تحریک عدم اعتماد سے قبل مشاہد حسین نے کیا گوریلا رپورٹ دی ؟

مشاہد حسین کی رپورٹ پر حاصل بزنجو اور پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کا کیا ردعمل تھا؟ صحافی عمر چیمہ نے پوری کہانی بیان کر دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 3 اگست 2019 11:39

تحریک عدم اعتماد سے قبل مشاہد حسین نے کیا گوریلا رپورٹ دی ؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 03 اگست 2019ء) : معروف صحافی عمر چیمہ نے چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق ایک گوریلا رپورٹ کا انکشاف کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عمر چیمہ نے اپنی اسٹوری میں لکھا کہ میری گوریلا رپورٹ کے مطابق چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے چار گھنٹے قبل تمام سینیٹرز تیاریوں پر نظر ثانی کے لیے سینیٹر راجہ ظفر الحق کے دفتر میں بیٹھے۔

اسی میٹنگ کے دوران مسلم لیگ ن کے ایک سینیٹر نے ایک ایسا انکشاف کیا جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ انکشاف اپوزیشن کے اندر سے اس تحریک کے حوالے سے کوئی راستہ نکالنے سے متعلق تھا جس حوالے سے اجلاس گذشتہ بدھ کو ہوا۔ عمر چیمہ نے کہا کہ میری گوریلا رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ ایک بزنس مین نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما کے ساتھ آدھی رات کو ملاقات کی۔

(جاری ہے)

انہوں نے بزنس ٹائیکون اور اس سے ملاقات کرنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما کا نام بھی بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ اُس کاورباری شخصیت کا کردار صرف ایک پیغام رساں کا تھا جنہوں نے سندھ حکومت کو یہ پیغام پہنچایا کہ سینیٹ میں عدم تعاون کی صورت میں سندھ حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے گا۔ سندھ حکومت کو مزید خبردار کیا گیا کہ اگر سینیٹ میں تعاون نہ کیا گیا تو سندھ حکومت کو دی جانے والی دیگر سہولیات بھی واپس لے لی جائیں گی۔

کاورباری شخصیت سے ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما نے یہ پیغام اپنے خونی رشتہ دار کو پہنچایا، جو کہ سیاست میں کافی متحرک ہیں۔ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ مشاہد حسین کی یہ معلومات اجلاس کے شرکا کے لیے کسی بم شیل سے کم نہیں تھیں۔ اس وقت میر حاصل بزنجو، شیری رحمان اور رضا ربانی بھی وہاں موجود تھے۔ رضا ربانی نے کہا کہ میں کاروباری شخصیت اور پیپلز پارٹی کے رہنما کے مابین ہونے والی اس ملاقات کی تصدیق یا تردید تو نہیں کر سکتا البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کو کوئی پیغام نہیں دیا گیا نہ ہی انہیں کسی قسم کی ہدایات جاری کی گئیں۔

شیری رحمان نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا جس کے بعد مشاہد حسین نے انہیں اپنے سینیٹرز پر نظر رکھنے کا مشورہ دیا۔ مشاہد حسین کی معلومات کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنما نے پانچ سینیٹرز کو پارٹی لائن کے خلاف ووٹ کاسٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اسی ڈیل میں کردار ادا کرنے والے ایک حکومتی نمائندے نے بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی کے کچھ اور سینیٹرز نے بھی صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا تھا۔

انہوں نے پارٹی قیادت کی ہدایات سے منحرف ہوتے ہوئے صادق سنجرانی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان سب کو ملا کر مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کے 7 سینیٹرز نے پارٹی لائن کے انحراف کیا۔ جبکہ باقی سات سینیٹرز مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں صحافی عمر چیمہ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے چند گھنٹے قبل مشاہد حسین سید نے پیپلزپارٹی میں توڑ پھوڑ کے حوالے سے کیا گوریلا رپورٹ دی؟ اس پر حاصل بزنجو اور پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کا کیا ردعمل تھا؟ جب لوٹوں کو بے نقاب کرنے کے لیے مشترکہ اپوزیشن کی کمیٹی کی تجویز آئی تو پیپلزپارٹی نے کیوں مخالفت کی؟ اس حوالے سے رپورٹ پڑھئے اور ساتھ ہی انہوں نے اپنی خصوصی رپورٹ کا لنک بھی شئیر کیا۔

یاد رہے کہ دو روز قبل سینیٹ کے معرکے میں متحدہ اپوزیشن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تھی۔ اپوزیشن کی قرارداد کی حمایت میں 50 اور مخالفت میں 45 ووٹ پڑے جبکہ 5 ووٹ مسترد ہوئے۔ جس کے بعد پریذائیڈنگ آفیسر بیرسٹر سیف نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کا اعلان کیا تھا۔

جس کے بعد صادق سنجرانی اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ ایسے میں اپوزیشن کو شکست کا دھچکا لگا تو اپوزیشن جماعتوں نے پارٹی لائن سے منحرف ہونے اور حکومت کا ساتھ دینے والے باغی سینیٹرز کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں مسلم لیگ ن اور پیپپلز پارٹی نے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں جو باغی سینیٹرز کا سُراغ لگائیں گی۔