سوئس حکومت کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لئے دو طرفہ معاہدے کے بعد آئندہ 4 تا 6 ہفتوں میں پاکستان کو مطلوب معلومات ملنا شروع ہوجائیں گی ،سوئس حکومت کے ساتھ معاہدے کے فریم ورک کے مطابق 30نومبر2018 سے دوطرفہ معلومات کا حصول ہوسکے گا، گذشتہ سالوں کی معلومات کے حصول کے لئے الگ میکنزم پر سوئس حکومت سے بات چیت جاری ہے، سوئس معاہدے میں یہ بھی شق شامل ہے کہ پاکستان کو مطلوب معلومات ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائیں گی ،حکومت جلد 200ممالک سے معلومات کے حصول کے لئے اضافی پروٹوکول پر دستخط کرنے جا رہی ہے، معلومات کے تبادلے کے حوالے سے جرمن حکام سے بھی رابطے جاری ہیں، برٹش اوریجن آئرلینڈ کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لئے معاہدے کا ڈرافٹ تیار کررہے ہیں، وفاقی کابینہ کے منظوری کے بعد یہ معاہدہ کیا جائے گا، اومنی گروپ اور بے نامی اکائونٹس کے حوالے سے جے آئی ٹی کا فیصلہ آنے پر دوبارہ سوئس حکومت سے رابطہ کرنا پڑے گا

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا افتخار درانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 5 دسمبر 2018 17:40

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 دسمبر2018ء) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ سوئس حکومت کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لئے دو طرفہ معاہدے کے بعد آئندہ 4تا 6ہفتوں میں پاکستان کو مطلوب معلومات ملنا شروع ہوجائیں گی ،سوئس حکومت کے ساتھ معاہدے کے فریم ورک کے مطابق 30نومبر2018 سے دوطرفہ معلومات کا حصول ہوسکے گا، گذشتہ سالوں کی معلومات کے حصول کے لئے الگ میکنزم پر سوئس حکومت سے بات چیت جاری ہے، سوئس معاہدے میں یہ بھی شق شامل ہے کہ پاکستان کو مطلوبہ معلومات ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائیں گی ،حکومت جلد 200ممالک سے معلومات کے حصول کے لئے اضافی پروٹوکول پر دستخط کرنے جا رہی ہے ،معلومات کے تبادلے کے حوالے سے جرمن حکام سے بھی رابطے جاری ہیں، برٹش اوریجن آئرلینڈ کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لئے معاہدے کا ڈرافٹ تیار کررہے ہیں، وفاقی کابینہ کے منظوری کے بعد یہ معاہدہ بھی کیا جائے گا، اومنی گروپ اور بے نامی اکائونٹس کے حوالے سے جے آئی ٹی کا فیصلہ آنے پر دوبارہ سوئس حکومت سے رابطہ کرنا پڑے گا۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو انفارمیشن سروسز اکیڈمی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا امور افتخار درانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال سے سوئس حکومت کے ساتھ معاہدے کے معاملے کو جان بوجھ کر التواء میں رکھا گیا ،موجودہ حکومت نے پہلے روز سے ہی اس معاملے پر کام شروع کیا اور سفارتی سطح پر رابطے شروع کیے ،پارلیمنٹ کی توثیق کے بعد سوئس حکومت کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط کیے ،معاہدہ 30نومبر 2018سے نافذ العمل ہوچکا ہے ، دنیا بھر میں بینکنگ سے متعلق معلومات خفیہ رکھنے والے ممالک میں سوئٹزرلینڈ بھی شامل تھا اس دوطرفہ معاہدے کے بعد پاکستان کو درکار معلومات جو کہ چاہے انفرادی یا کمپنی سے متعلق ہونگی، وہ سوئس حکومت فراہم کریگی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے اس معاہدے کے تحت سوئس حکومت سے مختلف معلومات مانگی ہیں جلد یہ معلومات ہمیں مل جائیں گی۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ سوئس لیکس کے حوالے سے جرمنی حکومت کے پاس ہماری مطلوبہ تاریخوں کا پاکستانی اکائونٹس ہولڈرز کا ڈیٹا موجود ہے، اس لئے جرمن حکومت کے ساتھ بھی بات چیت کی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایجنڈے میں احتساب سرفہرست ہے اسی لئے اس شعبے میں کام تیزی سے آگے بڑھایا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کی تحقیقات میں بھی کافی دشواری کا سامنا رہا ہے ، برٹش اوریجن آئرلینڈ سے بھی معلومات نہیں مل سکیں ،اس لئے برٹش اوریجن آئر لینڈ سے معاہدے کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے ،کابینہ کی منظوری کے بعد برٹشن اوریجن آئرلینڈ سے بھی معلومات کے تبادلے کا معاہدہ کیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ احتساب ٹاسک فورس اور قائم خصوصی یونٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے وی وی آئی پی ائیر کرافٹ کے غلط استعمال کی درخواست باقاعدہ نیب کو دیدی ہے، نیب اس درخواست پر ضابطے کی کارروائی کررہا ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس کیس دوبارہ نہیں کھولا جارہا، ابتدائی طور پر سوئس بینک میں 60 ملین ڈالر تھے جب اکائونٹس منجمد ہوئے بعد ازاں مارک اپ لگتا رہا اور جب پیسے نکلوائے گئے تو اس وقت 72ملین ڈالر تھے جو آصف علی زرداری کو ملے ہیں ،اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے ایک چٹھی لکھ کر سوئس کیس واپس لیا تھا جس پر سپریم کورٹ کے 7رکنی بینچ کا فیصلہ تھا کہ کیس واپس لینے والے کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن سابقہ حکومت نے بھی ایسا نہیں کیا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک اور بڑا کیس چل رہا ہے ،اومنی گروپ اور بے نامی اکائونٹس پر جے آئی ٹی کا فیصلہ بھی آنے والا ہے اس فیصلے کے بعد بھی ہمیں سوئس حکومت کا دوبارہ دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا ۔انہوں نے کہا کہ نیب سوئس حکومت کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کے معاملے کی پہلے ہی تحقیقات کررہا ہے ۔