مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ خوشحال خان ڈگری کالج میں ادا کر دی گئی ،ْ

والد پہلو میں سپرد خاک مولانا کی میت کو ایمبولینس کے ذریعے نوشہرہ کے خوشحال خان ڈگری کالج کے گراؤنڈ میں لایا گیا ،ْ بیٹے حامد الحق نے نماز جنازہ پڑھائی نماز جنازہ وزیر اعلی کے پی کے ،ْ گور نر ،ْ سینیٹر سراج الحق ،ْ اقبال ظفر جھگڑا ،ْ غلام احمد بلور ،ْ راجہ ظفر الحق ،ْ امیر مقام ،ْ لیاقت بلوچ سمیت ہزاروں افراد شریک ہوئے پولیس نے مولانا سمیع الحق کے دو ملازمین کو 3 گھنٹے تک پوچھ گچھ تدفین میں شرکت کی اجازت دی ،ْ ونوں ملازمین کو تفتیش کیلئے دوبارہ طلب کیا جائیگا ،ْذرائع مولانا سمیع الحق کے جنازے اور تدفین کے موقع پر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات ،ْڈی آئی جی مردان ڈویژن محمد علی گنڈا پور نے انتظامات کا جائزہ لیا � ایس پیز اور 140ٹریفک پولیس اہلکار بھی تعینات ،ْخیبرپختونخوا بم ڈسپوزل یونٹ کے 50 اہلکار جنازہ گاہ پر تعینات کیے گئے تھے

ہفتہ 3 نومبر 2018 17:12

مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ خوشحال خان ڈگری کالج میں ادا کر دی گئی ..
نوشہرہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 نومبر2018ء) جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک کے خوشحال خان ڈگری کالج میں ادا کردی گئی۔تفصیلات کے مطابق جے یو آئی (س) کے سربرا ہ اور سینیٹر مولانا سمیع الحق کی میت کو ایمبولینس کے ذریعے نوشہرہ کے خوشحال خان ڈگری کالج کے گراؤنڈ میں لایا گیا ۔

مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ ان کے بیٹے حامد الحق نے پڑھائی۔مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ میں ملک بھر سے سیاسی و مذہبی قائدین اور شہریوں کی بڑی تعد اد نے بھی شرکت کی۔مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ میں گورنر اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے قائمقام صدر غلام بلور، مسلم لیگ (ن) کے رہنما ظفر الحق، امیر مقام، لیاقت بلوچ اور سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شریک ہوئے۔

(جاری ہے)

بعد ازاں مولانا سمیع الحق کی تدفین دارالعلوم حقانیہ کے احاطے میں ان کے والد کے پہلو میں کی گئی ۔واضح رہے کہ مولانا سمیع الحق کو گزشتہ روز راولپنڈی میں ان کے گھر میں چھریوں کے متعدد وار سے قتل کردیا گیا تھا۔مولانا حامد الحق نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ ان کے محافظ اور ڈرائیور نے بتایا کہ وہ کچھ وقت کیلئے انہیں کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر گئے تھے اور جب وہ واپس آئے تو انہیں شدید زخمی حالت میں پایا۔

مولانا سمیع الحق کو زخمی حالت میں قریبی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا لیکن وہ ہسپتال پہنچنے سے قبل راستے میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کو پیارے ہوگئے تھے ۔مولانا سمیع الحق کے قتل کا مقدمہ راولپنڈی کے تھانہ ایئرپورٹ میں ان کے بیٹے مولانا حامدالحق کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا۔بعد ازاں پولیس نے مولانا سمیع الحق کے دو ملازمین سے 3 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی تاہم دونوں ملازمین کو تدفین میں شرکت کی اجازت دی گئی۔

پولیس کے مطابق مقتول کے بیٹے مولانا حامد الحق کے کہنے پر دونوں ملازمین کو جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی۔انہوںنے کہاکہ مولانا سمیع الحق کے دونوں ملازمین کو تفتیش کے لیے دوبارہ بھی طلب کیا جائیگا۔ دوسری جانب مولانا سمیع الحق کے جنازے اور تدفین کے موقع پر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے گئے ۔ڈی آئی جی مردان ڈویژن محمد علی گنڈا پور جنازہ گاہ کا دورہ کیا اور سیکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لیا۔

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مولانا سمیع الحق شہید کی تدفین کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، ڈی پی او اور تین ایس پیز سمیت 948پولیس اہلکار سیکیورٹی کی ڈیوٹی پر تعینات رہے۔ڈی آئی جی مردان کے مطابق 10ڈی ایس پیز اور 140ٹریفک پولیس اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں جو سیکیورٹی کے علاوہ ٹریفک کے کنٹرول کے فرائض بھی انجام دیئے۔

محمد علی گنڈا پورکا کہنا تھا کہ دارالعلوم انتظامیہ اور مولانا سمیع الحق شہید کے خاندان کے ساتھ رابطے میں ہیں ،ْ جنازہ گاہ اور راستوں کو (بم ڈسپوزل یونٹ) بی ڈی یو کے عملے سے کلیئر کرالیا گیا ۔خیبرپختونخوا بم ڈسپوزل یونٹ کے 50 اہلکاراکوڑہ خٹک میں جنازہ گاہ پر تعینات کیے گئے تھے۔انچارج بم ڈسپوزل یونٹ کے پی شفقت ملک کا انتظامات کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان کی سربراہی میں خصوصی ٹیم جنازہ گاہ اور قریبی علاقوں کو وقتاً فوقتاً کلیئر کر تی رہی انہوں نے بتایا کہ دو روبوٹس اور 6جدید بم ڈسپوزل گاڑیاں بھی اکوڑہ خٹک میں موجود رہیں۔