شہید حکیم محمد سعید نہ ہوتے تو آج پاکستان میں طب کا وجود ختم ہو چکا ہوتا ۔

تعلیم و صحت شہید حکیم محمد سعیدکے خاص میدان عمل رہے ،یومِ پیدائش شہید حکیم محمد سعید کے موقع پر دانشوروں کا خطاب

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعہ 24 جنوری 2020 18:21

شہید حکیم محمد سعید نہ ہوتے تو آج پاکستان میں طب کا وجود ختم ہو چکا ہوتا ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 24 جنوری2020ء،نمائندہ خصوصی،سید علی بخاری) شہید حکیم محمدسعید نہ ہوتے تو آج پاکستان میں طب کاوجود ختم ہو چکا ہوتا،اُنکی انتھک محنت سے پاکستان میں نہ صرف طب کو حیات نو ملی بلکہ ترقی و فروغِ طب کے لیے طب کو سرکاری مقام ملا ،عالمی ادارہٴ صحت نے طب کو تسلیم کیا اور طب علمی و عالمی سطح پر موضوعِ فکروتحقیق بنی ،شہید حکیم محمد سعید کی پوری زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے ضروری ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی اس کتابِ سعید کا مطالعہ کرے اور دورِ حاضر کیلئے اس عظیم شخصیت کو اپنا رول ماڈل بنائے، شہید حکیم محمد سعید کی زندگی مختلف جہتوں سے عبارت تھی وہ صحافی،مفکر،ماہرِ تعلیم ،سیاح،مصلح قوم ،منتظم ، صنعت کار،خادم ملک و ملت تھے، حکیم صاحب کی بنیادی حیثیت اور تشخص طبیب اور طب کی تھی ، انہوں نے طب کے احیاء اور ارتقاء کے لیے جو کام کیا اور جسطرح طب کا مقدمہ لڑا ۔

(جاری ہے)


اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آج پوری دُنیا میں طب کا اساسی نظریہ علاج یعنی نباتات سے علاج زندہ ہو گیا ،تعلیم اور صحت انکے خاص رہے ،وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی قوم تعلیم اور صحت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدانوں میں بھی بہت کام کیا ،جامعہ ہمدرداور اسکے زیر اہتمام تعلیمی ادارے قائم کیے ،ہمدرد تعلیم رپورٹ بنام ’روشنی ‘مرتب کی ،جن کے ثمرات اب سامنے آ رہے ہیں،حکیم صاحب اہل وطن کی بنیادیں مستحکم کررہے تھے،کیونکہ خشت اول ٹیٹرھی ہو تو دیواریں سیدھی نہیں ہو سکتیں ،لہذا نونہالانِ وطن کی تربیت کو اپنی ترجیحات میں بنیادی ترجیح دی، اُنہوں نے اس ملک میں علم و طب کی شمعیں روشن کیں اوراپنا سارا کاروبار ملک و قوم کی تعمیر کیلئے وقف کر دیا۔



ان خیالات کا اظہار گذشہ روز شوریٰ ہمدرد کے اجلاس میں”طب یونانی -ماضی حال اور مستقبل -حکیم محمد سعید کی خدمات“کے موضوع پر مقررین نے اپنے خطاب میں کیا ۔مقررین میں حکیم راحت نسیم سوہدروی، طبیب عمر توصیف،حکیم عبدالقیوم،حکیم فضل امین،محترمہ شاہدہ جمیل،حکیم میاں سعید احمد،حکیم شوکت حسین ،حکیم محمد رفیق، ڈاکٹر عطاء الرحمن، حکیم عثمان حسین،طبیبہ عظمیٰ ہاشمی،حافظ احسان الرحمن،حکیم حسن مرتضیٰ،محترمہ خالدہ جمیل چوہدری، رانا امیر احمد خان ، سید احمد حسن ،طفیل اختر ،شائستہ ایس حسن و دیگر شامل تھے۔


اسپیکر شوریٰ ہمدرد محترمہ بشریٰ رحمن اور ڈپٹی اسپیکر شوریٰ ہمدرد محترم قیوم نظامی کی نجی مصروفیات کے پیش نظر اجلاس میں شرکت نہ کر سکے چنانچہ اجلاس میں سیکرٹری شوریٰ ہمدر دکے آغاز کے بعد اور اسپیکر شوریٰ ہمدرد کی رضا مندی پر اسپیکر کے فرائض محترم حکیم راحت نسیم سوہدروی نے نبھائے انہوں نے شہید حکیم محمد سعید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید پاکستان حکیم محمد سعید نے میدان طب کے ساتھ ساتھ ثقافت اور تعلیمی دنیا میں جامعہ ہمدرد اور اسکے زیر اہتمام ہمدرد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ، ہمدرد کالج آف ایسٹرن میڈیسن،ہمدرد کالج آف کامرس، ہمدرد پبلک سکول ، بیت الحکمہ (لائبریری جامعہ ہمدرد)اور دیگر ادارے قائم کر کے ’سرسید وقت ‘کہلائے،
شہید حکیم محمد سعید کی زندگی کا عنوان اسلام ،پاکستان اور طب ہے اور اِن کاشماراُن عظیم المرتبت افراد پاکستان میں ہوتا رہے گا جن کا مقصد حیات خدمت خلق اور تعمیر پاکستان رہا،شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی شخصیت اپنے علم و فضل ،ایثار و قربانی اور خلوص و شفقت کے باعث سرسید احمد خان ،علامہ اقبال اور قائداعظم کے بعد ’رول ماڈل ‘کی حیثیت رکھتی ہے،حکیم صاحب اپنی تمام تر سرگرمیوں کے باوجود مطب کرتے اور ہر ماہ باقاعدگی سے لاہور ،پشاور اور راولپنڈی جبکہ گاہے گاہے فیصل آباد ،ملتان ،حیدر آباد اور دوسرے مقامات پر جاتے یہ معمول زندگی بھر قائم رہا ، ہمدرد کو معیار ی دواساز ادارہ بنانے کے ساتھ ساتھ انجمن ترقی طب قائم کی۔

اسی انجمن کے زیر اہتمام حکیم محمد سعید کی قیادت میں پہلا طبی وفد عوامی جمہوریہ چین گیا ،جس نے واپسی پر اپنے دورہ کی رپورٹ پیش کی ۔ چین نے نہ صرف پاکستان میں طب کو تسلیم کیا بلکہ ۱۹۶۵ءء کا طبی ایکٹ بھی منظور ہوا ،طبی تعلیم باقاعدہ ہوئی ۔پاکستان اور عوامی چین میں تعلقات کا آغاز بھی ہوگیا۔اس کے بعد حقوق اطباء کیلئے پاکستان طبی ایسوسی ایشن (جو اب پاکستان ایسوسی ایشن فارایسٹرن میڈیسن ہے)قائم کی ۔

اس ایسوسی ایشن کی مساعی سے پاکستان کی طبی تاریخ میں پہلی صدارتی سطح پر جنرل ضیاء الحق کی صدارت میں کانفرنس ہوئی اور ترقی طب کے لیے عادلانہ اقدامات ہوئے۔انہیں طب بارے صدارتی مشیر بدرجہ وفاقی وزیر مقرر کیا گیا ،انکی جد وجہد سے طبی بورڈ کو نیشنل کونسل فار طب کا درجہ دیا گیا ،بلدیاتی اداروں کو طبی ڈسپنسریاں قائم کرنے کی ہدایت ہوئی مختصرا یہ کہ وہ طب کے لیے بہت کچھ کرنے کے خواہش مند تھے مگر چند بااختیار عناصر رکاوٹ بنے تو انہوں نے وقت ضائع کرنے کی بجائے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی توجہات کا رُخ موڑ دیا ،جہاں انہیں بہت سی کامیابیاں ملیں ،یونیسیف اور یونیسکو نے طب کو موضوع فکرو تحقیق بنایا ،عالمی ادارہ صحت نے طب کوتسلیم کر کے افریشائی ممالک کو ہدایت کی کہ وہ اپنے مسائل صحت کے حل کیلئے اپنی صحت پالیسیوں میں اپنی علاقائی طبوں کو شامل کریں،کویت میں طب اسلامی سنٹر کا قیام اور دنیا بھر کی جامعات میں نباتات پر سیمینارز اور علاج معالجہ کا رجحان اور سب سے بڑھ کر طب کو جدید میڈیکل سائنس کے برابر لا کھڑا کرنا ان کا کارنامہ ہے ،طب و اطباء کے لیے ماہ نامہ اخبار الطب اور طبی تحقیق کے لیے سہ ماہی ہمدرد میڈیکس اجراء سے آواز طب دنیا بھر میں پہنچ گئی اور طب کا مقدمہ جو پاکستان سے شروع ہوا ۔

پوری دنیا میں دلچسپی کا سامان بن گیا ،حفظ صحت کا شعور بلند کرنے کیلئے ان کی زیر ادارت ہمدرد صحت جاری ہوا جس کو آج 65سال مکمل ہو چکے ہیں مگر آج بھی صحت کے حوالے سے مقبول جریدہ ہے ۔شہید حکیم محمد سعید اردو ،پنجابی ،انگریزی ،سندھی ،بلوچی ،پشتو، عربی ،فارسی بخوبی جانتے تھے ۔انہوں نے طب و صحت ،علم و ادب اور اسفار پر کوئی دوصد کتابیں تحریر کیں اور پانچ صد سے زائد مضامین لکھے ۔

طب کی بعض نادر و نایاب کتب مثلاابن سینا کی ادویہ قلبیہ ،البیرونی کی العید نہ فی الطب ،ابن الطبری کی فردوس الحکمت اور ابن الہثم کی بصارت پر کتاب کے تراجم کرا کے شائع کیے ،طب کے اساطین اور ان کے عظیم الشان کارناموں پر عالمی سطح پر مذاکرے کرائے ،نیز جدید طبی تحقیق کے حوالے سے سمپوزئمز کر کے تحقیق کی روایت کو آگے بڑھایا ،خود بھی ایک سو سے زیادہ کانفرنسوں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ مقالات پڑھے ۔

یوں وہ طب کے علمی و عالمی سفیر بن گئے تھے۔انکی خدمات جلیلہ پر ان کو بے شمار ملکی و غیر ملکی اعزازت ملے ۔جن میں سویڈن سے ڈاکٹر آف سائنس ،روس سے ابن سینا ایوارڈ شامل ہیں،
شہید حکیم محمد سعید کو عظمت طب اور رفعت اطباء سے دلی تعلق تھا ،وہ صرف علم پر ور طبیب ہی نہ تھے بلکہ مصلح قوم بھی تھے ،ملک و ملت کا درد ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ،ملک اور ملت اسلامیہ کے حالات پر گہرا غوروفکر کرتے، انہوں نے ”شام ہمدرد “کے نام سے پلیٹ فارم بنایا ،جسمیں ارباب دانش ملکی ،ملی معاملات پر اظہار خیال کرتے ،بعد ازاں اسے شوریٰ ہمدرد(ہمدرد تھنکرز فارم)کی صورت دے دی گئی ،یہ فارم ہر ماہ پشاور ،راولپنڈی ،لاہور اور کراچی میں باقاعدہ اجتماعات کرتا ہے ۔

نونہالوں سے حکیم صاحب کو مقوی محبت تھی ۔انکی تعلیم و تربیت کے لیے ہمدرد نونہال رسالہ جاری کیا ، جسے آج ساٹھ سال سے زیادہ ہو چکے ہیں ،پھر نونہال اسمبلی بنائی ،جسکے چاروں بڑے شہروں پشاور ،راولپنڈی ،لاہور اور کراچی میں ہر ماہ ہوتے ہیں ۔ اس اسمبلی کے ذریعے تیار ہونے والے نونہال آج اہم عہدوں پر فائز ہیں ۔غذا کے لیے ایک ناشتہ ایک کھانا کی مہم چلائی ،وہ خود بھی زندگی بھر ایک ناشتہ اور ایک کھانا پر اکتفاء کرتے رہے ۔

ہمدرد جب ایک باوقار مستحکم ادارہ بن گیا ،تو اسے اپنے بڑے بھائی کی طرح اللہ پاک کے نام پر وقف کر دیا اور خودکو مقاصد ہمدرد کیلئے وقف کردیا ۔کتب خانوں کی ترقی کیلئے انجمن قائم کی ۔علم و حکمت کی تلاش میں دور دراز کے سفر کیے ،گورنر سندھ بنے مگر مطب کی ذمہ داریاں نہ چھوڑیں ،کوئی سرکاری سہولت نہ لی،بلکہ اپنی گرہ سے خرچ کر کے دور اسلام کی اعلیٰ روایات کا احیاء کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ایک ادارہ اور ایک تحریک تھے ،انہوں نے جو کام کیے وہ ایک فرد کے نہیں بلکہ حکومتوں کے کرنے کے تھے ،ان کی عظمت ان کے کاموں سے عیاں ہے ۔محترم احمد حسن نے کہا کہ حکیم صاحب کی کمی ہمیشہ محسوس ہوگی کیونکہ انہوں نے پاکستان کی ،انسانیت کی اور طب مشرق کے فروغ کیلئے قابل قدر خدمات انجام دیں ،انہوں نے مزیدکہا کہ حکیم صاحب بلا شبہ علم وحکمت کی بہار اور طب کا وقار تھے وہ پاکستان کی خدمت کرتے کرتے شہید ہوگئے ۔