ہر ذی شعور کو سمجھنا چاہیے کچھ لوگ تیس پینتیس سال اقتدار میں رہے ہیں اورکچھ کو ابھی پینتیس مہینے نہیں گزرے ،نیب مایوس نہیں کریگا ‘ جسٹس (ر) جاوید اقبال

پک اینڈ چوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،نیب کا ادارہ عوام کی خدمت کے لئے وجود میں آیا یہ بڑے لوگوں کی خدمت کے لئے وجود میں نہیں آیا

منگل 15 جون 2021 15:56

ہر ذی شعور کو سمجھنا چاہیے کچھ لوگ تیس پینتیس سال اقتدار میں رہے ہیں ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جون2021ء) چیئرمین قومی احتساب بیورو ( نیب) جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ جو لوگ چند کیسز میں یہ مثالیں دیتے ہیں کہ حکومتی لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو رہا وہ اس کی تاریخ دیکھ لیں ، ان کیسز میں عدالتوں کے فیصلے آئے ہوئے ہیں اور عدالتوں نے روکا ہے ، ایک بات ہر ذی شعور کو سمجھنی چاہیے کہ کچھ لوگ تیس پینتیس سال اقتدار میں رہے ہیں اورکچھ کو ابھی پینتیس مہینے نہیںگزرے لیکن نیب مایوس نہیں کرے گا ،پک اینڈ چوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،نیب کا ادارہ عوام کی خدمت کے لئے وجود میں آیا یہ بڑے لوگوں کی خدمت کے لئے وجود میں نہیں آیا ،اگر نیب سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہوتا تو سٹاک ایکسچینج اوپر نہ جاتی جس نے تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑے ہیں ،آپ کی برآمدات اتنی زیادہ نہ ہوتیں،آپ کو ترسیلات زر نہ ملتیں، تعمیراتی شعبہ اتنا ترقی نہ کرتا ہے،یہ کہا گیا کہ نیب چھوٹی مچھلیوں کو پکڑتا ہے ، ہم نے تو شارک مچھلیوں اور مگر مچھوں کو بھی پکڑا ہوا ہے اورسمندر میں اس سے بڑی کوئی اورمخلوق نہیں جسے ہم نہ پکڑیں،نیب آرڈیننس میں لاکھ دفعہ ترامیم کریں لیکن سپریم کورٹ اسفند یار ولی کیس میں نیب قانون کے ایک ایک لفظ کو دیکھ چکی ہے ، جو شقیں آئین سے مطابقت نہیں رکھتی تھی وہ ختم ہو چکی ہیں،کیا کچھ لوگ سپریم کورٹ سے زیادہ ذہین اورزیادہ قابل ہیں ،بتائیں پلی بار گن ختم کر کے کیا طریق کار اختیار کریں گی ،آپ بیشک ترامیم کریں ، قانون سازی پارلیمنٹ کااختیار ہے ،ارباب اختیار سے گزارش کروں گا جیسے مرضی قانون میں ترمیم کریں لیکن اسفند یار ولی کو کیس میں سامنے رکھیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیب لاہور کے دفتر میں ٹویوٹا گوجرانوالہ کیس میں 660متاثرین میں90کروڑ روپے کے چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر ڈی جی لاہور شہزاد سلیم سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب ایک انسان دوست ادارہ ہے ، نیب نے جب بھی کوئی اقدام اٹھایا پہلے پاکستان کی بہتری کے لئے اٹھایا اور پھر عوام کی بہتری کے لئے اٹھایا ، ہمیں اس سے اس سے کوئی غرض نہیں کہ جن بڑے لوگوں کے خلاف کیسز درج ہوئے وہ میڈیا میں آکر کیا کہتے ہیں ،ان کی تنقید کیا ہوتی ہے کوئی یہ نہیںکہہ سکتا کہ ہمارا کوئی اقدام ملک یا عوام کے خلاف تھا ۔

نیب کا ادارہ عوام کی خدمت کے لئے وجود میں آیا یہ بڑے لوگوں کی خدمت کے لئے وجود میں نہیں آیا ،شاید بڑے لوگوںکو توہماری خدمت کی ضرورت ہی نہیں ہوئی ۔ انہوںنے کہا کہ چند دن پہلے مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک صاحب خطاب کر رہے تھے اور انہوں نے کہاکہ سرمایہ کاری نیب کی وجہ سے رک گئی ہے اور نیب کے قانون ہے میںتبدیلی ہونی چاہیے ،کاش یہ لوگ نیب کا قانون پڑھ کر آ جاتے ، تنقید برائے تنقید نہیں ہونی چاہیے ۔

ہم نے تنقید برائے تعمیر کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے ،جو تنقید برائے تعمیر کرتے ہیں ان کے لئے سب بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ انہیںحقائق کا ادراک ہونا چاہیے ، انہیں حقائق کا ادراک ہوتا نہیں او ریہ روسٹرم پر آکر تقریر شروع کر دیتے ہیں ، یہ کہتے ہیں کہ نیب او رپاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ، نیب او رپاکستان ساتھ ساتھ چل رہے ہیں نیب او رکرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

جو لوگ بات کرتے ہیں ان کے لئے حقائق اور قانون سے واقفیت ضروری ہے ۔ جو سویرے عدالت میں پیشی بھگت رہے ہوتے ہیں وہ ایک گھنٹے بعد خطاب کر رہے ہوتے ہیں اوران کا جو دل چاہتا ہے کہتے ہیں۔ تنقید کیلئے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں وہ ان کو پیش نظر رکھ کر تنقید کریں نیب کو بھی ان سے سیکھنے کا موقع ملے گا ، یہ نہیں کہ آپ چار گالیاں دے کر چلے جائیں گے اس سے اس سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ نیب سرمایہ کاری میں کوئی رکاوٹ نہیں ،آج آپ کی برآمدات بڑھ رہی ہیں یہ صرف نیب کی وجہ سے بڑھ رہی ہے ، ایک سرمایہ کار بتا دیں جس نے یہ کہا ہو کہ میں نیب کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیںکرتا ۔ اگر نیب رکاوٹ ہوتا تو سٹاک ایکسچینج اوپر نہ جاتی جس نے تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑے ہیں ،آپ کی برآمدات اتنی زیادہ نہ ہوتیں،آپ کو ترسیلات زر نہ ملتیں، تعمیراتی شعبہ اتنا ترقی نہ کرتا ہے،آج بیرون ممالک سے پاکستانی کروڑوں ڈالر کی ترسیلات زر بھجوا رے ہیں ، اگر نیب کا منفی رویہ ہوتا تو وہ کبھی نہ بھجواتے اور کہتے وہا ں نیب ہے ، نیب تو تحفظ کی آماجگاہ ہے ، اس تحفظ کی وجہ سے بلا خوف و خطر ترسیلات زر پاکستان آرہی ہیں ،کاروبار ہو رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک روشن پہلو اورتاریک پہلو ہوتا ہے ، اگر آپ روشن پہلو کی بات نہیں کرسکتے تو تاریک پہلوئوں کو اجاگر کر کے جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیںعوام کو مایوس تو نہ کریں ،نیب آپ کا اپنا ادارہ ہے ، آپ شاباش نہ دیں کیونکہ ہمیں عوام سے جو دعا اور شاباش ملتی ہے ایسے میں آپ کی دعا اور شاباش کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔

انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ یہ کہا گیا کہ بزنس مین کمیونٹی مطمئن نہیں اور قانون میں ترمیم ہونی چاہیے اور بھی ہو گئی ،اس کے لئے آرڈیننس اور وہ چار مہینے رہا ۔چار مہینے میں ایک فیصلہ بتا دیںجس میں یہ کہا گیا کہ ہو نیب رکاوٹ ہے تو میں ہر سزا بھگتنے کے لئے تیا رہوں ، ہم تو کہا ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی شکایت آئی ہے تو ہمیں بھی بتا دیں ہمیں بھی گائیڈ لائنز مل جائیں گی لیکن کوئی ایک فیصلہ بھی نہیں تھا اور چار مہینے بعد یہ آرڈیننس واپس لے لیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ معیشت بہتر ہو گی تو فادہ عوام کاہوگا ،ملک خوشحال ہوگا تو دفاع مضبوط ہوگا ،کاروبار ملے گا کیا نیب کو ان باتوں کا ادراک نہیں ہی ۔انہوں نے کہا کہ جتنے بھی بزنس مین ہیں میں انہیںیقین دلاتا ہوں نیب کی وجہ سے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جو آپ کی مشکل کا سبب بنے ، نیب مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کا حل ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ ساڑھے تین سال میں 533ارب روپے کی ریکوری ہوئی ہے ، شاید 533روپے کی بھی ریکوری بھی نہ ہو سکی ہو ۔

یہ کہا گیا کہ نیب نے اتنی ریکوری نہیں کی آئندہ سے ہم جب ریکوری کریں گے تو اسٹیٹ بنک سے نوٹ گننے والی مشین اور ان صاحب کو بھی بلائیں گے جو کہتے ہیں نیب نے اتنی ریکوری نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ غلطیاں ہوئی ہوں گی او رمیں اس کا اعتراف کرتا ہوں اور ذمہ داری بھی لیتا ہوں ، خامیوں سے پاک صرف رب کی ذات ہے ہر انسان میں خامیاں ہوتی ہیں، عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے ،رب جسے عزت دینا چاہے تو چند بیانات اس کی عزت کو ذلت میں تبدیل نہیں کر سکتے ، نیب جس طریقے سے کام کر رہا ہے وہ کرتا رہے گا ۔

یہ کہا گیا کہ نیب چھوٹی مچھلیوں کو پکڑتا ہے ، ہم نے تو شارک مچھلیوں اور مگر مچھوں کو بھی پکڑا ہوا ہے اورسمندر میں اس سے بڑی کوئی اورمخلوق نہیں جسے ہم نہ پکڑیں،چھوٹی مچھلیاں تو جال سے نکل جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان سے بھی جوابدہی کی ہے جنہیں ماضی میں کوئی حکومت یا ادارہ بلا سکا اور نہ ان سے پوچھ سکا اور ہمارے ادارے کی ریکوری اس کی گواہ ہے ۔

ہم نے بزنس مین کمیونٹی کے تحفظات دور کرنے کے لئے کل وقتی ڈائریکٹر کا تقرر کر دیا ہے اور حکم دیا کہ بزنس مین کی اڑتالیس گھنٹے میں شکایت کو حل کرنا ہے ۔ میںایک بار ضرور کہوں گا کہ جینوئن بزنس میں اور ڈکیت میںفرق کو روا رکھنا ہے ،ایک وہ ہیں جو معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ، عوام کو روزگار دینے کے لئے کام کرتے ہیں اور دوسرے نمبر دو ہیں او ر مجھے انہیںڈکیت کہنے میں کوئی عار نہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی میں ایک سوسائٹی کے پلاٹ بیچے گئے اور لوگوں سے اڑھائی ارب روپے اکٹھے کئے گئے لیکن نہ پلاٹ دئیے گئے اور نہ پیسے واپس کئے گئے ، کیا پاکستان میں غریب آدمی اپنی چھت کا خواب نہیں دیکھ سکتا، سات سال گزرنے کے باوجود ڈھائی ارب روپے واپس نہ کئے گئے ۔ میںنے ان صاحب کو بلایا اور ان سے عزت و احترام سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا تھاکہ پہلے پیسے لے لوں پھر زمین خرید لوں گا لیکن اب زمین مل نہیں رہی ، انہوںنے یہاں تک کہا کہ نیب زمین خریدنے میں میری مدد کرے ، میں نے کہا کہ نیب پراپرٹی ڈیلر کا کام نہیں کرتی ۔

ان سے کہا کہ آپ رقم ادا کریں تو انہوں نے کہا کہ فوری ادا نہیں کر سکتا جس پر انہیں کہا گیا کہ آپ نے یہ رقم ادا کرنی ہے او راس کے علاوہ کوئی اورراستہ نہیں ۔میں نے انہیں کہا کہ کسی کے کفن کے ساتھ جیبیں نہیں ہیں ، ہر انسان نے اس دنیا سے جانا ہے اور و ہ اپنے ہر قول و فعل کا اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہے ۔ ہم ان صاحب سے ایک ارب روپے سے زیادہ وصول کر کے لوگوں کو واپس کر چکے ہیں۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ یہ کہاگیا کہ پلی بارگین ختم کر دیں ، جب ان سے پوچھا گیا یہ کیا ہوتی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس میں ایک دوسرے سے سودا کر لیتے ہیں۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ پلی بار گین کئی ممالک کے قانون میں ہے اور یہ نیب اپنے طو رپر نہیں کر سکتی بلکہ اس کے لئے حتمی حکم عدالت کا ہوتا ہے ،بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ پلی بار گین کی گئی اورسو روپے کی بجائے پچانوے روپے لے لئے گئے جس کا مقصد سو روپے کو ضائع ہونے سے بچانا ہے ، پلی بار گین کے لئے کوئی جبر نہیں ،کوئی پریشانی نہیں ، ہتھکڑی نہیں لگائی جاتی ۔

آپ نیب آرڈیننس میں لاکھ دفعہ ترامیم کریں لیکن سپریم کورٹ اسفند یار ولی کیس میں نیب قانون کے ایک ایک لفظ کو دیکھ چکی ہے ، جو شقیں آئین سے مطابقت نہیں رکھتی تھی وہ ختم ہو چکی ہیں،کیا کچھ لوگ سپریم کورٹ سے زیادہ ذہین اورزیادہ قابل ہیں ،بتائیں پلی بار گن ختم کر کے کیا طریق کار اختیار کریں گی ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک میں یہ کرپشن لاز میں شامل ہے ،آپ بیشک ترامیم کریں ، قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور ہم ا س کا احترام کرتے ہیں کیونکہ پارلیمنٹ مقدس ادار ہے ، لیکن کسی بھی ترامیم سے پہلے حکومت کے ذہنوں میں ہونا چاہیے کہ وہ اسفند یار ولی کیس کا فیصلہ بھی پڑھ لیں ۔

کبھی تو ایسی قانون سازی ہونی چاہیے جس سے ایک عام آدمی کو بھی فائدہ پہنچے ، وہ ترامیم ہوں جو لوگوں کی بہتری کے لئے ہوں نہ کہ اس قسم کی ڈکیتیا ں ہو سکیں ۔انہوں نے کہا کہ ڈبل شاہ کا کیس سب کے سامنے ہے ، مضاربہ، لاثاثی کا کیس بھی سب کے سامنے ہے جس میں لوگوں سے اربوں روپے لوٹ لئے گئے ۔اب ہماری پوری کوشش ہے کہ اب کوئی دوسرا ڈبل شاہ پید انہ ہو، اگر اسے سزا نہ ملتی ہر محلے میں ڈبل شاہ پید اہو چکا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ بزنس مین کو نیب سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ، ان کے تحفظا ت تھے کہ ان کیسز ایف بی آر کو بھجوائیں جائیںاور ہم سب کیسز ایف بی آر کو بھجوا چکے ہیں۔ یہ کہنا صریحاًزیادتی ہے نیب کی وجہ سے سرمایہ کار خوفزدہ ہیں ،سرمایہ کار ذہن لوگ ہیں اور وہ سب اچھی طرح جانتے ہیںکہ سٹاک ایکسچینج واحد ادارہ جس کی ترقی سے ملک میں ہونے والی سر گرمیوں کے اشاریوں کو دیکھا جا سکتا ہے، یہ ستر سال میں اتنی اوپر نہیںگئی ، ہماری ایکسپورٹ بڑھی ہیں اور اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اگر کسی کو شوق ہے تو وہ آرڈیننس میں ترامیم کر لے ، اس کا سپریم کورٹ او رکچھ کیسز میں ہائیکورٹس بھی جائزہ لے چکی ہیں، جو کرنا ہے بیشک کریں کیونکہ یہ آپ کااختیار ہے ۔لیکن جینوئن بزن مین کو نیب سے کوئی شکایت نہیں تھی نہ ہونے دیں گے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس سے زیادتی ہو رہی ہے اس کے لئے نیب کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آپ چیمبرز کی مشاورت سے مربوط تجارتی پالیسی بنائیں، سرایہ کاروں کو سستی گیس اور بجلی دیں ،ون ونڈو آپریشن چاہیے لیکن نیب کو لعن طعن کرنے سے دشنام درازی سے کوئی فائدہ نہیں ۔

اگر فرض کریں کسی سے زیادتی ہوئی ہے تو ملک میں عدلیہ آزاد ہے ۔ نیب کا احتساب تو تب ہی شروع ہو جا تا ہے جب وہ کسی کو نوٹس بھجواتا ہے ، ریمانڈ نیب نہیں دیتا بلکہ جج صاحب دیتے ہیں، بادی النظر میں کیس بنتا ہو تو ریمانڈ ملتا ہے ،1300رریفرنسز زیر سماعت ہیںان میں دو فیصد بھی بزنس مین نہیں ہیں ، پھر کس طرح کہہ سکتے ہیں زیادتی ہو رہی ہے ۔کیسے انڈسٹریز بہتری کی طرف جارہی ہے کیونکہ پالیسیوں میں بہتری نظر آرہی ہے ۔

نیب تو پہلے بھی موجود تھا آج بھی موجود ہے ،نیب نے اپنا کام کرنا ہے اور وہ کرتا رہے گا۔جب کسی علاقے میں تھانیدار دیانتدار آ جائے تو چور سارے اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن نیب کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا،اپنا کام کرتا تھا اپنا کام کر رہا ہے اورآئندہ بھی اپنا کام کرتا رہے گا ۔یہ کہا گیا کہ یہ بھی کہا گیا کہ بیورو کریٹس پریشان ہیں ، وہ شاید کسی اور وجہ سے ہوں گے وہ نیب کی وجہ سے کیوںپریشان ہوں گے،1300ریفرنسز میںدو فیصد بھی بیورو کریٹس نہیں ۔

میں نے حکم دیا کہ بیورو کریٹس کو نہ بلایا جائے بلکہ انہیں سوالنامہ بھجوایا جائے کیا ان سے پوچھنا بھی گناہ ہے، جب وہ سوال کا جواب نہ دیں تو پھر تو پوچھنا نیب کا حق بنتا ہے ۔ مجھے بیور وکریسی میں سے ایک صاحب نے کہا کہ مجھ سے بڑی زیادتی ہوئی ہے مجھے پانچ سال سزا دی گئی تو میں نے کہا کہ یہ سزا نیب نے نہیں دی بلکہ یہ عدالت نے دی ہے ، نیب تو صرف اپنا کیس پیش کرتا ہے ، درجنوں کیسز ایسے ہیں جن میں کہا گیا کہ ذاتی انتقام لیا جارہا لیکن ساری درخواستیں خارج ہو گئیں اگر کیسز غلط ہوتے یہ درخواستیں کیوں خارج ہوتیں، اتنے سال جیل میں نہ رہتے ،جو بھی جیل میں ہیںوہ عدالت کے حکم سے جیل میں ہے اور جو عدالت کے حکم سے جیل میں ہے وہ معصوم نہیں ہے ۔

ضمانت دینے یا قید رکھنے کا اختیار نیب کے پاس نہیں ۔انہوںنے کہا کہ بہت زیادہ شوروغوغا کیا جارہا ہے لیکن میں ارباب اختیار سے گزارش کروں گا جیسے مرضی قانون میں ترمیم کریں لیکن اسفند یار ولی کو کیس میں سامنے رکھیں ، نیب کا پہلا اورآخری مقصد پاکستان اور عوام کی خدمت ہے ، مجھے کسی کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں ، انتقامی کارروائی تب ہو جب اس میں ذاتی مفاد شامل ہو ، کوئی بھی شخص یہ ثابت کردے کہ میرا کسی مقدمے میں ذاتی مفاد تھا میںہر سزا بھگتنے کے لئے تیا رہوں ، اگر کیس بنتا ہے تو کیس بنے گا، پھر ہم نے فیس کو نہیں صرف کیس کو دیکھنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ لوگ چند کیسز کی مثالیں دیتے ہیں کہ حکومت کے لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو رہا ، میری گزارش ہے کہ ان کیسز کی تاریخ کو دیکھ لیں ،اس میں سپریم کورٹ یا ہائیکورٹس نے روکا ہے اور اس میں ججمنٹ آ چکی ہیں، پک اینڈ چوز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک بات ہر ذی شعور کو سمجھنی چاہیے کچھ لوگ تیس پینتیس سال اقتدار میں رہے ہیں اورکچھ لوگوں کو ابھی پینتیس مہینے نہیںگزرے لیکن نیب مایوس نہیں کرے گا ،کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ پک چوز ہوئی ، نیب میں رعایت دینے کا کوئی تصور نہیں ہے ، نیب میںدھونس اور دھانس بلیک میلنگ کا بھی تصور نہیں ہے اگر کیس ہے تو کیس بنے گا۔

اگر کسی پاپڑوالے کے اکائونٹ میں منی لانڈرنگ کے کروڑوں اربوں آئے ہوں اور اس سے پوچھا جائے تو پاپڑ والا توگنا ہگار نہ ہوا ماسوائے کہ اس کے اکائونٹ میں پیسے آتے رہے ، ملک میں اس سطح پر حد تک منی لانڈرنگ ہے ،یہی عام آدمی کی مشکلات کا سبب ہے کیوکہ کروڑوں اربوں کی منی لانڈرنگ ہوئی ہے ۔یہاں اسے لوگ بھی ہیں جو ہنڈا70پر آئے اورپھر جہاز خرید لئے ہیں اگر آپ جہاز خریدیں گے تو آپ پھر منی ٹریل بھی تو دیں۔انہوں نے کہا کہ میں بیورو کریٹس ،بزنس مین اور سیاستدانوں کا احترام کرتا ہوں ، میں نے کبھی بھی کسی سیاستدان کا نام نہیں لیا ،کروڑوں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے گواہاں موجود ہیں ،انہوں نے حلف نامے بھی جمع کر ادئیے ہیں پھر جب نیب پیشرفت کرے تو یہ زیادتی کی بات تو نہیں ہے ۔