی ہونا پڑا، کے باوجود شہباز شریف نواز شریف سے وفادار رہے ہیں۔مارچ 2018 میں بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن)کی جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ہی وہ واحد پاکستانی سیاستدان اور رہنما ہیں، جنہیں جناح کا سیاسی وارث کہا جا سکتا ہے، نواز شریف جیسا قائد ملنا ہماری خوش قسمتی ہے۔

نواز شریف، جن کی مشکلات کا ذمہ اکثر ناراض اسٹیبلشمنٹ پر ڈالا جاتا ہے، ایسے میں وفاداری کے باوجود شہباز شریف سول ملٹری تعلقات کے معاملے پر اپنے بھائی کے سخت گیر مقف کے برخلاف ایک نرم رویے کے حامل نظر آتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے صدر کا کہنا تھا کہ سویلین اور ملٹری حکام کو پاکستان کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ کام کرنا چاہیے۔شہباز شریف اپنے وزارت اعلی کے دور میں خود کو وزیر اعلی کہلوانے کے بجائے خادم اعلی کہنا پسند کرتے تھے۔