امریکہ ابھی گیا نہیں، اپنے ایجنٹوں کی شکل میں یہیں موجود ہے

امریکہ 20 سال خطے میں رہا اور اب بھی اپنےاثاثوں کی شکل میں موجود ہے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 3 ستمبر 2021 11:36

امریکہ ابھی گیا نہیں، اپنے ایجنٹوں کی شکل میں یہیں موجود ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 03 ستمبر 2021ء) : سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری نے کہا کہ امریکہ 20 سال خطے میں رہا اور اب بھی اپنے اثاثوں کی شکل میں موجود ہے ۔ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی جیسے ایجنٹ کو استعمال کرلیا تھا تو کیا اب اس کے افغانستان میں ایجنٹ یا اثاثے موجود نہیں ہوں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور امریکی جنرلز کہہ چکے ہیں کہ وہ خطے میں موجودگی رکھیں گے ۔ اگر پاکستان تاجکستان یا ازبکستان انہیں اڈے نہ بھی دے تو بحر ہند میں ان کے طیارہ بردار جہاز موجود ہیں وہ کسی نہ کسی شکل میں اپنی موجودگی رکھیں گے۔ امریکہ نے اُسامہ بن لادن کی مرتبہ بھی بلا اجازت حملہ کیا تھا۔

(جاری ہے)

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے کہا کہ افغانستان کی تازہ صورت حال سے امریکہ، یورپ، پاکستان اور خود طالبان کو بھی کئی طرح کے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاہم طالبان کو دیوار سے لگا دینے سے تباہی آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اور مغرب کو اب افغانستان کا پیچھا چھوڑ دینا چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ 20 سال جس فوج کی تربیت کی گئی ریت کی دیوار کی طرح اس کاڈھے جانا پوری دنیا کے لئے حیران کن رہا ، اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، بنیادی وجہ کرپشن رہی، پیسہ حکمران طبقے میں تقسیم کیا جاتا تھا ایسی رپورٹس بھی آئیں کہ محاذ پر بھیجی جانے والی فوج کے پاس کھانا اور جوتے تک نہیں تھے ، دوسری طرف لیڈر اشرف غنی فرار ہو گیا تو وہ کس کے لئے لڑتے ، افغانیوں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے ملک کو اکٹھا اور متحد رکھنا ہے ، تاجک ، ازبک ہزارہ ترکمان سب کو ساتھ لے کر چلیں یہ نہ ہوا تو افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ مکالمت اور مفاہمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہی بات کئی مغربی رہنما بھی کر چکے ہیں جبکہ اس خطے میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے اثر و رسوخ کو پنپنے سے روکنے کی خاطر واشنگٹن حکومت بھی طالبان کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔