Live Updates

آئی ایم ایف کا وفد بیل آئوٹ پروگرام کی شرائط کو حتمی شکل دینے کے لئی7نومبر کو پاکستان کا دورہ کرے گا،

آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لیے ناقابل قبول شرائط رکھیں تو معاہدہ نہیں کریں گے،آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے دوست ممالک کے پاس گئے، سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے مدد کے لیے کوئی ناقابل قبول شرائط نہیں رکھیں،میں نے حکومت میں آنے سے پہلے یا بعد میں کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی بات نہیں کی،چینی قرضوں پر آئی ایم ایف جانے کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ کا بیان 100فیصد غلط بیانی پر مشتمل ہے وزیر خزانہ اسد عمر کی میڈیا کے نمائندوںسے بات چیت

ہفتہ 13 اکتوبر 2018 21:55

آئی ایم ایف کا وفد بیل آئوٹ پروگرام کی شرائط کو حتمی شکل دینے کے لئی7نومبر ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اکتوبر2018ء) وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد بیل آئوٹ پروگرام کی شرائط کو حتمی شکل دینے کے لئی7نومبر کو پاکستان کا دورہ کرے گا،آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لیے ناقابل قبول شرائط رکھیں تو معاہدہ نہیں کریں گے،آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے دوست ممالک کے پاس گئے، سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے مدد کے لیے کوئی ناقابل قبول شرائط نہیں رکھیں،میں نے حکومت میں آنے سے پہلے یا بعد میں کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی بات نہیں کی،چینی قرضوں پر آئی ایم ایف جانے کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ کا بیان 100فیصد غلط بیانی پر مشتمل ہے۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے یہاں وزارت خزانہ میںمیڈیا کے نمائندوںسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کوئی پہلی حکومت نہیں جو آئی ایم ایف کے پاس جا رہی ہے اور میں نے حکومت میں آنے سے پہلے یا بعد میں کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کی بات نہیں کی۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے انہوں نے الیکٹرانک میڈیا پر اپنے پرانے بیانات بھی سنائے جن میں انہوں نے آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے بیل آؤٹ پیکج کی حمایت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت غیر ملکی زرمبادلہ کا مجموعی خسارہ 12ارب ڈالر ہے جسے آئی ایم ایف کے قرض سے پورا نہیں کیا جائے گا بلکہ حکومت اس کے لئے دیگر ذرائع بھی استعمال کرے گی۔وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان کی مختلف فوجی و سول حکومتوں نے اب تک آئی ایم ایف سے 18 معاہدے کئے، عمران خان نے کسی وقت کہا ضرور ہوگا کہ آئی ایم ایف میں نہیں جائیں گے، مگر اس الیکشن کے تناظر میں انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا، مشاورت کے بعد اس کے پاس گئے جس کے بعد اسٹاک مارکیٹ میں 600 پوائنٹ اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی معاشی دبائو کی وجہ سے خطہ کے دیگر ممالک کی کرنسیاں بھی گری ہیں اور پاکستانی روپے کی قدر میں صرف 7فیصد کمی ہوئی جبکہ اس کے مقابلہ میں بھارتی کرنسی کی قدر10فیصد کم ہوئی ہے اسی طرح انڈونیشیا،سری لنکا،چین،ایران اور دیگر ممالک کی کرنسیوں کی قدریں بھی کم ہوئی ہیں۔ اسد عمر نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے دوست ممالک کے پاس گئے، سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے مدد کے لیے کوئی ناقابل قبول شرائط نہیں رکھیں ان سے بھی بات چیت جاری ہے، آئی ایم ایف نے پیکیج کے لیے قومی سلامتی سمیت اگر کوئی بھی ناقابل قبول شرائط سامنے رکھیں تو معاہدہ نہیں کریں گے‘ آئی ایم ایف نیسی پیک سمیت پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعی قرضوں کی تفصیل مانگی ہے، ہوسکتا ہے اس سے قرض لیے بغیر گزارا ہوجائے مگر مشکل زیادہ ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا چینی قرضوں سے کوئی تعلق نہیں اس حولے سے امریکی دفتر خارجہ کا بیان سو فیصد غلط ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان نے آج تک آئی ایم ایف سے قرض کے 18 معاہدے کیے ہیں جن میں سے 7 فوجی حکومتوں کے دور میں ہوئے اور باقی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار میں ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا جاری کھاتوں کا خسارہ ہر ماہ 2 ارب ڈالر جا رہا ہے اور ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر گرتے جارہے ہیں، ستمبر 2018 میں زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب 40کروڑ ڈالر پر آگئے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ ایک بڑی محرک ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھا اور ایران پر پابندیاں درآمدات میں اضافے کا باعث بنیں، ایسی صورت حال میں کسی نہ کسی سے بیل آؤٹ ناگزیر تھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے مالی مدد کی باضابطہ درخواست کردی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ حکومت بھی آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے مذاکرات کرنے گئی تھی، ہم نے آئی ایم ایف سے بات چیت میں تاخیر کی کیونکہ اس معاملے پر سب سے مشاورت کرنی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ذمے 95 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض ہے، ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر گزارا ہو جائے مگر مشکل زیادہ ہو گی۔آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے امریکی وزارت خارجہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ امریکی بیان بالکل غلط ہے کہ سی پیک قرضوں کے باعث آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں حالانکہ چین کے قرضے انتہائی آسان شرائط کے ہیں۔

آئی ایم ایف نے سی پیک سمیت پاکستان کے ذمے مجموعی قرضوں کی تفصیل مانگی ہے امریکہ آئی ایم ایف پروگرام پر اثر انداز نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا شیئر16.4فیصد ہے اوراس لئے اسے ویٹو کا اختیار نہیں ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف جانے کے اعلان کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ اگلے روز 600 پوائنٹس بڑھی ہے۔ ہم پر چین اور سعودی عرب سمیت کسی نے قرض کے لیے سخت شرائط نہیں رکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے تاخیری ادائیگوں پر تیل فراہم کرنے کی بات ہو رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ غریب ترین افراد کے لیے سبسڈی ضروری ہے، ہم نے اپنی برآمدات بڑھانی ہیں ورنہ قرض کے دلدل سے باہر نہیں آ سکتے، آئی ایم ایف کے ساتھ برآمدات کے فروغ کے لیے فریم ورک معاہدہ کریں گے۔ایک سوال کے جواب میں اسد عمر کا کہنا تھا کہ کرنسی شرح تبادلہ کو کنٹرول کرنا اسٹیٹ بینک کا کام ہے وزارت خزانہ کا نہیں اور آپ کو کبھی یہ سننے کو نہیں ملے گا کہ وزیر خزانہ اسٹیٹ بنک کے کام میں مداخلت کر رہے ہیں۔وزیر مملکت ریونیو حماد اظہر اور وزارت خزانہ کے افسران بھی اس موقع پر موجود تھے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات